Friday 20 September 2013

مٹی کا بوجھ :::: منتخب تحریر

 
اس کا نام حاکم تھا اور وه تھا بھی حاکم .. لوگ اسے اندلس کے بادشاه کی حیثیت سے جانتے تھے . ایک دن اس نے سیر کے دوران ایک خوبصورت مقام دیکھا جو اسے بہت پسند آیا اور اس نے وہاں محل تعمیر کرنے کا سوچا .
یه جگه ایک بوڑھی عورت کی ملکیت تھی . بادشاه نے اسے معقول رقم زمین کی قیمت کے طور پر ادا کرنا چاهی لیکن عورت نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا . بادشاه نے دگنی تگنی قیمت بھی دینا چاهی مگر عورت نه مانی . آخر بادشاه نے زبردستی اس مقام پر محل کی تعمیر شروع کر دی . بڑھیا نے قاضی وقت کی عدالت میں بادشاه کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا . اسی اثنا میں بادشاه نے قاضی کو اپنے زیر تعمیر محل اور باغات دیکھنے کی دعوت دی . قاضی نے دعوت تو قبول کر لی اور دعوت پر بھی گئے لیکن اپنے ساتھ ایک گدھا اور کچھ خالی بورے بھی لے گئے .
بادشاه یه سب دیکھ کر حیران هوا اور قاضی سے پوچھنے لگا کۂ یه سب کیا هے ؟
قاضی بولا ، عالی جاه ! آپ کے باغات سے کچھ مٹی لے جانا چاهتا هوں . بادشاه حیران تو هوا لیکن بہرحال اس نے قاضی کی درخواست منظور کر لی . قاضی کے خدام نے جب بورے مٹی سے بھر دئے تو قاض...
ی نے بادشاه سے کہا ، عالی جاه ! میں یه بورے اٹھا کر گدھے پر رکھنا چاهتا هوں . میرا هاتھ بٹائیے گا .
حاکم حیران تو بہت هوا لیکن قاضی وقت کے احترام میں مجبورا بورے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن انھیں هلا تک نه سکا .
تب قاضی بول اٹها کۂ عالی جاه ! آج آپ اس باغ کی مٹی کا ایک بورا نہیں اٹھا سکتے تو کل روز قیامت جب وه منصف اعلی آپکو حکم دے گا کۂ بڑھیا کی زمین واپس کرو تب آپ ان باغات اور اس محل کا بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے ؟
حاکم بہت نادم هوا اور اسی وقت بڑھیا کو بلا کر وه باغات اور محل اسے سونپ دیے .
 
از محمود احمد خان

No comments:

Post a Comment