نہیں دیکھا
بچھڑا ہے جو اک بار
تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو ہم نے
کبھی سلتے نہیں دیکھا
اک بار جسے چاٹ گئی
دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو
کھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گرا ہے تو
جڑیں تک نکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی
ہلتے نہیں دیکھا
کس طرح مری روح
ہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے
جسم میں کھلتے نہیں دیکھا۔
No comments:
Post a Comment