شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے
توپ کے دھڑ، بم کے سر ، راکٹ کے پر پیدا کرو
شیخ ،ناصح، محتسب، ملا، کہو! کس کی سنیں؟
یارو کوئی ایک مردِ معتبر پیدا کرو
میں بتاتا ہوں زوالِ ا ہلِ یورپ کا پلان
اہلِ یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
No comments:
Post a Comment