ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب نسل کے تیندووں کو تحفظ کی ضرورت ہے اور پوری دنیا میں اس نسل کے دو سو تیند وے باقی رہ گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تیندووں کے معدوم ہونے کا
خدشہ اس لیے اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں رہتے ہیں
اور ان کے بچے کم ہوتے ہیں۔ بچے کم ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت آہستہ
بڑھتی ہے۔
اس خطرے کو کم کرنے کے لیے شارجہ میں
واقع ’دی اریبین وائلڈ لائف سینٹر‘ گزشتہ دس برسوں سے ان کی شرح پیدائش میں
اضافے کے لیے ان کی افزائش کر رہا ہے۔
اریبین وائلڈ لائف سینٹر متحدہ عرب امارت کا واحد
ادارہ ہے جو ان تیندووں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے اور ان کی ختم ہوتی
نسل کے بارے میں لوگوں کو اجاگر کرنے میں کوشاں ہے۔
شارجہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے
ادارے ’انوائرومینٹ اینڈ پروٹیکٹیڈ ایریاس اتھارٹی‘ کے چئیرمین ہنا سیف
السعودی کا کہنا ہے کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صحرا میں دور دور تک
صرف ریت کے ڈھیر پھیلے ہوتے ہیں لیکن یہ تصویر غلط ہے۔
’ہمارے یہاں مختلف جغرافیائی خطے ہیں۔ یہاں پہاڑی علاقے ہیں، ساحلی علاقے ہیں۔‘
متحدہ عرب امارات میں گزشتہ پندرہ سالوں سے
تیندووں کو عام عوام کے سامنے نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ
اس نسل کے تیندوے عمان، سعودی عرب اور یمن میں بھی پائے جاتے ہیں۔
ہنا سیف السعدی کا کہنا ہے کہ ان تیندووں کے تحفظ
کے لیے وہ ان تینوں ممالک میں جنگلات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں
سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment