يہ تيري زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا
جس پہ قانون بھي لاگو ہو وہ ہتھيار چلا
پيٹ ہي پھول گيا اتنے خميرے کھا کر
تيري حکومت نہ چلي اور ترا بيمار چلا
بيوياں چار ہيں اور پھر بھي حسينوں سے شغف
بھائي تو بيٹھ کے آرام سے گھر بار چلا
اجرت عشق نہيں ديتا نہ دے بھاڑ ميں جا
لے ترے دام سے اب ترا گرفتار چلا
سنسني خيز اسے اور کوئي شے نہ ملي
ميري تصوير سے وہ شام کا اخبار چلا
يہ بھي اچھا ہے کہ صحرا ميں بنايا ہے مکاں
اب کرائے پہ يہاں سايہ ديوار چلا
اک اداکار رکا ہے تو ہوا ہے اتنا ہجوم
مڑ کے ديکھا نہ کسي نے جو قلمکار چلا
چھيڑ محبوب سے لے ڈوبے گي کشتي جيدي
آنکھ سے ديکھ اسے ہاتھ سے پتوار چلا
No comments:
Post a Comment