صرف انقلاب ہی معاشرے سے برائیوں کو ختم کر سکتا ہے، آئیں ہم سب ملکر اپنے اندر خود احتسابی کا انقلاب برپا کریں۔
جو بات کہتا ہوں بڑی بے حجاب کہتا ہوں
اسی لیئے تو زندگی کو انقلاب کہتا ہوں
میں نے پڑھنا شروع کیا تو دل و دماغ کہہ رہے تھے ”اب وہ موتی بازار کہاں“۔ ہماری رہائش جولائی 1964ء تک جھنگی محلہ (گلی صوریاں) میں رہی ۔ وہاں سے گلیوں کے راستے موتی بازار پیدل کا راستہ تھا ۔ میں سکول کے زمانہ تک اپنی والدہ کے ساتھ موتی بازار جاتا رہا ۔ ہم گلیوں میں سے بھابڑہ بازار اُس جگہ نکلتے تھے جہاں داہنی طرف وہ عمارت تھی جو شیخ رشید اور اس کے چچاؤں کی رہائش تھی ۔ اس کا نام کسی ہندو کے نام پر تھا ۔ جب شیخ رشید مالک بنا تو اس نے لال حویلی رکھ دیا ۔ یہاں سے سامنے تھوڑا بائین طرف موتی بازار شروع ہوتا تھا ۔ جس میں زیادہ سامان خواتین کے خریدنے کا ہوتا تھا اور مناسب قیمت پر ملتا تھا ۔ گاہک اکثر خواتین ہی ہوتی ۔ دکاندار اکثر مرد ہوتے لیکن اُن کا انداز شریفانہ ہوتا تھا ۔ میں اس بازار میں لکڑی اور سنگِ مرمر کی دستکاری کا خریدار جوان بلکہ شادی شدہ ہونے کے بعد بھی رہا ۔ اس کیلئے میں نیا محلہ کی طرف سے داخل ہوتا تھا کیونکہ اس طرف سے دکان بہت قریب تھی اور مجھے خواتین میں سے گذرنا نہیں پڑتا تھا ۔ مگر ذہنیتیں بدلیں تو سب کچھ بدل گیا ۔ عوامی دور میں مِڈل مَین کی ایجاد نے ایک طرف عام آدمی کی خریداری کو ٹھیس پہنچایا تو دوسری طرف دستکار کو تباہ حال کر دیا ۔ پچھلی چار دہائیوں میں تو موتی بازار کا حُلیئہ ہی بدل گیا ۔ وہاں بھی سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کا قبضہ ہو گیا ۔ سب مکان دکانوں میں تبدیل ہو گئے اور دنیا کی ہر خرافات وہاں ہونے لگی ۔ ہم جیسے بزدل لوگوں نے وہاں جانا تین دہائیاں قبل ترک کر دیا
میں نے پڑھنا شروع کیا تو دل و دماغ کہہ رہے تھے ”اب وہ موتی بازار کہاں“۔ ہماری رہائش جولائی 1964ء تک جھنگی محلہ (گلی صوریاں) میں رہی ۔ وہاں سے گلیوں کے راستے موتی بازار پیدل کا راستہ تھا ۔ میں سکول کے زمانہ تک اپنی والدہ کے ساتھ موتی بازار جاتا رہا ۔ ہم گلیوں میں سے بھابڑہ بازار اُس جگہ نکلتے تھے جہاں داہنی طرف وہ عمارت تھی جو شیخ رشید اور اس کے چچاؤں کی رہائش تھی ۔ اس کا نام کسی ہندو کے نام پر تھا ۔ جب شیخ رشید مالک بنا تو اس نے لال حویلی رکھ دیا ۔ یہاں سے سامنے تھوڑا بائین طرف موتی بازار شروع ہوتا تھا ۔ جس میں زیادہ سامان خواتین کے خریدنے کا ہوتا تھا اور مناسب قیمت پر ملتا تھا ۔ گاہک اکثر خواتین ہی ہوتی ۔ دکاندار اکثر مرد ہوتے لیکن اُن کا انداز شریفانہ ہوتا تھا ۔ میں اس بازار میں لکڑی اور سنگِ مرمر کی دستکاری کا خریدار جوان بلکہ شادی شدہ ہونے کے بعد بھی رہا ۔ اس کیلئے میں نیا محلہ کی طرف سے داخل ہوتا تھا کیونکہ اس طرف سے دکان بہت قریب تھی اور مجھے خواتین میں سے گذرنا نہیں پڑتا تھا ۔ مگر ذہنیتیں بدلیں تو سب کچھ بدل گیا ۔ عوامی دور میں مِڈل مَین کی ایجاد نے ایک طرف عام آدمی کی خریداری کو ٹھیس پہنچایا تو دوسری طرف دستکار کو تباہ حال کر دیا ۔ پچھلی چار دہائیوں میں تو موتی بازار کا حُلیئہ ہی بدل گیا ۔ وہاں بھی سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کا قبضہ ہو گیا ۔ سب مکان دکانوں میں تبدیل ہو گئے اور دنیا کی ہر خرافات وہاں ہونے لگی ۔ ہم جیسے بزدل لوگوں نے وہاں جانا تین دہائیاں قبل ترک کر دیا
ReplyDelete