Friday, 29 March 2013

کالے چھولے::::::;ایک منتخب تحریر.

ایک منتخب تحریر.
 
سڑک پر کالے چھولے بکھرے دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اگرچہ اس مسکراہٹ میں گہرا دکھ بھی شامل تھا۔ بکھرے ہوئے چھولوں کے قریب ہی ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ چھولوں کی خالی تھالی کو حسرت سے کھڑا تک رہا تھا۔
"اوہ! وہی ڈرامہ میں نے دل میں سوچا اور میرے ذہن میں وہی پرانی کہانی گھوم کرختم ہو گئی، یعنی کالے چھولوں کو بڑی ادا کاری سے سڑک پر بکھیر دینا اور اپنی غربت کی من گھٹرت کہانی سنا کر راہگیروں سے پیسے بٹورنا۔

ہوں ٹھیک ہے! آج میں بھی دیکھتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں اپنی موٹر سائیکل اس بچے کے قریب لے آیا اور اس کی کہانی اس کی زبانی سننے کے لیے انتظار کرنے لگا۔ اس بچے نے ایک اچٹتی نظر مجھ پر ڈالی اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اچانک مجھے یاد آیا، اس کی تھالی تو میرے سامنے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی اور ایسا ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکر سے ہوا تھا۔

مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر سائیکل والے کے آگے آگیا ہو، یا پھر ایسا جان بوجھ کر نہ کیا ہو مگر وہ کچھ دیر بعد ایسا ہی کرنا چاہتا ہو اور سائیکل سوار نے اس کی مشکل آسان کردی ہو۔ میں خود ہی سوچ رہا تھا، اس بچے نے ابھی تک کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے خود ہی آگے بڑھ کر اس سے پوچھ ہی لیا۔ وہ چند لمحے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھتا رہا، پھر مختصر لفظوں میں اپنی رواداد سنا کر خاموش ہو گیا۔

اچھا !!! میں نے مزاق والے انداز میں اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔
تو پھر میں کچھ مدد کروں آپ کی! نہ چاہتے ہوئے بھی میرا انداز طنزیہ ہوگیا تھا ۔ اگرچہ غریبوں کی ہمدردی اور مدد کا جزبہ میرے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ کسی ضرورت مند کی ضرورت کا علم ہو جاتا تو اس وقت تک سکون نہ ملتا جب تک اس کی ضرورت پوری نہ کر دیتا۔ اپنی جیب خرچ کسی غریب پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتا تو میرے چہرے سے خوشی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ پڑتی تھیں مگر یہ تو سراسر ڈرامہ تھا جسے میں آج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ضروری کام چھوڑ کر بھی رک گیا تھا۔

بولو۔ میں پھر مزے لینے والے انداز میں بولا۔
آپ مدد کریں تو احسان ہوگا۔ بس یہی تو میں اس کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ جونہی اس نے جملہ مکمل کیا۔ میرا زور دار قہقہ فضا میں بلند ہوگیااور اس بچے کو لگا جیسی اس نے یہ کہ کر بہت بڑی غلطی کردی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہو گیا۔ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ میں ان کارستانیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ اداکاری ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کچھ دیر میں اس کی طرف دیکھ کر ہنستا رہا۔ اس کا چہرہ اس قدر معصوم تھا کہ اگر مجھے حقیقت کاعلم نہ ہوتا تو میں اپنی جیب سے کل رقم نکال کر اس کے ہاتہ میں تھما دیتا۔

میاں پاگل کسی اور کو بنانا، ہمیں تو معلوم ہے تمھارے ان دھندوں کے بارے میں۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا اور موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد میں واپس اسی طرف آ رہا تھا۔ وہی بچہ چپ چاپ سڑک پر سے اپنے چھولے چننے میں مصروف تھا۔ میں کچھ فاصلے پر رہ کر اسے دیکھ رہا تھا۔ صاف صاف چھولے چننے کے بعد اس نے تھالی اٹھائی اور ایک طرف کو چل پڑا۔
ہوں!! تو اس کا کام بن گیا۔

یہ سوچ کر میں بھی اس کے پیچھے چل۔ ہاں اب میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا جو اس بچے سے غلط کام کروا رہا تھا۔ وہ بچہ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کا پیچھا کرنے کے لیے مجھے موٹر سائیکل پیدل چلنے والوں کی طرح چلانی پڑ رہی تھی۔ تقریبًا 20منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ایک تنگ سی گلی میں داخل ہو گیا۔ یہاں پہنچ کر اس کی رفتار بہت کم ہو گئی۔ پھر اس نے گلی کے چوتھے مکان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ میں بھی کچھ فاصلے پر ہی تھا۔ جلد ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کے لئے راستہ دینے لگی۔
ماں۔ یہ کہ کر وہ تھالی زمین پر رکھ کر ماں سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رونے لگا۔

"کیا ہوا میرے بچے۔" وہ خاتون ایک دم پریشان ہو گئی۔ پھر اس نے ایک نظر تھالی پر ڈالی اور معاملہ سمجھ کر بولی۔
کیا ہو نقصان ہو گیا تو، اچھے بچے روتے نہیں، اللہ سے دعا کرتے ہیں، اللہ پاک نقصان کو پورا کر دیں گے۔ بلکہ اس سے بہتر عطا فرمائیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے بچے کو ڈھیر سارا پیار دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ ابھی تک مجھے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ اور اب دروازہ بند ہو گیا تھا۔ ادھر میری کیفیت عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھی۔ میں غیر ارادی طور پر موٹر سائیکل سمیت ان کے گھر کے دروازے کے قریب آگیا۔ گلی میں کوئی نہیں تھا۔
ماں! میں نے چھولے چن لیے ہیں، سوچا دھو کر ان پر مصالحہ ڈال کر ہم شام کو کھالیں گے، شام کے کھانے کا خرچ بچے گا۔
پھر تو رو کیوں رہا تھا؟ ماں کے لہجہ میں گہرا شکوہ تھا۔
"ماں میں نقصان پر نہیں رویا تھا۔ بچے کا انداز کھویا کھویا سا تھا۔
نقصان پر نہیں رویا، پھر کس بات پر رو رہا تھا، ماں نے حیرت سے پوچھا۔ بچہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔
ماں آج ایک شخص نے میرا خوب مزاق اڑایا ہے، پتہ نہیں کیوں۔ غریبوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی کیا، ان کے سینوں میں دل نہیں ہوتے، پھر، پھر یہ امیر لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔

اف میرے مالک۔۔ مجھ سے مزید کچھ نہ سنا گیا۔ میں گلی سے نکل آیا۔ اس وقت میں خود کو ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کر رہا تھا۔ خود پر غصہ آ رہا تھا کہ بلا تحقیق کیے کسی سے بدگمان ہوا اور ایک غریب کا دل دکھا کر بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ اب کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس کی مدد کروں تو کیسے؟ دل میں عجیب سی بے قراری پیدا ہو گئی تھی۔ آخر کچھ سوچ کر میں پلٹ آیا اور اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ دوسری مرتبہ کھٹکھٹانے پر وہی بچہ دروازے پر آیا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ اُچھل بڑا۔ ادھر مجھ میں اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی جیب کے کل پیسے نکالے اور اس بچے کی مٹھی میں دبا دیے۔

"یہ رکھ لو تمھارے کام آئیں گے۔ مجھے معاف کردینا مجھ سے ایسا غلط فہمی میں ہوگیا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا مگر پیسوں پر اس کی گرفت اتنی ڈھیلی تھی کہ میں ہاتھ ہٹاتا تو پیسے زمین پر گر جاتے۔
"پلیز"۔ میں نے التجائیہ انداز میں کہا اور اس نے پیسے پکڑ لیے۔ میں تیزی سے مڑ کر گلی سے نکل آیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر، ہاں مجھ میں مزید وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں تھی۔ واپسی پر میں سوچ رہا تھا۔

"اللہ رب العزت کے ہر حکم میں بے شمار مصلحتیں، حکمتیں اور فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی میں نقصان کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بلا تحقیق کسی کے عمل پر کوئی قدم اٹھانے سے منع فرمایا ہے اور اس حکم کے خلاف ورزی کا نقصان آج میری آنکھوں کے سامنے تھا۔

Monday, 25 March 2013

::::: ﻣﺤﺒﺖ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ :::::

ﻣﺤﺒﺖ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،
ﮨﻢ ﺍﻛﺜﺮ ﻳﻪ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍُﺳﮯ ﻫﻢ ﺑُﻬﻮﻝ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،
...
ﻣﺤّﺒﺖ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﺳﭻ ﮨﮯ،
ﻣﺤﺒﺖ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ،
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ،
... ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ،
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ،
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﯿﮟ،
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺳﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ،
ﮐﺒﮭﯽ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﻣﯿﮟ،
ﺍُﺩﺍﺳﻰ ﻛﻰ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﯿﮟ،
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ،
ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺏِ ﺭﻭﺍﮞ ﺑﻦ ﮐﺮ،
ﮐﺒﮭﯽ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ،
ﺑﻈﺎﮬﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ،
ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﮭﻮﻝ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،
ﯾﮧ ﮨﺮ ﮔﺰ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ،
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ،
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ

♥-♥-♥-♥-♥ راز بدل ڈالو ♥-♥-♥-♥-♥

تسکین نا ہو جس سے
 وہ راز بدل ڈالو
جو راز نا رکھ پائے،
 ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سنی ہو گی
 بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا ہو خطرہ ،
 آغاز بدل ڈالو
پر سوز دلوں کو جو
 مسکان نا دے پائے
سر ہی نا ملے جس میں
 وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو
 ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو،
 انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت
کچھ دور سویرا ہے
اگر چاہتے ہو منزل
 تو پرواز بدل ڈالو

Saturday, 9 March 2013

نسلوں کی موت:::::::::از راشد ادریس رانا

 
 
ایک سنہرے دن کا آغاز، جو زندہ رہنے کے کئی ارمان لیئے طلوع ہوا. وہ جلدی جلدی آفس کے لیئے تیار ہوا اور اپنے ننھے سے شہزادے کو لے کر اس کے سکول کی طرف روانہ ہوا، جب سے ننھے شہریار نے سکول جانا شروع کیا تب سے وہ اور اس کی بیوی بہت خوش تھے. مستقبل کے جھلمل کرتے خواب اور اپنے بیٹے کو ایک کامیاب انسان بنانے کی آرزوئیں ہر روز ان میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتی تھیں.
سارا دن وہ آفس میں مصروف تھا لیکن جیسے ہی گھڑی نے 12:30 کا الارم بجایا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگتا ہوا باہر آیا اپنا موٹر سائیکل سٹارٹ کیا اور ننھے شہریار کے سکول کی جانب رواں دواں ہوا، چند ہی منٹ کے بعد وہ اپنے اکلوتے اور پیارے ، لاڈلے شہزادے کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر لیئے روانہ ہوا. مصروف شاہراہ کوچھوڑ کر جیسے ہی اس نے اندرونی راستہ پر موٹر سائیکل موڑا اور سپیڈ تھوڑی تیز کی اچانک اس کو اپنے ہاتھ پر کچھ محسوس ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا اس کو اپنے ہاتھ پر کٹنے کا احساس ہوا اور موٹر سائکل کی بریک لگاتے لگاتے اچانک اس ننھا شہریار ایک طرف لڑھک سا گیا.....
اس نے جلدی سے موٹر سائکل روکی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی "موت کا دھاگہ" اپنا کام کر چکا تھا، بے رحم شوق نے ایک ننھے بچے کی گردن کاٹ دی تھی. اس نے اپنے لال کو اپنی گود میں لیا تو اس کا گلا کٹا ہوا تھا اور ڈور اس کے نرخرے میں پیوست تھی، بچہ ڈھیلا پڑ چکا تھا، لوگوں کا ایک جم غفیر ایک دم اکھٹا ہوا، وہ دیوانوں کی طرح چیخ رہا تھا چلا رہا تھا، موٹر سائیکل ایک طرف گری پڑی تھی، اچانک جیسے اس کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ اپنے ننھے لال کو لیکر دیوانوں کی طرح سڑک پر بھاگا، کئی لوگ اس کے ساتھ ساتھ تھے اچانک ایک گاڑی والے نے گاڑی روکی اور لوگوں نے اس کو بچے سمیت گاڑی میں ڈال کر ہسپتال روانہ کیا.....
جہاں چند منٹ کے بعد ہی ڈاکٹر نے معذرت کرتے ہوئے کہا "سوری تیز دھار ڈور سے بچے کی شہہ رگ ایسی کٹی ہے کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خالق سے جال ملا" اب کچھ نہیں ہو سکتا..... دیر ہو گئی ...

وہ دیوانوں کی طرح اپنے ننھے پھول کو بے جان پڑا دیکھ رہا تھا.....
میرا آپ سب سے سوال ہے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ چند روپوں کے منافع کی خاطر جو موت کے سوداگر یہ کام کرتے ہیں ان کے کاروبار کو کون پھیلاتا اور پروان چڑھاتا ہے . جی ہاں میں اور آپ ،،،،،،،ہم ہی وہ لوگ ہیں جو ناصرف اپنے بچوں کی اس گندے کھیل کو کھیلنے دیتے ہیں بلکہ ایسے لوگ جو یہ دھندا کرتے ہیں ان کو نا روک اور ان کے خلاف آواز نا اٹھا کر ان کو سپورٹ کرتے ہیں. ایسے کتنے بے گناہوں کا خون ہمارے ہاتھوں پر ہے جس ایک روز ہم سب کو جواب دینا پڑے گا. سوچیں اگر اس ننھی جان کی جگہ میرا یا آپ کا بچہ ہوتا تو ہم پر کیا گزرتی؟
 
(مصنف: راشد ادریس رانا- ابو ظہبی ، یو اے ای)
ایک خیالی لیکن حقیقت لیئے ہوئے تحریر جو ہم سب کے لیئے ایک سوال ہے.

Monday, 4 March 2013

کچھ یوں ہوا:: شاعر :: راشد ادریس رانا:: 04-03-2013

کچھ یوں ہوا
کہ آنکھ میں
آنسو ہی تھم گئے
کچھ یوں ہوا

کہ ہر روز
بڑھ میرے غم گئے
کچھ یوں‌ہوا
کہ دل کو
تسلی نا مل سکی
کچھ یوں ہوا
کہ سانس
بھی اپنی نا بن سکی
کچھ یوں ہوا
کہ ضبط کا
موسم بدل گیا
کچھ یوں ہوا
کہ وصل بھی
جانے کدھر گیا
کچھ یوں ہوا
بہار کو
فصل کھا گئی
کچھ یوں ہوا
ناجانے رنگ
کس چمن گئے
کچھ یوں ہوا
کہ مجھ سے
مرئے زخم چھن گئے
کچھ یوں ہوا
کہ ہاتھ بھی
خالی ہی رہ گئے
کچھ یوں ہوا
کہ زخم
گلالی ہی رہ گئے
کچھ یوں ہوا
کہ قاتل
بے نام بن گیا
کچھ یوں ہوا
کہ مر کے
میرا کام بن گیا.....
 
شاعر: راشد ادریس رانا "دکھ، دریا، زندگی" سے انتخاب

Sunday, 3 March 2013

جب بھی روٹھا:::::::03.03.2013

شاعر: راشد ادریس رانا
"اداسیاں" سے اقتباس
 03.03.2013
 
جب بھی روٹھا
ہے وہ مجھ سے
اپنی ہاتھوں کی
لکیروں میں
بہت کریدہ
بہت تلاشا
بہت کھنگالا،
کچھ نا پایا،
کچھ نا سمجھا،
کچھ نا جانا،
کچھ نا سوجھا،
 
پھر اپنے دل کو
خود ہی سمجھایا
اپنے بند کمرے
میں لوٹ کےآیا
کھولی کھڑکی
اور خالی نظر کو
اوپر نیلے افق پر
دور دوڑایا
 
دور کہیں پر ایک پرندہ،
تیز ہوا سے
جانے کتنی دیرسے پاگل
لڑتا لڑتا
تھک سا گیا تھا
 
میں نے سوچا،
مجھ میں اس میں
کیا فرق ہے باقی
میں بھی لڑتے لڑتے
اک دن تھک جاوں گا،
اور نا پھر واپس آوں گا......
 
پھر بھی مجھ سے روٹھ ہے جاتا
کاش کوئی اس کو سمجھاتا....

اس کے نام کہ جس کا نام ہوا میری حیات J-e-R

 
 
J-e-R ♥.♥.♥  اس کے نام کہ جس کا نام ہوا میری حیات
 
ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے
محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے
جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے
ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے

:::::Poet:::::
عبید اللہ علیمؔ
thanks Blog رعنائیِ خیال

Saturday, 2 March 2013

✿✿✿✿جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے✿✿✿✿

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سونے

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لُو مکاں کیسے کیسے
ہوے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئ نوجواں کیسے کیسے

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

زمیں کے ہوے لوگ پیوند کیا کیا
ملکِ و حضوُر و خداوند کیا کیا
دکھاے گا تو چند روز کیا کیا
اجل نے پچھاڑے تنومندکیاکیا

جگہ جی لگانےکی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاں ہے تماشہ نہیں ہے

اجل نے نہ کسراہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک چھوڑ کیا کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہں ٹھاٹ سارا

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھکو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا

یہی تجھ کو ُدھن ہے رہوں سب سے بالا
ہو زینت نرالئ ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہئ مرنے والا
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا

وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی مہر بھی
جہاں تاک میں کھڑی ھو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

یہ دنیاے فانی ہے محبوب تجھکو
ہوی واہ کیا چیز مرغوب تجھکو
نہیں عقل اتنی بھی مجزوب تجھکو
سمجھ لینا اب چاہیے خوب تجھکو

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

بڑھاپے سے پا کر پیامِ قضا بھی
نا چونکہ چنانچہ سنبھلا زرا بھی
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہاء بھی
جنوں چھوڑ کر اپنے ہوشوں میں آ بھی

جب اس بزم سے چل دیے دوست اکثر
اور اُٹھتے چلے جا رہے ھیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پہ تیرا دل بہلتا ہے کیونکر

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے
کہیں فکروفاقہ سے آہ و بقا ہے
کہیں شکوہ جورومکرودغا ہے
غرض ہر طرف سے یہی بس سدا ہے

جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

کلام خواجہ عزیز الحسن مجذوب

~✿вℓσѕѕσм✿~