ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک میں بادشاہ نے اندرونی و بیرونی ناچاقیوں اور سازشوں سے نپٹنے اور اپنے دفاع اور ملک کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے وزراء کا اجلاس طلب کیا، جس میں کافی غور وفکر کے بعد یہ طے پایا کہ ایک ایسی ٹیم تیار کی جائے جو ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور تحریک پر نظر رکھے ، ملک کے اندر اور باہر کے حالات کو اچھی طرح سے معلومات میں لائے ۔ تاکہ کسی بھی بیرونی یا اندرونی خطرے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کی جاسکیں، یہ ٹیم ایسی مضبوط با اختیار اور کیل کانٹے سے لیس ہوگی کہ کوئی ان کی ہوا کو بھی نا چھو سکے۔
اگر ملک پر کوئی ایسی صورت حال آن پڑی تو یہ ٹیم ہر اؤل دستہ کے طور پر ملکی دفاع کے لیئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔ اس کے بعد ملک کے خزانے کسی گنتی کے بغیر اس ٹیم کو تیار کرنے کےلیئے کھول دیئے گیئے۔
کچھ ہی عرصہ میں ملک میں ہونے والے ہر کام کی اطلاع بادشاہ کو ملنے لگی، جس پر بادشاہ بہت خوش تھا۔ کوئی پتا بھی ہلتا تو اس کی رپورٹ بادشاہ تک انتہائی برق رفتاری سے پہنچا دی جاتی۔
پھر کچھ عرصہ بعد ، اس ملک پر بیرونی اور اندرونی طاغوتی طاقتوں نے پنجے گاڑ دیئے اور وہ وقت آن پہنچا جب اس طاقتور ٹیم کو اپنا رزق حق حلال کرنا تھا۔ بادشاہ اور عام لوگ بہت خوش تھے کہ جلد ہی ان کے یہ شاہین دشمنوں کا صفایا کردیں گے۔
لیکن یہ کیا ہوا، ہر روز صبح دوپر شام بادشاہ کو رقعہ پے رقعہ اور چٹھی پہ چٹھی ملتی کہ فلاں وقت میں اس جگہ یہ ہونے لگا ہے، فلاں وقت میں اتنا زیادہ نقصان ہونے کو ہے۔ اور اطلاع اتنی پکی ہوتی کہ ویسا ہی ہوتا جیسا اطلاع میں لکھا ہوتا تھا۔
اب بادشاہ اور عوام کی رات کے ساتھ ساتھ دن کی نیند بھی حرام ہو گئی، کیوں کہ جب بھی کوئی اطلاع ملتی لوگ مرنے سے پہلے ہی خوف سے مر جاتے۔ لیکن وہ ہر اول دستہ جسے دودھ گھی سے پال پوس کر اس وقت کے لیئے تیار کیا تھا وہ تو کہیں دور سے بیٹھ کر صرف چھٹیاں اور خبریں دیتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
-
-
-
-
-
-
اس جانی پہچانی کہانی کا کوئی انجام نہیں اس ملک میں ابھی بھی لوگ حیرت زدہ سر تاپا سوال بنے ہوئے ہیں کہ جب پہلے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام ہونے والا ہے تو کیا اس کی اطلاع دے دینا کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ابھی کل ہی ایک دوست نے مسکراتے ہوئے رات کے کھانے پر یہ سوال پوچھا کہ بتاو ٹی ٹی پی کا کیا مطلب ہے۔ ہر کوئی اپنی عقل و فہم کے مطابق جواب دے رہا تھا، لیکن بلا آخر اس دوست نے اپنی مسکراہٹ کا پول کھولا اور کہا کہ بھائیو!!!
تحریک طالبان پینٹاگان۔
بات میں وزن تھا سو کسی نے اس پر بحث کرنا مناسب نا سمجھا
اور تھوڑا سا آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ
پاکستان میں ہونے والے حملے
بم بلاسٹ
خودکش دھماکے
فائرنگ
دہشت گردی کی کاروائیاں
چاہئے کوئی زمہ داری قبول کرئے یا نا کرئے حقیقت عیاں ہے کہ کوئی مسلمان یہ کام نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچتا ہوں کہ کیا زندگی گزار رہے ہیں ہم بھی، کل شام کو ٹی وی پر پشاور بم بلاسٹ کی خبر چل رہی تھی، دل کے اندر ایک عجیب سی کھلبلاہٹ اور بے سکونی ساری رات رہی۔ "گو کہ ضمیر مردہ ہو چکے ہیں ــــــــــــــــــــ پھر بھی۔
ابھی جیسے ہی دن کا آغاز کیا اور ایک نظر اخبار پر پڑی تو پہلی خبر تھی وزیرستان میں ڈرون حملہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا ہے کسی شاعر نے کــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
کسی کو کیا تخیل دے سکے گا
جو فطری طور پر خود مر گیا ہو
عجب بات ہے، ایجنسیوں کے منع کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ حفاظتی انتظام نا ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے غیرت اخبار کی خبر اور اس کے اس جملے نے کئی سوال دماغ میں لا کھڑئے کیے ہیں۔ کہ آخر ایجنسیوں کو پتا تھا تو پھر کس نے حفاظتی انتظامات کرنے تھے۔
رانا صاحب ۔ آپ نے میرے دماغ میں کوئی خُفیہ ٹرانسمِٹر تو نہیں لگا دیا ؟ ہی ہی ہی
ReplyDeleteیہ بات میں کئی لوگوں کو بتا چکا ہوں مگر کوئی مانتا ہی نہیں
افتخار بھائی!!!! لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے ورنہ کب تک ہم لوگ دین کے نام پر بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ اور کب تک بھیڑ کی کھالوں میں چھپے بھیڑیئے ہمیں نوچتے رہیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کرپٹ ، بے ایمان، ناانصاف،جھوٹے، خود غرض اور بے ضمیر قوم ہیں، سو اپنی آخرت تو سب کو نظر آتی ہے، لٰہذا آسان حل نکال لیا ہے کفارہ ادا کرنے کا، جو بھی جہاد کی بانسری بجائے جو بھی دین کی باتوں میں لگا کر جہاں چاہے ہمیں لے جاسکتا ہے۔
Deleteحد ہے نا مرنے والے کوپتا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں بے موت مرا، نا مارنے والے کو پتا کہ جن کو مارنے جا رہا ہے انہوں نے کیا کیا ہے؟ اور پھر بھی ہم میں کچھ لوگ ہیں جو اس کو جہاد کہتے ہیں۔
تف ہے ایسے لوگوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔