انقلاب پسند : سعادت حسن منٹو
ایک منتخب تحریر
“جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے
ہیں تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب
ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں:۔
“مرمریں محلات کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی
دیکھتے ہو، مگر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کے
نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے
جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف
قدم بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔”
خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں
عوام کے اخلاق قوانین سے
مسخ کئے جاتے ہیں۔
لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔
ٹیکسوں کے
ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔
تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا
دیتی ہے۔
ہر طرف حالتِ نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب
ہے۔
مگر دعوٰی یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کررہے ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس کے
معنی یہ نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جارہی ہے۔
ہمارے
کانوں سے پگھلا ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے
حس بنائے جا رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں اور نہ محسوس
کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیا اسکے بال و پر
نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کیلیے مجبور نہیں کیا جارہا؟۔۔۔۔۔۔
کیا امراء کی
نظر فریب عمارتیں مزدورں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔۔۔۔۔۔
کیا
عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟
کیا مجلسی بدن کی
رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے؟
کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، ان
تھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟
بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟”
No comments:
Post a Comment