بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے، سمندر تیری آنکھیں
پھر کون بھلا دادِ تبسّم اُنہیں دے گا؟
روئیں گی بہت مجھ سے بِچھڑ کر تیری آنکھیں
خالی جو ہوئی شامِ غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لُٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دِل میں اُتر کر تیری آنکھیں
اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مِٹتا
بِھیگی ہوئی اِک شام کا منظر، تیری آنکھیں
ممکن ہو تو اِک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اَوڑھ نہ لیں خواب کی چادر، تیری آنکھیں
میں سنگ صِفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تیری آنکھیں
یُوں دیکھتے رہنا اُسے اچھّا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھّر تیری آنکھیں
No comments:
Post a Comment