Monday, 30 July 2012

ماں باپ کی عزت و خدمت (ایک سبق آموز واقعہ)


سعودی عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت نے اپنی تاریخ میں ایسا عجیب و غریب مقدمہ دیکھا جو کہ قصیم بلکہ پوری مملکت سعودی عرب میں نا ہی پہلے کبھی دیکھا یا سنا گیا تھا۔۔۔
ہم آئے دن خاندانی اختلافات، قطع رحمی اور عناد کی بھینٹ چڑھنے والے افسوس ناک واقعات اور دلوں کو لرزا دینے واقعات کی تفاصیل تو پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہی رہتے ہیں مگر صلہ رحمی کی بنیاد پر بننے والے اس مقدمہ کی تفاصیل سنیئے اور اس واقعہ کو
کسوٹی بنا کر اپنے آپ کو یا اپنے گردو نواح میں وقوع پذیر حالات و واقعات کو پرکھیئے۔۔۔

اس شخص کا نام حیزان الفہیدی الحربی ہے۔ یہ بریدہ سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں (اسیاح) کا رہنے والا ہے۔ قصیم کی شرعی عدالت میں فیصلہ جیسے ہی اس کے خلاف گیا تو اس نے خود تو رو رو کر اپنی داڑھی کو آنسوؤں سے تر بتر کیا ہی، مگر اس کو دیکھنے والے والے لوگ بھی رو پڑے۔

آخر کس بات پر یہ زاروقطار رونا اور غش پڑ جانا؟ اولاد کی بے رخی؟ خاندانی زمین سے بے دخلی؟ حیزان کی بیوی نے اُس پرخلع کا دعویٰ کیا؟ نہیں، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر آخر کس بات کا رونا!! یہ قصہ تصوراتی نہیں بلکہ سچا اور حقیقت پر مبنی ہے جس کی تفاصیل سعودی عرب کے ایک بڑے اخبار (الریاض) کے سرورق پر چھپیں، مملکت کی کئی بڑی مساجد کے منابر سے آئمہ کرام نے اپنے خطابات میں اس واقعے کا ذکر کیا، سینکڑوں عربی ویب سائٹس اور فورمز پر لوگوں کی آنکھیں کھولنے والے اس واقعہ کی تلخیص آپ کیلے حاضر ہے۔

حیزان اپنی ماں کی بڑا بیٹا ہے، اکیلا ہونے کی وجہ سے سارا وقت اپنی ماں کی خدمت اور نگہداشت پر صرف کرتا تھا۔ حیزان کی ماں ایک بوڑھی اور لاچار عورت جس کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی، جسے بیچا جائے تو کوئی سو روپے بھی دینے پر نا آمادہ ہو۔


سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ ایک دن دوسرے شہر سے حیزان کے چھوٹے بھائی نے آکر مطالبہ کر ڈالا کہ میں ماں کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ شہر میں میرے خاندان کے ساتھ رہ سکے۔ حیزان کو اپنے چھوٹے بھائی کا اس طرح آکر ماں کو شہر لے جانے کا ارادہ بالکل پسند نا آیا، اس نے اپنے بھائی کو سختی سے منع کیا کہ وہ ایسا نہیں کرنے دے گا، ابھی بھی اس کے اندر اتنی ہمت ، سکت اور استطاعت ہے کہ وہ ماں کی مکمل دیکھ بھال اور خدمت کر سکتا ہے۔


دونوں بھائیوں کے درمیان تو تکار زیادہ بڑھی تو انہوں نے معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا، مگر معاملہ عدالت میں جا کر بھی جوں کا توں ہی رہا، دونوں بھائی اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور عدالت پیشیوں پر پیشیاں دیتی رہی تاکہ وہ دونوں کس حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ مگر یہ سب کچھ بے سود رہا۔


مقدمے کی طوالت سے تنگ آ کر قاضی نےآئندہ پیشی پر دونوں کو اپنی ماں کو ساتھ لے کر آنے کیلئے کہا تاکہ وہ اُن کی ماں سے ہی رائے لے سکے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرے گی؟

اگلی پیشی پر یہ دونوں بھائی اپنی ماں کو ساتھ لے کر آئے، اُنکی ماں کیا تھی محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ، بڑھیا کا وزن بیس کلو بھی نہیں بنتا تھا۔

قاضی نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ اُس کے دونوں بیٹوں کے درمیان اُسکی خدمت اور نگہداشت کیلئے تنازع چل رہا ہے؟ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اُسے اپنے پاس رکھیں! ایسی صورتحال میں وہ کس کے پاس جا کر رہنا زیادہ پسند کرے گی؟


بڑھیا نے کہا، ہاں میں جانتی ہوں مگر میرے لیئے کسی ایک کے ساتھ جا کر رہنے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر حیزان میری ایک آنکھ کی مانند ہے تو اسکا چھوٹا بھائی میری دوسری آنکھ ہے۔


قاضی صاحب نے معاملے کو ختم کرنے کی خاطر حیزان کے چھوٹے بھائ کی مادی اور مالی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ اُس کے حق میں کر دیا۔


جی ہاں، تو یہ وجہ تھی حیزان کے اس طرح ڈھاڑیں مار مار کر رونے کی۔ کتنے قیمتی تھے حیزان کے یہ آنسو! حسرت کے آنسو ، کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرنے پر قادر کیوں نہیں مانا گیا؟ اتنا عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی ماں کی خدمت کرنے کو سعادت حاصل کرنے کیلئے یہ جدوجہد؟ شاید بات حیزان کی نہیں، بات تو اُن والدین کی ہے جنہوں نے حیزان جیسے لوگوں کی تربیت کی اور اُنہیں برالوالدین کی اہمیت اور عظمت کا درس دیا۔

Thursday, 26 July 2012

اسلامی خلافت اوراسلامی عدالتیں ◘◘◘عادل عدالت کا عدل و انصاف◘◘◘

عرب سالار قتیبۃ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔

سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔ پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا: کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟ پیغامبر نے کہا نہیں، میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔

پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔ پیغامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا، ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔ پیغامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،
جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔ میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا: عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔

پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی، اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔
موقع پر ہی عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔

قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟
پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
(ایک تاریخی نکتہ ملحوظہ فرما لیجیئے کہ قتیبہ بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اُس وقت تک انتقال ہو چکا تھا، یہاں پر قتیبہ سے مراد اُنکا نائب ہے)

قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟
قتیبہ (کے نائب)نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟
قتیبہ (کے نائب) نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
قتیبہ: اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔
اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔

اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔
اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

«جی ہاں، ایسے ہوا کرتے تھے مسلمان حکمران، اور ایسا ہوا کرتا تھا سیدنا عمر فاروق بن خطاب کے نواسوں میں سے ایک نواسہ یعنی عمر بن عبدالعزيز بن مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أميۃ رضی اللہ عنہ و ارضاہ ، اُموی دور کا آٹھواں اور خلفائے راشدين کے سلسلہ کا پانچویں خلیفہ ، جس کے عدل و انصاف سے مشرق و مغرب کے ممالک دینِ اسلام سے بہرہ ور ہو کر دائرہ اسلام میں شامل ہوئے».


▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬Thanks a lot▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) 
سے لے کرمحمد سلیم نے اردو میں ترجمہ کیا۔ ●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬▬● Wake Up Muslims Before It's Too Late ●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬▬●

Tuesday, 24 July 2012

اماں بھائی کب مرے گا؟

 
اماں بھائی کب مرے گا؟

عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔

ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچوں کی دکان پڑ جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی

"اماں بھائی کب مرے گا؟"

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"
بچی معصومیت سے بولی

"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"

اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالبا منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہی دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا۔ صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تھ یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"۔

پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جب کہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں نے قمیض پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیض نہی۔ حضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نا ہوئی، تنگ آ کر اس نے خود سوزی کر لی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پڑ قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہی ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رہے گا؟

کیا ہمارا "جذبہ ایمانی" صرف مردوں کے لیے رہ گیا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھیے۔
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہے. ہم سب کے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو مجبور ہیں، جو بےکس ہیں، جو غریب ہیں. جن پر ہم کبھی توجہ ہی نہی دیتے.
ایک منٹ کو رکیے. اور آنکھیں بند کر کے اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں. اپنے پڑوسیوں پر، اپنے رشتےداروں پر، جو آپ کی گلی میں ٹھیلے والا ہے اس پر، جو ایک مزدور آپ کے محلے میں کام کر رہا ہے اس پر. جو آپ کے ہاں یا اپ کے دفاتر میں چھوٹے ملازم ہیں ان پر.

یہ سب لوگ ہمارے کتنا قریب رہتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہی ان کے ساتھ کیا کچھ بیت رہی ہے.... ہمیں اس لیے نہی معلوم کہ ہم ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دور ہیں. ہم نے کبھی ان کا احساس کیا ہی نہی. کبھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا بھی نہی.(بلکہ شائد ہمیں ان چھوٹے لوگوں سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے).

ان کو اپنے قریب کیجیے، ان کی جو ممکن ہو مدد کیجیے اور جو آپ کے بس میں نہ بھی ہو تو دل جوئی کیجیے ان کی.

کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم "جوش ایمان" میں ایک ایک گلی میں تین تین، چار چار مساجد بنا دیتے ہیں انھیں خوب سجا دیتے ہیں(نمازی چاہے ہر ایک میں دو دو ہی ہوں) لیکن اسی گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان ہی نہی دیتا. کسی بیمار کے پاس دوائی خریدنے کے لیے پیسے نہی ہوتے، اس کی مدد کو کوئی "صاحب ایمان" آگے نہی آتا..
خدا کے بندوں کا بھی کچھ خیال کیجیے
 
 
 Special thanks for this article


●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬●


●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬●

Monday, 23 July 2012

خدا سے تجارت کون کرے؟


خدا کی مخلوقِ خدا کے ہاتھوں فروخت ہونے کے بجائے خدا کے نام کو فروخت کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتی ہے
حالانکہ رمضان خدا سے کاروبار کرنے کا مہینہ ہے اور ایسا کاروبار جس میں غلطیوں اور گناہوں کی میلی گٹھڑی کے عوض ثواب و استغفار کا بلا سود پیکیج نہایت آسان اور معمولی شرائط پر دستیاب ہے لیکن لالچ ، خود غرضی ، ریاکاری ، فریب اور ہوس کی چیک پوسٹیں اور چنگیاں بندے کو آسمانی یوٹیلیٹی سٹور تک پہنچنے سے پہلے ہی کنگال و کھکھل کرچکی ہوتی ہیں ۔
رمضان میں خدا کے ساتھ اہلِ زمین عموماً وہی کرتے ہیں جو ناخلف اولاد ماں کے ساتھ کرتی ہے۔ ماں سے کوئی مشورہ نہیں کرتا لیکن سب کچھ اسی کے نام پر ہوتا ہے۔ ماں کا عملی مصرف بس یہ ہے کہ کونے میں عزت سے بیٹھی رہے اور ہر آتا جاتا اس سے دعائیں اور آشیر واد لیتا ، سر پے ہاتھ پھروا کے آگے بڑھ جائے۔
خدا کی مخلوقِ خدا کے ہاتھوں فروخت ہونے کے بجائے خدا کے نام کو فروخت کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتی ہے۔
اس کے نام پر اربوں روپے کی اشتہار بازی ہوتی ہے۔
اسی کے نام پر اسی کے نام لیوا اسی کے نام لیواؤں کو ایرکنڈیشنڈ اور سادہ عمرہ پیکیجز بیچتے ہیں۔پیسہ اپنی جیب میں، ثواب آپ کی جیب میں۔۔۔
ہر آڑا ٹیڑھا ترچھا مال جو سال بھر بیچنا مشکل ہوتا ہے دوران ِ رمضان آسانی سے سرشار عبادت گزاروں کو منہ مانگے دام منڈھا جا سکتا ہے۔ تمام خوردنی و غیر خوردنی مصنوعاتی برانڈز سبز پگڑی باندھے خصوصی آفرز کی پرکشش تسبیح گھماتے ہوئے روزہ دار کی جیب سے آخری سکہ تک نکالنے کے لیے رمضان کی چراگاہ میں کود پڑے ہیں۔
چالیس روپے درجن کے کیلے خدا رسول کی قسم کھا کر ایک سو بیس روپے درجن بیچنے والا دوکاندار بھی روزے سے اور اپنے بچوں کے لیے جیب سے کچھ میلے کچیلے نوٹ اور ریزگاری نکال کر چھ کیلے بھی دس بار سوچ کر خریدنے والا گاہک بھی روزہ دار ہے۔

خدا اور ماں

رمضان میں خدا کے ساتھ اہلِ زمین عموماً وہی کرتے ہیں جو ناخلف اولاد ماں کے ساتھ کرتی ہے۔ ماں سے کوئی مشورہ نہیں کرتا لیکن سب کچھ اسی کے نام پر ہوتا ہے۔ ماں کا عملی مصرف بس یہ ہے کہ کونے میں عزت سے بیٹھی رہے اور ہر آتا جاتا اس سے دعائیں اور آشیر واد لیتا ، سر پے ہاتھ پھروا کے آگے بڑھ جائے۔
سحر تا افطار اپنے پیاروں سے بات کیجیے صرف ایک روپیہ ننانوے پیسے میں۔ ثوابِ رمضان کال پیکیج کے لیے ابھی کال کیجیے چار دو صفر پر۔۔اور ڈاؤن لوڈ کیجئے اپنی پسندیدہ نعت ، حمد اور آذان کی رنگ ٹونز اور لوٹ لیجیے دونوں ہاتھوں سے ثواب کے مزے۔
کیا کہا ؟ تراویح کے بعد نیند نہیں آتی اور سحری پر بیدار ہونے میں دقت ہوتی ہے ؟ تو یہ ہے نیا طاقتور سہراب اسپرے ۔۔ رمضان بھر مچھر اور پسو ابلیس کی طرح آپ سے دور ، رہنے پر مجبور۔۔۔۔۔۔۔
روزہ دار کے منہ سے خوشبو کیوں نہ آئے ؟ ہم لائے تو ہیں آپ کے لیے خصوصی مسواکی ٹوتھ پیسٹ ۔جو سحر تا افطار آپ کے منہ کو دس طرح کے خطرناک جراثیم سے پاک و معطر رکھتا ہے۔
اب روزے کے دوران بلڈ پریشر کم زیادہ نہیں ہوگا ؟ سحر و افطار میں استعمال کے لیے حکیم بڈھن کا تیر بہدف خمیرہِ زنجبار ۔تین بوتلوں کی خریداری پر شربتِ روح فرسا کی ایک بوتل مفت۔۔۔
اور جب ڈیزائنرز شیروانیاں اور ٹوپیاں پہن کر میک اپ زدہ مسخرے خدا کے نام پر کروڑوں روپے کے سیزنل کنٹریکٹ سائن کر کے ٹی وی کے منبر پر بیٹھ عجز و انکسار ، تقوی اور پرہیزگاری کے گیت گاتے ہیں اور گلوگیریت چہرے پے سجائے ناداروں سے محبت ، یتیموں سے شفقت اور مسکینوں سے قربت کی تلقین فرماتے ہیں۔
خدا کے نام پر اربوں روپے کی اشتہار بازی ہوتی ہے
اور جب تازہ پھلوں کے خالص جوس کے ساتھ افطار و سحر ٹرانسمیشن کے محل نما سیٹ پر لگے روحانی دربار میں آنسو بیچتے ہوئے خدا کے نبی کی تنگی و عسرت بھری حیات کا تذکرہ ہوتا ہے تو دیکھنے سننے والے روزہ دار کے ہاتھ سے نوالہ گر ہی تو پڑتا ہے ۔
اور خدا یہ منظر تیس روز دلچسپی سے دیکھتا ہے ، انتظار کرتا ہے ، مسکراتا ہے اور پھر عید کے روز مہربانیوں کا سارا سٹاک اپنے ناشکروں میں اس امید پر بانٹ دیتا ہے۔۔شاید اگلے برس ہی کوئی بھولا بھٹکا مجھ تک پہنچ جائے ۔۔۔۔
ماں اور خدا !!!!
آج دونوں کے پاس اپنے دنیادار بچوں کے انتظار کے سوا اور ہے ہی کیا ؟؟

خصوصی دعا (رمضان کریم)


Wednesday, 18 July 2012

ہیرے کی انگوٹھی






بصرہ کا ذاھد (ایک خوبصورت واقعہ)










حبشی غلام









آج سے بیس سال پہلے کی ایک رات






اقبال اور مرغے






جرمن طالبان پر کیا بیتی


جرمن طالبان پر کیا بیتی
Thanks BBC Urdu
کمکپی کی تین منزلہ جیل پر خفیہ کیمرے نصب ہیں اور داخلے پر مشین گنوں سے مسلحہ محافظ پہرا دیتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور کے ایک کمرے میں پیٹر سفید ٹائلوں پر اپنے بیٹے کے سامنے دو زانو بیٹھا ہے۔ تین سالہ اویس جاننا چاہتا ہے کہ پولیس اسے(پیٹر کو) کیوں پکڑ کر لے گئی تھی۔ وہ اپنے باپ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ ’اگر تم بہت نماز پڑھو گے تو یہ لوگ تمہیں جانے دیں گے۔‘

ایک مسلح افسر باپ بیٹے کی اس ملاقات کو دیکھ رہا ہے۔ پیٹر اپنے بیٹے کے سر کے پیچے ہاتھ رکھ کر قرآن کی ایک سورۃ پڑھتا ہے جو اس کے مطابق اسے شیطان سے محفوظ رکھے گی۔

’میں نے پاکستان اس سے لیے چھوڑا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے دماغی طور پر کمزور ہوں‘۔ بات جاری رکھتے ہوئے پیٹر نے کہا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں سے مایوس ہے جنہوں نے وڈیو پیغامات کی مدد سے اسے وزیرستان جانے پر رضامند کر لیا جو طالبان اور القاعدہ کا گڑھ ہے۔

پیٹر نے کہا کہ اسے بتایا گیا تھا کہ وہاں سکول اور ہسپتال ہیں۔ ’آپ اپنے بھائیوں پر اعتبار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے‘۔ اس نے اپنی بھنویں اوپر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں پرواز کرتے ہوئے ڈرونوں کے سوا کچھ نہیں تھا‘۔

کئی برسوں تک پاک افغان سرحدی علاقہ شدت پسندوں کا اہم مرکز تھا۔ جرمنی سے دو سو سے زیادہ رضاکار اکیلے یا اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے۔ پہلے جانے والوں نے انٹرنیٹ پر پیغامات کے ذریعے مزید لوگوں کو وہاں بلا لیا۔ زمین پر جنت کے وعدے کیے گئے یا کم سے کم اس سے ملتے جلتے کسی مقام کے۔ یہ جنگجو سکیورٹی اہلکاروں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھے۔ یہ جرمنی کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ سمجھے جانے لگے۔

لیکن اب کچھ عرصے سے رجحان بدل گیا ہے۔ جانے والوں کی تعداد گھٹ رہی اور واپس لوٹنے والوں کا نمبر بڑھ رہا ہے۔

پہاڑوں پر زندگی جیسا کہ انہیں متاثر کرنے کے لیے بنائی گئی وڈیو فلموں میں دکھایا گیا تھا اُس سے کہیں مشکل ہے۔ امریکی ڈرونوں سے گرنے والے راکٹوں کی صورت میں آسمان سے مسلسل موت برستی ہے۔ جرمنی سے آنے والے کم سے کم ایک درجن جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

واپسی کا راستہ ترکی سے گزرتا ہے، جنکشن استنبول سے جو اس وقت ان علاقوں میں شامل ہے جن پر سب سے گہری نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ امریکہ، جرمنی اور ترکی کے خفیہ اداروں کے درمیان قریبی تعاون دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سب دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔

یہاں سے انہوں نے ایک پراپوگینڈا فلم میں کام کرنے والے برلن کے شہری تھامس کو گرفتا کیا تھا۔ یہیں سے برلن کے ایک اور رہائشی فتیح کو پکڑا گیا تھا جنہیں ’جرمن طالبان مجاہدین‘ کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔اور اب پیٹر بھی حراست میں ہے جسے جرمنی کے شہر سٹرٹگارڈ کے پبلک پراسیکیوٹر تلاش کر رہے تھے۔پیٹر پر الزام ہے کہ وہ ایک جرائم پیشہ تنظیم کا رکن ہے اور جہاد کے لیے بھرتیاں کرتا ہے۔

پیٹر کو ترکی میں انسداد دہشتگردی کے یونٹ نے ستائیس جون کو پکڑا تھا اور اسے گزشتہ ہفتے جرمنی کے حوالے کر دیا گیا۔ پیٹر اور اس کی اہلیہ کا سفر اِس دور کے ان نوجوان مسلمانوں کا مخصوص سفر ہے جنہوں نےجرمنی میں انتہاپسندی کو اپنایا، جنگ کے لیے گئے اور اب واپسی پر حکام کے قابو میں ہیں۔

اکتیس سالہ پیٹر بی کا اسلامی نام عمار ہے۔ ایک انٹرنیٹ وڈیو میں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دوست کی موت کے بعد مسلمان ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ موبائل فونوں کی ایک دکان میں کام کرتا تھا اور رات کے سکول میں زیر تعلیم تھا۔ وہ اُلم کا رہائشی تھا جہاں انتہا پسندی قدم جما چکی تھی۔ یہ لوگ ’الم اسلامی انفارمیشن سنٹر‘ میں اکٹھے ہوتے جہاں پیٹر خزانچی اور سیکرٹری تھا۔

سن دو ہزار چار میں میونخ کے پبلک پراسیکیوٹر نے ابتدائی انکوائری کا آغاز کیا۔ اس وقت پیٹر ایک جریدے ’تھنک اسلام‘ کا بھی مدیر تھا جس میں حکام کے مطابق سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کے راستے کو جائز قرار دیا گیا تھا۔پیٹر کا نام بھی ملزمان میں تھا لیکن اس کے خلاف تفتیش معطل کر دی گئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ صرف ’دعوت‘ کا کام کرتا ہے اور لوگوں کو اسلام کی طرف لے کر آتا ہے۔

اس کے بعد تفتیشکاروں نے ایک بار ’سارلینڈ سیل‘ کے خلاف تفتیش کے دوران پیٹر کا سامنا کیا۔ ان لوگوں پر جرمنی کے اندر حملے کی تیاری کا الزام تھا اور کہا گیا تھا کہ ایک ملزم کے پاس پیٹر کی مرسڈیز تھی۔ پولیس کو اس کار سے ایک سکینر بھی ملا۔ اس کے بعد سے پیٹر کا نام فائلوں میں ایک ’کانٹیکٹ‘ کی حیثیت سے آنے لگا۔ تاہم تفتیشکار اس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں کر سکے کہ اس کے دہشت گردوں کے ساتھ دوستانہ روابط ہیں۔

پیٹر کے شدت پسندوں اور پر امن مسلمانوں دونوں سے روابط تھے۔ لیکن اب اس کے خلاف ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت کا الزام ہے۔ اس کے بارے میں اس کے ایک سابق ساتھی نے یہ بھی بتایا کہ وہ ازبکستان کی ’اسلامی تحریک کا حصہ بننا چاہتا تھا‘ لیکن سمجھانے پر ارادہ بدل دیا۔

استنبول کی جیل میں پیٹر نے، جس کی لمبی داڑھی کی جگہ تین دن کی داڑھی نے لے لی ہے، بتایا کہ ’مجھے مجاہدین سے پیار ہے لیکن میرا ان تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں۔‘ اس کی تئیس سالہ اہلیہ سارہ جیل سے چند کلومیٹر دور استنبول کے ’لٹل ایران‘ کہلانے والے اسلامی محلے میں موجود تھی۔ یہاں خواتین نقاب پہنتی ہیں اور مرد جلابہ۔ برقعے کے اندر اپنی بچی کو دودھ پلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے زیادہ جلد دیکھنا پسند نہیں‘۔

پیٹر نے وزیرستان پہنچنے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں ان کے خلاف جاری ہونے والے وارنٹوں نے انہیں ہندو کش بھاگنے پر مجبور کیا۔ اس وقت وہ مصر کے شہر اسکندریہ میں ایک الگ تھلگ محلے میں رہ رہے تھے جہاں انہیں وارنٹ جاری ہونے کی اطلاع ملی۔ ’میں بھی انسان ہوں اور میں ڈر گیا تھا‘۔یہ لوگ اسی رات فرار ہو گئے تھے۔

سارہ نے بتایا کہ جب انہوں نے پاکستان کا نام سنا تو ان کی آنکھیں باہر آ گئیں۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہاں پیمپر بھی ملیں گا یا نہیں‘۔

پیٹر نے کہا کہ وزیرستان واحد جگہ تھی جہاں جرمنی کے وارنٹ بے اثر تھے۔ ’میں وہاں اسلامی زندگی گزارنا چاہتا تھا‘۔ پیٹر نے بتایا کہ ابتدائی چند ماہ بہت مشکل تھے۔ وزیرستان پہنچنے پر پہلے پہل وہ کچھ عرصہ ایک مکان میں رہے جہاں سے القاعدہ نے انہیں، بقول ان کے، اس وجہ سے نکال دیا تھا کہ وہ لڑائی میں حصہ لینے پر تیار نہیں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں تیس کے قریب تنظیمیں تھیں جو سب ایک دوسرے سے خوش نہیں تھیں۔ کئی روز تک پیٹر اور سارہ کو گلیوں میں سونا پڑا۔ بالآخر جرمنی سے پیٹر کی والدہ کی طرف سے پیسوں کی صورت میں امداد ان تک پہنچی۔ انہوں نے ساڑھے تین سو یورو کا ایک کچا مکان اور ساڑھے چار سو یورو کا موٹر سائیکل خریدا۔

"پیٹر یاد کرتا ہے کہ جب اس نے پیپسی کی قیمت معلوم کرنا چاہی تو دکان پر لڑکی نے پہلے ہاتھوں کی انگلیوں سے اور پھر دونوں پیروں کی انگلیوں سے گن کر بتایا کہ یہ بیس روپے کی ہے۔ انہوں نے سوچھا کہ ان کا بیٹا اتنا کم عقل نہیں ہوگا"

جب انہیں گھر کی یاد آتی تو وہ شہر میں ’یورپی دکانوں‘ کی طرف نکل جاتے جہاں ’نٹیلا، بال بنانے والی کریم نوِیا اور بچوں کے لیے کوکو‘ سب جرمن پیکنگ میں میسر تھا۔ انہیں پیپسی بھی مل گئی۔ پیٹر یاد کرتا ہے کہ جب اس نے پیپسی کی قیمت معلوم کرنا چاہی تو دکان پر لڑکی نے پہلے ہاتھوں کی انگلیوں سے اور پھر دونوں پیروں کی انگلیوں سے گن کر بتایا کہ یہ بیس روپے کی ہے۔ انہوں نے سوچھا کہ ان کا بیٹا اتنا کم عقل نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں اگر نل خراب ہو جائے تو خراب ہی رہتا ہے، آٹھ بجے آنے والی بس کبھی بھی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کوئی نظام نہیں جیسا کہ یہاں ہے۔ ایک بار وہ سارہ کو بازار ساتھ لے گئے تو کئی ہفتوں تک ان کے پڑوسی ان کے بارے میں باتیں بناتے رہے کہ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت کیوں دی۔پیٹر نے کہا کہ اس کی بیوی کوئی جانور نہیں جسے گھر میں بند رکھا جائے۔

وہ ایک برس تک اس شہر میں رہے جو ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔ ’اگر آپ وہاں سے فوراً نکلنا چاہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ آپ جاسوس ہیں‘۔ میر علی اور اس کے گرد و نواح میں دن کا معمول ڈرون کی آواز طے کرتی ہے۔ پیٹر نے بتایا کہ جب راکٹ دور گرتا ہے تو دھویں کے بادل دکھائی دیتے، اور جب ایک دن ان کے ساتھ والے گھر میں گِرا تھا تو زمین ہل گئی تھی۔

پیٹر امداد لینے گیا اور جب واپس آیا تو کٹے ہوئے بازؤوں اور ٹانگوں اور گلیوں میں لاوارث پھِرنے والے یتیم بچوں کا ذکر کر رہا تھا۔

پیٹر کم ہی صحیح طرح سو سکا اور سارہ کو یہی خیال آتے رہے کہ ان حملوں کا شکار اس کا خاوند اور بچے بھی ہو سکتے ہیں۔ سارہ اس وقت حاملہ تھی۔ پیٹر اسے اس جگہ لے گیا جسے ہسپتال کہا جا رہا تھا۔ زچگی وارڈ ایک طویل گیلری پر مشتمل تھا جس کے دروازے بند نہیں تھے اور خواتین کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں اور زمین پر گندگی تھی۔

سارہ نے کہا کہ وہ بالکل ’قرون وسطیٰ کی طرح تھا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اس دنیا میں اپنے بچوں کو بڑا نہیں کروں گی‘۔ بچے کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل اس جوڑے نے، گرفتاری کے وارنٹ کے باوجود، پاکستان چھوڑنے کا فیصلے کیا۔ واپسی کا سفر ایک منشیات کے سمگلروں سے بھرے ایک ٹرک میں شروع ہوا۔ ’بدبودار نشہ کرتے ہوئے مردوں نے ہمیں آٹے کی بوریوں سے زیادہ نہیں سمجھا اور نماز کے اوقات کا بھی خیال نہیں رکھا‘، سارہ نے بتایا۔

اس کے بعد ایران کے پہاڑوں پر پیدل سفر تھا۔ اسی دوران ایرانی سرحد کے قریب ان کی بیٹی شہیدہ پیدا ہوئی۔ پیٹر جرمنی نہیں آنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ لوگ اس کی بیوی کو نقاب پہننے پر ’دہشت گرد‘ یا ’پینگوین‘ کہیں گے۔ ’میں نہیں چاہتا تھا کہ میں جرمنی کے لیے یا جرمنی میرے لیے کوئی مسئلہ پیدا کرے‘۔پیٹر نے اقوام متحدہ کو بھی درخواست بھیجی لیکن بے سود۔ اسے ترکی کے حکام نے جولائی کے اوائل میں جرمنی کے حوالے کر دیا۔

دو روز کے بعد اس کے بیوی اور بچے بھی جرمنی پہنچ گئے۔

پیٹر سلاخوں کے پیچھے اپنے خلاف مقدمے کا اور ناکافی شواہد کی صورت میں رہائی کا منتظر ہے۔وزیرستان میں اس نے اپنی بیوی سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ جرمنی جانا پڑا تو وہ وہاں سے مالدیپ چلے جائیں گے۔ پیٹر کا کہنا ہے کہ مکّہ کے بعد وہ سب سے خوبصورت مقام ہے، لیکن ظاہر ہے، جنت کو چھوڑ کر۔

Saturday, 14 July 2012

جاگو !!!! پاکستان !!!! جاگو


سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

 

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے
احمد ندیم قاسمی

Wednesday, 11 July 2012

اسلام اور انٹرنیشنل سروے پاکستان


پاکستان کے 87فیصد عوام القاعدہ کے خلاف ہیں
تاہم
82فی صد افراد کا خیال ہے کہ ملکی قوانین قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہونے چاہییں۔
امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے 6بڑے مسلم ممالک میں کرائے گئے سروے کے مطابق مسلم عوام کی اکثریت انتہا پسندی کے خلاف ہے۔
پاکستان میں صرف 13فیصد افراد القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں جبکہ
مصر کے 19فیصد اور
تیونس کے 16فیصد افراد القاعدہ کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں۔
تاہم پاکستان کے 82فیصد عوام چاہتے ہیں کہ ملک کے قوانین قرآنی احکامات کی روشنی میں بنائے جائیں۔
اردن کے 72 فیصد اور
مصر کے 60 فیصد افراد نے بھی انھیں خیالات کا اظہار کیا۔
ترکی میں مذہب پسندوں کی تعداد سب سے کم ہے اور صرف 17 فیصد ترک اسلامی قوانین چاہتے ہیں۔

پیو ریسرچ کی سروے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاہے کہ مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت جمہوریت کی حامی ہے۔
84فیصد لبنانی،
71فیصد ترک،
67فیصد مصری اور
42فیصد پاکستانی اپنے ملکوں میں جمہوریت کا فروغ چاہتے ہیں۔

Monday, 9 July 2012

ہمارے گرد گھومتی کہانیوں میں سے ایک کہانی: طوائف اورتماش بین

Thanks ahwaal.com

مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی "ماں مر گئی۔"
"کیا؟"
جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ "آج میری ماں مر گئی۔"
اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔
"تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔
" کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔"
اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔
میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،"میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔"
وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔
"کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟" یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔
"سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔" وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔
"تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟" بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی
"افشاں"۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
" بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔"
وہ خاموش رہی۔
"تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟"
اس نے خاموشی سے "نہیں" میں سر ہلایا۔
"یہ بچہ تمھارا ہے ؟"
اس نے پھر خاموشی سے "ہاں "میں سر ہلایا۔
"تمھارا شوہر کہاں ہے؟"
چند لمحوں بعد وہ بولی "چھوڑ گیا۔"
"تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟"
اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، "سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا"یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔" یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔"
وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔
"کیا ہوا؟" میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟" وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟
اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔
میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، "تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔
سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ "مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔"اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ "افشاں" کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟
میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔
"کون ہیں؟"
"معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔" ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
"اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔"
کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔
ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
"سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔"
جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔
" آپ مجھے پہچان گئے ناں؟"
میں نے سر ہلاتے ہوئے "ہاں" میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ "احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔"
" میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔"
"سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔" احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔
"ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔"
میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، "سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔"
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، "سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔"میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔
"میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔"
میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔
"ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ " شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔
"کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟" بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
"میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔" میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔
اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔

ڈاکٹر قدیر خان اور قادیانیوں کی سازشیں: انکشاف