Thursday, 3 July 2014

زندگی بس اتنی ہے۔

 
 
آج یہاں پانچواں روزہ تھا۔ دوپہر کا وقت اور درجہ حرارت تقریباٰ 47 سے 50 کے درمیان ہوگا۔ ایسے میں جب کوئی مجھےیہ پوچھتا ہے کہ کیسا رہا روزہ تو میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں الحمد اللہ بہت اچھا رہا، لیکن مجھے پوچھنے کا کیا فائدہ میں تو اے سی میں آرام سے بیٹھ کر سارا وقت گزارتا ہوں۔ پوچھو ان بے چاروں سے جو اس خطہ عرب کی سلگھانے والے گرمی اور تپش سے بھرپور دوپہروں میں باہر کام کرتےہیں ، چند ہی گھنٹوں میں ہم جیسوں کو زبانیں لٹک جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کمال ہیں وہ لوگ اور کیسی رحمت ہے اللہ پاک کی جس نے ان کو ہمت عطاء کی اور وہ روزے رکھ کر پھر بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ایسے ہی دوپہر میں نماز ظہر کے لیئے میں نے جا کر وضو کیا اور جب اٹھ کر مسجد کے دروازے پر پہنچا تو کچھ لوگ پہلے سے باہر کھڑے تھے ، معلوم ہوا کہ مسجد میں جگہ نہیں ہے (کیوں کہ ہماری مسجد ایک کاروان میں بنائی ہوئی ہے) سو ہم انتظار کرنے لگے،
 
دوران انتظار میں سر جھکا کر زمیں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ایک پانی کا قطرہ میرے ماتھے سے زمین پر ٹپکا، میری نظر پہلے ہی زمین پر تھی۔
جیسے ہی قطرہ فرش پر گرا فوری طور پر جذب ہو گیا، پھر ساتھ ہی ساتھ میری نظر کے سامنے وہ معدوم ہوتا چلا گیا اور صرف چند سیکنڈز میں ، وہاں پانی کے قطرے کا نام و نشان نا تھا۔
 
میرے دل میں خیال آیا کہ
 
ہماری زندگی بھی بس اتنی ہے
 
 
ہم ایک قطرے سے وجود میں آئے اور اس دنیا کے تپتے فرش پر گرئے، ابھی اپنا وجود اور اپنے مقصد کو سمجھئے بھی نا تھے کہ وقت کی تیز دھوپ نے اپنا اثر دیکھا دیا،
مٹی کا وجود مٹی ہو گیا، چاہنے والوں نے کچھ نشان قبر کی شکل میں بنانے کی کوشش کی، ایک نامکمل اور ناممکن خواہش کی کہ شاید ہمارا نام و نشان رہ جائے لیکن پھر وقت کے بے رحم جھونکوں نے سب کچھ پلٹ کر رکھ دیا، مٹی رہی نا راکھ رہی نا ہڈیاں اور نا ہی کوئی نشان۔
 
سو زندگی بس اتنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک قطرے کی مانند ماتھے سے گرا زمین میں جذب ہو گیا اور پھر بے نشان ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
از راشد ادریس رانا: زندگی
03-07-2014

No comments:

Post a Comment