Monday, 30 September 2013

احتساب، احتسابــــــــــــــــــــــــــــ

ایک بات ہے کہ ساری قوم ، عوام، عدلیہ، اور ادارے ، وزیر اعظم اور صدر اور سیاہ ست دانوں کے احتساب کی بات کرتے ہیں ہر آنے والا ہر جانے والے کے احتساب کی بات کرتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں احتساب نیچے سے ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔
 
مثال کے طور پرــــــــــــــــ
 
کم از کم ایک علاقے کے ایس ایچ او، کونسلر ، سکول کالج کے پرنسپل، اداروں میں بیٹھے کلرک ،مساجد کے مولوی، اور خاص طورپر مدارس اور این جی اوز چلانے والے لوگـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 یعنی اس لیول کے لوگوں کا احتساب کیا جائے۔
 
!!!!!لیکن کیسے!!!!!
 
جیسے کراچی آپریشن سٹارٹ ہوا؟ ویسے؟
 
جی نہیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــں
 
ہفتہ بھر پہلے میڈیا کے کتوں کو بھونکنے پر لگا دیا کہ ہم آپریشن کر رہے ہیں۔ جس کو ادھر ادھر ہونا ہے ہو جائے پھر نا کہنا بتایا نہیں تھا۔
 
عام عوام کو کھلی اجازت ہو کہ وہ ایسے لوگوں کے کالے کرتوت منظر عام پر لائیں مگر "اپنی شناخت" پوشیدہ رکھ کر۔ اور جس جگہ یہ ساری معلومات اکھٹی ہوں وہ جگہ مکمل طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ نوجوان ہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی قسم کا دباو برداشت نہیں کرتے۔
 
اس جگہ پر اکھٹے ہونے والا ڈیٹا،
 
ذاتی نقل و حرکت
لوگوں سے میل جول
زمین جائیداد
گاڑی، کوٹھی، بنگلہ
بنک بیلنس
معمولات زنگی
رہن سہن
اخلاقیات
تعلیم اور تجربہ وغیرہ وغیرہ
 
ان سب پر مشتمل ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بندہ خاندانی زمین جائیداد کے نا ہونے،اور کوئی دوسرا حلال زریعہ آمدنی نا ہونے کے باوجود  صرف ماہانــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ تنخواہ پر اپنا گھر کیسے چلا رہا ہے،
 
اس کی تعلیم اور تجربہ اس کی موجودہ پوسٹ یا کرسی کے مطابق ہے،
 
اس کے پاس اثاثہ جات کیسے اور کہاں سے آتے ہیں،
 
اس کی اپنی اخلاقیات کیا ہیں،
ظاہر ہے ایک شرابی، زنا کار، جواری انسان کا کیا کردار ہوگا
 
ان ساری چیزوں پر مشتمل ڈیٹابیس صرف 30 دن میں بتا سکتا ہے کہ یہ لوگ نظر کیا آتے ہیں اور حقیقت میں کیا ہیں؟
 
اور مکمل رپورٹ کی بنا پر اگر وہ نا اہل ہے توفوری طور پر اس کو اس عہد سے برطرف کر کے اس جگہ پڑھے لکھے نوجوان لوگوں کو لگایا جائے۔
 
اس کے کئی مثبت پہلو ہوں گے۔
 
نوجوان پڑھے لکھے ، تازہ زہن لوگ اداروں میں آئیں گے
 
معاشرے کے یہ ناسور جو ناجانے کتنے کتنے سالوں سے سانپ بن کر بیٹھے ہیں ان سے پاکی نصیب ہوگی
 
نئے لوگ، تعلیم یافتہ لوگ لانے سے نظام میں یقینی بہتری آئے گی
 
اور بہت سوں کو سبق ملے گا کہ وہ اپنا قبلہ درست رکھیں ورنہ عوامی احتساب کو شکار بھی ہو سکتے ہیں
 
کسی بھی ادارے کے کرتا دھرتا کی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ وہ شداد ہے اور اپنی جنت سجائے بیٹھا ہے اور کوئی اس کو زمین بوس کرنے والا نہیں۔
 
امید ہے کہ صاحب عقل لوگ میری بات سے اتفاق کریں گے۔
شکریہ
 

TTP: Tehreek-e-Taliban Pentagon_ٹی ٹی پی: تحریک طالبان پینٹاگان

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک میں بادشاہ نے اندرونی و بیرونی ناچاقیوں اور سازشوں سے نپٹنے اور اپنے دفاع اور ملک کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے وزراء کا اجلاس طلب کیا، جس میں کافی غور وفکر کے بعد یہ طے پایا کہ ایک ایسی ٹیم تیار کی جائے جو ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور تحریک پر نظر رکھے ، ملک کے اندر اور باہر کے حالات کو اچھی طرح سے معلومات میں لائے ۔ تاکہ کسی بھی بیرونی یا اندرونی خطرے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کی جاسکیں، یہ ٹیم ایسی مضبوط با اختیار اور کیل کانٹے سے لیس ہوگی کہ کوئی ان کی ہوا کو بھی نا چھو سکے۔
 
اگر ملک پر کوئی ایسی صورت حال آن پڑی تو یہ ٹیم ہر اؤل دستہ کے طور پر ملکی دفاع کے لیئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔ اس کے بعد ملک کے خزانے کسی گنتی کے بغیر اس ٹیم کو تیار کرنے کےلیئے کھول دیئے گیئے۔
 
کچھ ہی عرصہ میں ملک میں ہونے والے ہر کام کی اطلاع بادشاہ کو ملنے لگی، جس پر بادشاہ بہت خوش تھا۔ کوئی پتا بھی ہلتا تو اس کی رپورٹ بادشاہ تک انتہائی برق رفتاری سے پہنچا دی جاتی۔
 
پھر کچھ عرصہ بعد ، اس ملک پر بیرونی اور اندرونی طاغوتی طاقتوں نے پنجے گاڑ دیئے اور وہ وقت آن پہنچا جب اس طاقتور ٹیم کو اپنا رزق حق حلال کرنا تھا۔ بادشاہ اور عام لوگ بہت خوش تھے کہ جلد ہی ان کے یہ شاہین دشمنوں کا صفایا کردیں گے۔
 
لیکن یہ کیا ہوا، ہر روز صبح دوپر شام بادشاہ کو رقعہ پے رقعہ اور چٹھی پہ چٹھی ملتی کہ فلاں وقت میں اس جگہ یہ ہونے لگا ہے، فلاں وقت میں اتنا زیادہ نقصان ہونے کو ہے۔ اور اطلاع اتنی پکی ہوتی کہ ویسا ہی ہوتا جیسا اطلاع میں لکھا ہوتا تھا۔
 
اب بادشاہ اور عوام کی رات کے ساتھ ساتھ دن کی نیند بھی حرام ہو گئی، کیوں کہ جب بھی کوئی اطلاع ملتی لوگ مرنے سے پہلے ہی خوف سے مر جاتے۔ لیکن وہ ہر اول دستہ جسے دودھ گھی سے پال پوس کر اس وقت کے لیئے تیار کیا تھا وہ تو کہیں دور سے بیٹھ کر صرف چھٹیاں اور خبریں دیتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
-
-
-
-
-
-
اس جانی پہچانی کہانی کا کوئی انجام نہیں اس ملک میں ابھی بھی لوگ حیرت زدہ سر تاپا سوال بنے ہوئے ہیں کہ جب پہلے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام ہونے والا ہے تو کیا اس کی اطلاع دے دینا کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
 
ابھی کل ہی ایک دوست نے مسکراتے ہوئے رات کے کھانے پر یہ سوال پوچھا کہ بتاو ٹی ٹی پی کا کیا مطلب ہے۔ ہر کوئی اپنی عقل و فہم کے مطابق جواب دے رہا تھا، لیکن بلا آخر اس دوست نے اپنی مسکراہٹ کا پول کھولا اور کہا کہ بھائیو!!!
 
تحریک طالبان پینٹاگان۔
بات میں وزن تھا سو کسی نے اس پر بحث کرنا مناسب نا سمجھا
 
اور تھوڑا سا آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ


 پاکستان میں ہونے والے حملے
بم بلاسٹ
خودکش دھماکے
فائرنگ
دہشت گردی کی کاروائیاں
چاہئے کوئی زمہ داری قبول کرئے یا نا کرئے حقیقت عیاں ہے کہ کوئی مسلمان یہ کام نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 میں سوچتا ہوں کہ کیا زندگی گزار رہے ہیں ہم بھی، کل شام کو ٹی وی پر پشاور بم بلاسٹ کی خبر چل رہی تھی، دل کے اندر ایک عجیب سی کھلبلاہٹ اور بے سکونی ساری رات رہی۔ "گو کہ ضمیر مردہ ہو چکے ہیں  ــــــــــــــــــــ پھر بھی۔
 
ابھی جیسے ہی دن کا آغاز کیا اور ایک نظر اخبار پر پڑی تو پہلی خبر تھی وزیرستان میں ڈرون حملہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کیا کہا ہے کسی شاعر نے کــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
 
کسی کو کیا تخیل دے سکے گا
جو فطری طور پر خود مر گیا ہو
 
عجب بات ہے، ایجنسیوں کے منع کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ حفاظتی انتظام نا ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے غیرت اخبار کی خبر اور اس کے اس جملے نے کئی سوال دماغ میں لا کھڑئے کیے ہیں۔ کہ آخر ایجنسیوں کو پتا تھا تو پھر کس نے حفاظتی انتظامات کرنے تھے۔
 
 

Friday, 27 September 2013

دین اسلام زندہ بادـــــIslam Zinda Baad

Well I have found this picture on Internet, isn't funny. Jewish Think they are on Top of All Others, but but but, Again See this picture and concluded that....................... When A Muslim will stand from "Sajda" The Jewish and Christine will go down. (Insha Allah).
 
ایک تصویر کو دیکھ کر کچھ حیریت ہوئی لیکن اگر آپ دوبارہ غور کریں تو خود غیر مسلموں نے حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ جس دن مسلمان سجدہ سے اٹھے گا اسی دن عیسائی اور یہودی دونوں منہ کے بل زمیں بوس ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ۔


 

::::محبت ٹھہر جاتی ہے:::::::


:::: بیوروکریٹ ڈاکو ::::


 چائنہ کے ایک بینک میں ڈاکو گھس آئے ۔ چلا کر کہنے لگے "سارے نیچے لیٹ جاو ، پیسے تو حکومت کے ہیں جان تمہاری اپنی ہے" اور سب نیچے لیٹ گئے
ایک خاتون کے لیٹنے کا انداز زرا میعوب تھا ۔ ایک ڈاکو نے چلا کر کہا "تمیز سے لیٹو ڈکٹتی ہورہی ہے عصمت دری نہیں "
ڈکیتی کے بعد جب ڈاکو واپس لوٹے تو چھوٹۓ والے ڈاکو نے جو کہ انتہائی پڑھا لکھا ہوا تھا بڑے ڈاکو سے جو کہ صرف چھ جماعتیں پاس تھا پوچھا" کتنا مال ہاتھ آٰیا"۔...

بڑے ڈاکو نے کہا "تم بڑے ہی بیوقوف ہو اتنی زیادہ رقم ہے ہم کیسے گن سکتےہیں ،ٹی وی کی خبروں سے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنی رقم ہے "
ڈاکووں کے جانے کے بعد بینک مینجر ، بینک سپروائزر کو کہا کہ پولیس کو جلدی سے فون کرو !! سپروائزر بولا "انتظار کریں ،پہلے اپنے لیے 10 ملین ڈالر نکال لیں اور پھر جو پچھلا ہم نے 70 ملین ڈالر کا غبن مارا ہے اس کو بھی کل ڈکیتی شدہ رقم میں ڈال لیں"
یہ اچھی بات ہے اگر بینک میں ہروز ڈکیتی ہو
اگلے دن میڈیا پر خبر چلی کہ بینک میں 100 ملین ڈالر کی ڈکیتی ہوئی ہے ۔ اصل ڈاکووں نے رقم گننی شروع کی ،بار بار گنی لیکن وہ صرف 20 ملین ڈالر نکلی ۔ ڈاکو اپنا سر پیٹنے لگے کہ ہم نے اپنی جان موت کے خطرے میں ڈالی اور ہمارے ہاتھ صرف بیس ملین اور بینک مینجر صرف انگلی کے اشارے سے 80 ملین لے گیا !! ڈاکو ہونے سے تو بہتر تھا کہ ہم پڑھ لکھ جاتے !!


چائنہ کے لیے تو ایک لطیفہ ہے پاکستان کے لیے ایک حقیقت ۔ یہ ایک بڑا سا بنیک ہے جس میں ہر پانچ سال بعد کچھ ڈاکو گھس آتے ہیں ، لوگوں کو نیچے لیٹنے پر مجبور کردیتے ہیں ، اور لوٹنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اخلاقیات و شرم و حیا کا درس دیتے رہتے ہیں ! جب تک یہ لوٹتے رہتے ہیں دوسرے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ، ان کا دور ختم ہوتا ہے پڑھے لکھے ڈاکووں کا بیورو کریسی ،ٹیکنو کریسی ، حقہ کریسی ، خوشامد کریسی اور نہ جانے کون کون سی کریسی کے ناموں تلے کا دور شروع ہوتا ہے اگلے پانچ سال والوں کو یہ حساب دینا ہوتا ہے کہ خزانے میں لوٹنے کے لیے کتنا مال پڑا ہے یہ مناسب موقع جان کر اپنی لوٹ مار بھی اسی میں شامل کردیتے ہیں !! جانے والے پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو اتنا نہیں لوٹا یہ مال کہاں چلا گیا !! اور آنے والا اس انتظار میں لگ جاتا ہے کہ چلو تھوڑا سا وقت گزر جانے دو پھر ہم لوٹتے ہیں ، نئے آنے والے اپنے پڑھے لکھے بٹھاتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار کا علم نہ ہوسکے ۔ ان کی لوٹ مار کا تو علم ہوجاتا ہے لیکن یہ پڑھے لکھے ان کے پردے میں جو لوٹ مار کرتے ہیں اس کا علم ان ڈاکووں کو بھی نہیں ہوتا !!!
ڈاکو ہونے سے بہتر ہے بندہ بیوروکریٹ ہوجائے !!

ویسے یہ لطیفہ "جیونیوز" اپنے علم پھیلانے کی مہم میں بھی شامل کرسکتا ہے ۔ علم کے فائدے کے عنوان سے ۔ کیونکہ جو علم وہ پھیلانا چاہتا ہے اس سے بیورو کریٹ ، ٹیکنو کریٹ ، پیپسی کریٹ ،حقہ کریٹ اور ڈاکو ہی جنم لیتے ہیں !!!

Tuesday, 24 September 2013

بلاگستان | بلاگستان میگزین

ایک نئی چیز حادثاتی طور پر سامنے آئی اور وہ ہے اب پتا نہیں کام کیسے کرتا ہو گایہ۔ لیکن ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔ شکریہ

Windows Live Writer

Hayabusa-Hd-Wallpaper--

بلاگستان | بلاگستان میگزین

Sunday, 22 September 2013

:::::انسانیت کی موت::::::

ویسے تو اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جس دن انسانیت کا قتل نا ہورہا ہو۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں تو یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو نا جانے کب ختم ہوگا، ہو گا بھی یا کسی دن اس سلسلے کی بھینٹ چڑھ کر ہم ہی ختم ہو جائیں گے۔ میں کوئی عالم نہیں ، نا ہی مجھے محرکات کا پتا ہے لیکن میرا دین وہ دین ہے جو امن ، پیار ،محبت، اخوت، بھائی چارہ کا سبق دیتا ہے۔ کہیں بھی کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ انکھیں بند کر دے قتل عام شروع کردو۔ شاید امت مسلمہ میں پاکستان کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہ ملک جس کو دین اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں کیا ہو رہا، ہمارا دین کبھی بھی کہیں بھی کسی اقلیت کو قتل کرنے کا نہیں کہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دین تو وہ سائبان ہے جو ہر بھٹکے ہوئے کو اپنی پناہ میں لے کر راہ حق پر لاتا ہے، جس کے دائرے میں آنے کے بعد کسی بڑی سے بڑی قوت کی مجال نہیں جو کسی کی طرف دیکھ بھی سکے۔۔۔۔۔
 
پھر یہ کیا ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
 
آج کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے، لاشوں کےانبار اور انسانوں کے بکھرے ہوئے اعضاء ہماری حکومت ، ہمارے اداروں اور ہماری ناکامی کا منہ چڑا رہےہیں۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے اندر موجود لوگ جنھہوں نے اس ملک کو امن سے دور کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ کہاں سے کیا آتا ہے کون آتا ہے کون لاتا ہے اور لا کر استعمال کرتا ہے، صرف ہماری سلامت کو تباہ کرنے کے در پہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں دشمن وہ نہیں جو یہ کرتا ہے بلکہ دشمن وہ ہے جو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہونے دیتا ہے۔
 
کالی بھیڑیں، میر جعفر ، میر صادق کے پیرو کار، چانکیہ کے چیلے اور ان کی اولادیں، نسل در نسل ہماری جڑوں کو ایک دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
 
کہاں گئے دفاع اور سلامتی کا حلف اٹھانے والے؟
 
حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک حکومت سے منسلک ادارے اپنا قبلہ درست نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ورنہ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ ہم سب کے لیئے لمحہ فکر اور المیہ ہےـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 

 

9mm_____ Breta or Glock My Lovely Choice

یہ 9ایم ایم مجھے اتنا کیوں پسند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریٹا، گلاکــــــــــــــــــــــــــــــ بہترین پراڈکٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

روبیضہ وقت و دجال کا غلام!

روبیضہ وقت و دجال کا غلام!
اردو و انگلش لڑیچر میں ایک کہانی مشہور ہے ۔ دو بھایئوں کے درمیان جائداد کے معاملے پر جھگڑا پڑ گیا ، چھوٹے بھائی نے منصوبہ بنایا کہ بڑے بھائی کو قتل کردیا جائے لیکن کچھ ایسے طریقے سے کسی کو علم نہ ہوسکے ۔ اس کا ایک انتہائی قابل اعتماد مصاحب نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ۔ بڑے بھائی کو گرفتار کر کے اس مصاحب کے حوالے کردیا گیا ۔ اس نے ایک عجب طریقے سے کام لیا ، بھائی کو ایک انتہائی پرتعیش جگہ پر رکھا گیا جہاں روشنی و اندھیرے کا پراسرار انتظام تھا ۔ کمرے کے اندر ایک کیلنڈر و گھڑی لٹکائی گئی ۔
بھائی صاحب سو کر اٹھتے تو دیکھتے کہ گھڑی و کیلنڈر میں تاریخ دو ماہ آگے پہنچ چکی ہے ، کمرے میں لائٹ کا انتظام کچھ ایسے کیا جاتا کہ رات ہوتی تو کمرے کے اندر محسوس ہوتا کہ دن ہے ، اور دن ہوتا تو کمرے کے اندر محسوس ہوتا کہ رات ہے ۔ یہ سب کچھ بہت اہستگی و چابکدستی سے سرانجام دیا گیا ۔ خدمت پر مامور ملازمین کے کپڑے ، حلیے بھی بدل دیئے جاتے ، نوجوان ملازم کو کچھ دنوں بعد 35 ، 40 کے پیٹے میں دکھایا جاتا اور ادھیڑ عمر ملازمین کو بوڑھے کا بھیس دے دیا جاتا ، صبح کے ناشتے میں بھائی جو کچھ کھاتے اگر اس کو کچھ حصہ بچ جاتا تو دوپہر تک اس کو خراب کھانے سے بدل دیا جاتا ۔ بھائی صبح کے وقت بیدار ہوتے تو تاثر یوں دیا جاتا کہ آپ بہت دیر تک سوئے ہیں اب سہ پہر ہونے والی ہے ۔ اور کچھ دیر بعد ہی پھر رات کا منظر پیش کرکہ انہیں دوبارہ سلا دیا جاتا ۔ اس انتہائی مہارت و چابکدستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظوم بھائی کو کچھ ہی عرصے کے بعد یقین ہوگیا کہ وہ بہت دیر سے قید میں ہے ۔ اور وقت اس کے قریب بہت تیزی سے گزر رہا ہے ۔ اس کا اثر اس کے قوی پر پڑنا شروع ہوا ، اس نے اپنے آپ کو مضمحل و بوڑھا ہوتا تصور کرنا شروع کردیا ۔ بیماری و ڈھلتی عمر کا اسے احساس رہنے لگا ، اور کچھ ہی مہینوں میں وہ اس نفسیاتی اثر کا شکار ہوکر مر گیا ۔ اس کے چھوٹے بھائی کو اس کامیابی کا بتایا گیا اس کو خوشی کے ساتھ غم کا احساس بھی ہوا اور اس نے مصاحب کو بھی مار ڈالا!!
ہمارا میڈیا بھی اس مصاحب کی طرح کا ایک چابکدست و عیار غلام ہے ۔ جس نے امت کو ایک کمرے میں بند کررکھا ہے ۔ جو وہ دکھانا چاہتا ہے وہ دکھاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ دن ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں شائد دن ہی ہوگا ، وہ کہتا ہے کہ رات ہے تو گمان پیدا ہوجاتا ہے کہ شائد رات ہی ہوگی ، وہ گھڑی کا وقت بدل دیتا ہے ہمیں یقین ہونے لگتا ہے کہ شائد زمانہ ہم سے بہت زیادہ تیز چل گیا ہے ، ہم صبح کو ایمان کی خوراک کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں شام تک یہ اس کو خراب کردیتا ہے ۔ ہماری تفنن طبع کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ملازمین بدلتا رہتا ہے ۔ جوان ادھیڑعمر ہوجاتے ہیں ، ادھیڑ عمروں کو جوان کردکھاتا ہے ،شیطانوں کو انسان ، انسانوں کو شیطان کردکھاتا ہے ۔ اس کا کیلنڈر موسم و وقت کے مطابق نہیں بدلتا بلکہ اپنے مالک کی اطاعت میں بدلتا ہے ، یہ وقت کا روبیضہ ہے یہ دجال وقت کا غلام ہے ۔ اس سے چھٹکارا ایک صورت ہی ممکن ہے کہ اس کے مکر کا داو اسی پر پلٹ دیا جائے اور اس کی گھڑی ،کیلنڈر و ملازمین کے بھروسے کے بجائے اپنے اندر ایمان کی شمع جلا لی جائے جو کہ گزرتے وقت و نتائج کو الہی بصیرت سے دیکھے نہ کہ اس کی دجالی آنکھ سے۔
 
::::میری رائے::::::
 

Friday, 20 September 2013

مٹی کا بوجھ :::: منتخب تحریر

 
اس کا نام حاکم تھا اور وه تھا بھی حاکم .. لوگ اسے اندلس کے بادشاه کی حیثیت سے جانتے تھے . ایک دن اس نے سیر کے دوران ایک خوبصورت مقام دیکھا جو اسے بہت پسند آیا اور اس نے وہاں محل تعمیر کرنے کا سوچا .
یه جگه ایک بوڑھی عورت کی ملکیت تھی . بادشاه نے اسے معقول رقم زمین کی قیمت کے طور پر ادا کرنا چاهی لیکن عورت نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا . بادشاه نے دگنی تگنی قیمت بھی دینا چاهی مگر عورت نه مانی . آخر بادشاه نے زبردستی اس مقام پر محل کی تعمیر شروع کر دی . بڑھیا نے قاضی وقت کی عدالت میں بادشاه کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا . اسی اثنا میں بادشاه نے قاضی کو اپنے زیر تعمیر محل اور باغات دیکھنے کی دعوت دی . قاضی نے دعوت تو قبول کر لی اور دعوت پر بھی گئے لیکن اپنے ساتھ ایک گدھا اور کچھ خالی بورے بھی لے گئے .
بادشاه یه سب دیکھ کر حیران هوا اور قاضی سے پوچھنے لگا کۂ یه سب کیا هے ؟
قاضی بولا ، عالی جاه ! آپ کے باغات سے کچھ مٹی لے جانا چاهتا هوں . بادشاه حیران تو هوا لیکن بہرحال اس نے قاضی کی درخواست منظور کر لی . قاضی کے خدام نے جب بورے مٹی سے بھر دئے تو قاض...
ی نے بادشاه سے کہا ، عالی جاه ! میں یه بورے اٹھا کر گدھے پر رکھنا چاهتا هوں . میرا هاتھ بٹائیے گا .
حاکم حیران تو بہت هوا لیکن قاضی وقت کے احترام میں مجبورا بورے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن انھیں هلا تک نه سکا .
تب قاضی بول اٹها کۂ عالی جاه ! آج آپ اس باغ کی مٹی کا ایک بورا نہیں اٹھا سکتے تو کل روز قیامت جب وه منصف اعلی آپکو حکم دے گا کۂ بڑھیا کی زمین واپس کرو تب آپ ان باغات اور اس محل کا بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے ؟
حاکم بہت نادم هوا اور اسی وقت بڑھیا کو بلا کر وه باغات اور محل اسے سونپ دیے .
 
از محمود احمد خان

Wednesday, 18 September 2013

ایک متخب تحریر::: ماں


 
ماں کی ہستی پر ایک خوبصورت تحریر
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے ۔ میں سکول سے آتا تو دستک دینے سے ہہلے دروازہ کھل جاتا ۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔

وہ پیار بھری مسکراہٹ ...
سے میرا استقبال کرتی ، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا ۔

ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا ۔
جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں ۔ یہ مقابلہ بہت دلچپ ہوتا تھا ۔

ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی ... ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی ۔

یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا۔

لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی !
ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے ۔ سب ان پر عمل کرتے تھے ۔

ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاہور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا ۔ ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا ۔

میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی ۔

لیٹ ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا ۔

میں ماں سے پوچھتا تھا .... آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟ وہ ہنس کے کہتی مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔

پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !

ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکٹایا۔ کچھر دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔

سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سے آذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امّی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی
 
پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔

وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے ، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیونکہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی ۔

پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں "پتر ھن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی"۔

کچھ عرصہ بعد میں لاھور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔
سال میں ایک دو دفعہ میں لاھور جاتا ہوں۔
میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔
لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔

منتخب تحریر: "کلمہ پڑھا ہوا ہے"

 
ہمارے ایک دوست تھے ، ذہن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیراسلامی ، ہم ذہن پر ہی شکر ادا کرتے، موصوف کچھ عرصہ کے لیے ولایت تشریف لے گئے جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھیں! موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ،اس لیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ،رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لیے دوردراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتیں سروں پر ڈوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتی ...اور ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہوجائے ، دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتا چادر اور سوٹ گوری کو دیا ، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا ،مسلمان کیا ہے ؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ، اور اباجی مطمئن ہوگئے !

مشترکہ خاندانی نظام تھا ، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کام شروع ہوا ، میاں کے آفس جانے سے پہلے میم دروازے کے اوپر خاوند کی باہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتیں! گھر میں کچھ چہ میگوئیاں ہوئیں ، بیٹا جی نے استفسار پر بتایا کہ سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" گرمیاں شروع ہوئیں گوری نے پینٹ اتار کر نیکر پہننی شروع کردی ، ابا جی تو کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے ، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں کہ کہیں سے چھوٹی تو نہیں رہ گئیں ! بیٹے سے شکوہ ہوا اس نے پھر بتایا "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے ،دریافت کرنے پر پھر بتایا گیا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن ہر سال کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی بیٹا جی ہر دفعہ پوچھنے پر جواب دیتے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ وقت گزرتا چلا گیا ،برداشت پیدا ہوتی چلی گئی، بچہ ہوا تو گوری نے ختنے کروانے سے انکار کردیا کہنے لگی کہ یہ ظلم ہے ، بیٹا جی کھسیانی سی ھنسی کے ساتھ بولے سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ڈانس، میوزک، فلمیں، کاک ٹیل پارٹیز، کرسمس، سرعام بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بنے ، بھائی آہستہ آہستہ بھابی سے فری ہوتے چلے گئے، ہاتھوں پر ہاتھ مار کر باتیں کرتے اور وہ ان کی گوری سہیلیاں ڈھونڈنے کی کوشش۔ بہنیں بھابی کے کمرے میں جاتیں اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کا شیشے کے آگے چیک کرتیں کلمہ تو انہوں نے بھی پڑھا ہوا تھا، بھابی سے دل کی ہر بات کھول کر بیان کرتیں ، گوری کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھ لیتی تھی اس لیے ابا جی بھی کہنے لگے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔

ایک صرف اماں تھیں جو کہ گھر کے دروبام کو اب خوفزدہ سی نظروں سے دیکھتیں اور پوچھنے پر سر جھکا کر جواب دیتی کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ دوست احباب جب بھی ملنے جاتے تو گوری خاوند کے پہلو سے چپک بیٹھتی ، ایک دو بار تو جگہ تنگ ہونے کی صورت میں گود میں بھی بیٹھنے سے گریز نہ کیا پوچھنے پر صرف اتنا جواب ملتا "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ایک کام گوری کا اچھا تھا جب بھی کہیں باہر بازار وغیرہ نکلتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر پر ایک ڈوپٹۃ سا ڈال لیتی ۔ دیکھنے والے دیکھ کر ہی اندازہ کرلیتے کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"

اسلامی جمہوریت بھی مغرب کی ایک ایسی ہی گوری ہے جس کو ہمارے کچھ دینی مزاج والے بھائی بیاہ لائے۔ انہوں نے اس کو ادھر کے معاشروں کے قابل قبول ہونے کے لیے اسے کلمہ پڑھایا، قوم کے لیے اس کے رعب میں آنے کے لیے اس کا بدیسی ہونا ہی کافی تھا ،اتنی گوری اتنی چٹی "کلمہ پڑھی ہوئی جمہوریت"!! انہوں نے ہاتھ لگانے کی بھی جرآت نہ کی دور دور سے ہی دیکھ کر خوش ہوگئے کہ لو ایک کلمہ پڑھی گوری اپنے ہاں بھی آئی ہے ۔ اس نے رواج توڑے ، دستور توڑے ، آزادی کے نام پر ہر ایک چیز کو اندر لے آئی ، لیکن قوم خوش ہی رہی کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے !! معاشرت کے نام پر یہ ہر اس میدان میں اسی طرح ناچنے لگی جو کہ غیر قوموں کا دستور تھا لوگ پھر بھی مطمئن رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ، اس نے ہر شرک و کفر کو ایک جواز دیا ، ہر ظالم کو اقتدار تک پہنچنے کا راستہ دیا ، دین کے ہر ابا جی کو سمجھوتہ کرنا سکھایا ، کلمے کا سہارا لے کر ہر چیز کو عام کیا ، اور ہم محلے داروں کی طرح اسی بات پر خوش رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے !! اگر کسی نے بہت زیادہ شرمندگی محسوس کی بھی تو اماں جی کی طرح سر جھکا کر یہی کہا کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے ۔

آج بھی وقت ہے کچھ یہ برباد کرچکی کلمے کے بھیس میں کچھ برباد کردے گی ۔ بچ جائیں اور اس اسلامی جمہوریت کو تین طلاقیں دے دیں۔ طلاق اس کا حق ہے کیونکہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے۔
کیونکہ ہمارا اصل نظام تو خلافت ہے۔


قاضی حارث

نیم حکیم، نیم ملا

 
 
اشتہار بڑا دلچسپ تھا، میں رکشے کے قریب ہوکر غور سے پڑھنے لگا۔۔۔لکھا تھا ’’چھوٹے قد، کینسر، ہپاٹائٹس، گرتے بالوں، بے اولادی، موٹاپے، جوڑوں کے درد، امراضِ مخصوصہ، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار، جسمانی کمزوری، پٹھوں کے کھنچاؤ ،دل کے امراض اور کسی بھی بیماری میں مبتلا افراد پریشان نہ ہوں ، ہر مرض کا شافی علاج موجود ہے۔۔۔ فراز دواخانہ ۔۔۔میں نے کچھ دیر غور کیا، مجھے لگا جیسے ساری بیماریاں مجھ میں موجود ہیں، اگلے ہی دن میں حکیم صاحب کے دواخانے میں موجود تھا۔ میرا خیال تھا کہ حکیم صاحب بیہودہ سے لباس میں ملبوس کوئی روایتی سے حکیم ہوں گے ، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب واقعی میرا خیال درست ثابت ہوا۔ انتظار گاہ میں مریضوں کا رش لگا ہوا تھا، ایک طرف ایک بڑا سا اشتہار لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا’’بڑا آپریشن کرانے پر چھوٹا آپریشن فری‘‘۔۔۔دوسری لائن میں ایک عجیب و غریب انعام کی ترغیب دی گئی تھی، لکھا تھا ’’چار دفعہ ریگولر حکیم صاحب سے علاج کرانے پر انعامی کوپن حاصل کریں جس پر آپ کا 70 سی سی موٹر سائیکل بھی نکل سکتا ہے‘‘ ساتھ ہی کچھ خوش نصیبوں کی تصویریں بھی د...ی ہوئی تھیں جن کا موٹر سائیکل نکل چکا تھا۔

دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد میری باری آگئی، حکیم صاحب پر نظر پڑتے ہی میں اورحکیم صاحب دونوں اچھل پڑے۔میں نے اپنی آنکھیں ملیں، بازو پر چٹکی کاٹی، زور زور سے سر کو جھٹکے دیے ، لیکن حقیقت نہیں بدلی۔۔۔میرے سامنے میرا دوست فراز بھٹی بیٹھا ہوا تھا جسے ہم پیار سے فراڈ بھٹی بھی کہتے تھے۔اس سے پہلے کہ میرے منہ سے کچھ نکلتا، اس نے ایک چھلانگ لگائی، جلدی سے دروازہ بند کیا اور میرے قریب آکرگھگھیایا’’خدا کے لیے کسی کو پتا نہ چلے کہ میں کون ہوں‘‘۔ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ’’اوکے، نہیں بتاتا لیکن یہ سب کیا ہے، تم کب سے حکیم ہوگئے؟ ‘‘۔اُس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا ’’تمہیں تو پتا ہے چھ سال سے مجھے معدے کی پرابلم تھی، اتنے حکیموں کے چکر لگائے کہ معدہ تو ٹھیک نہیں ہوا البتہ مجھے حکمت آگئی، اب دوسال سے یہ دواخانہ کھولے بیٹھا ہوں‘‘۔ میں نے گھورا’’تو کیا اب تمہارا معدہ ٹھیک ہوگیا ہے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا’’ہاں! اصل میں معدہ اس لیے خراب تھا کیونکہ اچھی خوراک نہیں مل رہی تھی، یقین کرو جب سے دواخانہ کھولا ہے، روز بیس ہزار کی دیہاڑی لگا کر اٹھتا ہوں، معدہ بھی ٹھیک ہوگیا ہے اور معاشی حالات بھی‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا’’اگر تمہیں حکمت نہیں آتی تو لوگوں کو ٹھیک کیسے کرلیتے ہو؟‘‘۔ اس نے ایک اور قہقہہ لگایا’’ابے لوگ بڑے وہمی ہوتے ہیں، اول تو پانچ ہزار کی دوائی خریدتے ہی اس خوف سے ٹھیک ہوجاتے ہیں کہ اگر ٹھیک نہ ہوئے تو مزید دوائی خریدنا پڑے گی۔۔۔اور بالفرض ٹھیک نہ بھی ہوں تو میرے پاس اپنی دوائی کی بجائے مریض کو غلط ثابت کرنے کے ایک سو ایک طریقے ہیں، مریض لاکھ کوشش کرلے لیکن اس سے دوائی کھانے میں کوئی چھوٹی موٹی کوتاہی ہوہی جاتی ہے، یہی کوتاہی میرے کام آتی ہے اور مریض کو یقین ہوجاتا ہے کہ حکیم صاحب کا کوئی قصور نہیں، غلطی خود اس کی ہے۔۔۔!!!‘‘
 
مع ترمیم از
قاضی حارث
 
مطلب کہانی سے ایک بات ہی بات ثابت ہوتی ہے، کہ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان