صرف انقلاب ہی معاشرے سے برائیوں کو ختم کر سکتا ہے، آئیں ہم سب ملکر اپنے اندر خود احتسابی کا انقلاب برپا کریں۔ جو بات کہتا ہوں بڑی بے حجاب کہتا ہوں اسی لیئے تو زندگی کو انقلاب کہتا ہوں
Monday, 31 October 2011
زندہ قوم اور مردہ قوم::::::فرق صاف ہے
شکریہ جناب: بشارت علی صاحب
ایک خود سوزی نے تیونس میں انقلاب بر پا کر دیا اور پاکستان میں خود سوزی نے ؟؟؟؟
محمد باﺅ عزیزی گریجویٹ تھا اور جنوری 2010 سے تیونس کی سڑکوں اور گلیوں میں نوکری تلا ش کرتا رہا۔مایوس ہوکر اس نے کام کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا اور آخر تنگ آ کر اس نے پیٹرول کی بھری ہوئی بوتل سے تیونس کی پا رلیمنٹ کے سامنے اپنے اوپر پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگالی۔ باﺅ عزیزی کی زندگی تلخیوں کی پوری کتاب تھی۔
باﺅ عزیزی نے جب اپنے آپ کو آگ لگائی تو اس وقت تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کی حکومت تھی جو پورے ملک پر قابض تھے ملک کا میڈیا مکمل طور پر حکومت کا پابند تھا ہر خبر حکومت کی مر ضی سے نشر ہوتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ باﺅ عزیزی کی خود سوزی کی تصاویر یا ویڈیو کسی چینل پر نشر نہیں ہوئی بلکہ تیونس کے ایک شہری کے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچی جس نے تیونس میں انقلاب کو جنم دیا جس کے زدمیں عرب کے دیگر ڈیکٹیٹرز بھی آگئے ۔
نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے راجہ رند خان نے بھی 24 اکتوبر کو یہی کیا ۔ وہ میٹرک پاس تھا۔ اس کی عمر بھی باﺅ عزیزی کی طرح 25 سال تھی وہ دو بچوں کا باپ اور ایک حاملہ بیوی کا خاوند تھا۔ راجہ نوکری کی تلا ش میں اسلام آباد آیااور اپنے علاقے کے ایم این اے سے ملا قات کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے پا رلیمنٹ لاجز میں گھسنے کی اجازت نہ دی تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوگیا اور اس کے دھرنے پر کسی نے دھیان نہ دیا ۔ چناچہ وہ خود سوزی کرنے پر مجبور ہوگیا اور راجہ رند نے 24 اکتوبر کو خود کوپارلیمنٹ کے سامنے آگ لگالی۔راجہ رند کی خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تو تھوڑی دیر تک پورا ملک سکتے کی حالت میں رہا لیکن پھر زندگی معمول پر آگئی اور لوگوں نے راجہ کی موت کو ایک نیوز پیکج یا ایک amazing نیوز کے طور پر لیا اور یوں میں غلط ثابت ہوگیا اور راجہ کی قربانی رائیگاں چلی گئی۔
باﺅ عزیزی کی موت تو تیونس میں انقلاب برپا کرگئی مگر افسوس راجہ رند کی خود سوزی پاکستان کو کچھ نہیں دے سکی اور پاکستان آج بھی راجہ رند کی طرح روز جی رہا ہے اور روز مررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب برپا کیوں نہ ہوسکا کیونکہ ہم لوگ صرف زندہ ہیں مگر ہم میں زندہ قوموں والی کوئی بات نہیں، اندر سے سب گل سڑ چکے ہیں، الزام لگاکے روز رات کو رضائی اوڑہ کے سونا اور دوسرے دن اٹھ کے دوبارہ حکومت کو برا بھلا کہناہمارا معمول بن گیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور صرف زرداری و رحمان ملک کو برا بھلا کہ کر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں ۔
یہ تو ایک معمولی راجہ رند تھا ایک وہ حبیب جالب تھے جو انقلابی نظمیں لکھتے رہے اور انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے مگر اس قوم پر کو ئی فرق نہ پڑا۔ پاکستان میں پچھلے برس 1600 افراد نے ریکا رڈخود کشی کی مگر کیا ہوا؟ راجہ رند خان کی موت نے اس کی بیوی کو پولیس میں نوکری دلوادی مگر کیا راجہ رند خان کی خود سوزی نے اس ملک کو کچھ دیا۔
Friday, 28 October 2011
بچے
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے
ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے
ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچے
Wednesday, 26 October 2011
:::::Go America Go America::::::
~~Letter to Americans~~
Our country has suffered/is suffering from dictatorship by its elected/unelected leaders. They are involved in murder of thousands of innocent civilians in the tribal regions of Pakistan and Karachi. They are corrupt and will not let an ordinary Pakistani prosper. Human Rights violations, chaos, lawlessness, and all that comes with it is pretty much thriving in our country. Drug Mafia, Land mafia this that and jack mafia, we have them all. Justice takes forever, in fact, may take for never. We have weapons that can be misused against our own people by our own institutions at any time. Military dictatorship is still a threat in Pakistan. The rich are getting richer and the poor are getting poorer by the day. The educated migrate from here due to lack of opportunities. We have disputes with our neighbors and have had many wars. Ethnic and religious tension is in the air. I heard some voices talk about anarchy. People don’t like their president who is considered a gangster and murderer of his wife. I don’t like him either even though I’m not too sure about who killed BB. Our administration does not have full control over its territory. There are some separatist movements in Pakistan and some just fight others because they are paid to do so. Suicide bombings are common while our law enforcement agencies are immoral. Women, children, minorities and other groups of people are deprived of their basic rights on a daily basis. Feudalism, slavery, and honor killings are still in vogue.
Please do not consider the above as an invitation to invade Pakistan and/or fight for our rights. Stay out! Let us Pakistanis fix our problems even if it takes long. You haven’t fixed any country with your military intervention so far, and I don’t think you can fix ours. What you did in Iraq, Afghanistan, Vietnam and Libya has claimed more lives than the oppressor you tried to remove. Has put the people at an acute economic disadvantage, destroyed the very fabric of society, social structure, and governance. And you didn’t even get lucky to win their resources after several attempts. You do not have the automatic responsibility to fix Pakistan. You have no business here!
Tuesday, 25 October 2011
..:::::تمہاری یاد کے موسم:::::..
تمہاری یاد کے موسم بڑی شدت کے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں برستی ہیں
تمہیں دیکھیں ترستی ہیں
کبھی دل ڈوب جاتا ہے
دھڑکنا بھول جاتا ہے
یہ ساری دھوپ سورج کی مرے سر پر اترتی ہے
مرے اندر ٹھہر جاتی ہے
دل کو چیرتی ٹھنڈک
کبھی یہ پیرھن میرے جھلس کر راکھ ہوتے ھیں
کبھی آنکھوں کے سارے خواب جل کر خاک ہوتے ہیں
کبھی میں برف ہوتی ہوں
میرے ہاتھوں کی نیلاہٹ مجھے محسوس ہوتی ہے
پگھلتی ہوں توآنکھوں سے بھی ساون ٹوٹ پڑتا ہے
بکھرتی ہوں تو اک طوفان ہر سو پھیل جاتا ہے
سمٹتی ہوں تو اک کتبہ نگاہوں میں ٹہرتا جاتا ہے
تمہارے نام کا کتبہ
تمہاری قبر کا کتبہ
کبھی آنکھیں برستی ہیں
تمہیں دیکھیں ترستی ہیں
کبھی دل ڈوب جاتا ہے
دھڑکنا بھول جاتا ہے
یہ ساری دھوپ سورج کی مرے سر پر اترتی ہے
مرے اندر ٹھہر جاتی ہے
دل کو چیرتی ٹھنڈک
کبھی یہ پیرھن میرے جھلس کر راکھ ہوتے ھیں
کبھی آنکھوں کے سارے خواب جل کر خاک ہوتے ہیں
کبھی میں برف ہوتی ہوں
میرے ہاتھوں کی نیلاہٹ مجھے محسوس ہوتی ہے
پگھلتی ہوں توآنکھوں سے بھی ساون ٹوٹ پڑتا ہے
بکھرتی ہوں تو اک طوفان ہر سو پھیل جاتا ہے
سمٹتی ہوں تو اک کتبہ نگاہوں میں ٹہرتا جاتا ہے
تمہارے نام کا کتبہ
تمہاری قبر کا کتبہ
Thursday, 13 October 2011
چلو چھوڑو!
چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!
چلو چھوڑو!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے
چلو چھوڑو!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!
چلو چھوڑو!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے
چلو چھوڑو!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا
Tuesday, 11 October 2011
Monday, 3 October 2011
!!!میرے وطن کے لوگو!!!
شکریہ بشارت علی بھائی
میرے وطن کے اداس لوگو!
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو،
کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو،
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
کہ ہم اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو اک خدا ہے
میرے وطن کے اداس لوگو!
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہےاک طاقت تمہارے سر پر
کرے گی سایہ جو ان سروں پر
قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
اگر گرئے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو!
اٹھو چلو اب وطن سنبھالو!!!
میرے وطن کے اداس لوگو!
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو،
کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو،
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
کہ ہم اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو اک خدا ہے
میرے وطن کے اداس لوگو!
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہےاک طاقت تمہارے سر پر
کرے گی سایہ جو ان سروں پر
قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
اگر گرئے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو!
اٹھو چلو اب وطن سنبھالو!!!
حوا کی بیٹی، تڑپ رہی ہے
آج کا دن بھی ہر دن کی طرح بہت خوبصورت تھا، امنگوں سے بھرا، پیار کی دھوپ لیئے۔ وہ صبح سویرے کالج کے لیئے تیار ہوئی باپ کی شفقت اور ماں کا پیار سمیٹے خوشی سے کالج روانہ ہوئی۔ اس کے بہت سے خواب تھے بہت سارے جذبات، جب سے اس نے میٹرک میں نمایاں نمبر لیئے تھے تب سے نا صرف گھر بھر میں معتبر ہوگئی تھی بلکہ سہلیوں سکھیوں میں بھی سب اس کو پسند کرنے لگے تھے۔
اس کا خواب تھا کہ وہ بہت سارا پڑھے گی، اور اپنے والدین کے لیئے فخر بنے گی۔ بھائی بہنوں کے لیئے تمغہ امتیاز بنے گی۔ ساری امنگیں اور جذبات اپنی جگہ لیکن اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، باپ بہت محنت سے اور سفید پوشی کا بھرم لیئے اپنے بچوں کے تگ و دو میں مصروف تھا۔
بہت خوشی سے وہ اپنے کالج میں پہنچی اور کمرہ جماعت میں پورے انہماک سے پڑھائی میں مصروف ہو گئی اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا، جب اچانک اس کی ایک ٹیچر نے اسے آکر بلایا اور کہا کہ وہ اس کے ساتھ آئے، وہ کچھ سمجھی نا سمجھی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے پیچے چل پڑی، باہر جا کر اس کی ٹیچر نے آہستہ سے مگر پریشان لہجے میں اسے کہا کہ تمہاری والدہ کی طبعیت بہت خراب ہو گئی ہے اور تمہیں جلدی سے گھر جانا چاہیئے، یہ خبر ایک بجلی کی طرح اس کے دل و دماغ پر گری اور اسے کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا کرئے بہت عجلت میں اس نے اپنی کتابیں اٹھایئں اور باہر کی طرف دوڑی، اس کی وہ ٹیچر اس کے ساتھ ساتھ تھی، پھر داخلی گیٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر اپنے تایا زاد پر پڑی اور ناگواری کا احساس فوری طور پر اس کے چہرے پر عیاں تھا ، کہنے کو تو وہ اس کا رشتہ دار بھائی تھا لیکن بے انتہا دولت، اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ لوگ انہیں خاطر میں نا لاتے تھے اور ہمیشہ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ لیکن اسوقت صورت حال کچھ عجیب تھی وہ اپنے چہرے پر پریشانی طاری کئے اس کی طرف لپکا، اور بولا کہ اس کی والدہ کی طبعیت بہت خراب ہے لہذا وہ اسے لینے آیا ہے، سو وہ جلدی سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے، وہ شش وپنج کے عالم میں اس کی گاڑی تک آئی لیکن گاڑی میں سوار تین افراد کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی، وہ بہت تیزی سے نیچے اترے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکتی انہوں نے اسے آن دبوچا اور گاڑی میں ڈال دیا۔
بے بسی اور گھبراہٹ میں اس نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنیوالی ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ تو کب کی اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔ وہ چیخی لیکن اس کی آواز سننے کے لیئے وہاں کوئی نہیں تھا، اور گاڑی فراٹے بھرتی کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہی تھی، اس دھان پان سی میٹرک کی لڑکی نے بہت آہ و بکا کی لیکن کہیں اس کی آواز نا سنی گئی،
اچانک گاڑی ایک ویران جگہ پر رکی، اور انہوں نے کھینچ کر اسے نیچے اتارا،
اس کے بعد جو ہوا اسے نا تو بیان کیا جا سکتا ہے اور نا کسی بھی غیرت مند انسان کے لیئے ایسا سوچنا ہی ممکن ہے۔
ان درندوں نے اپنی درندگی اور حرام کاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے پامال کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس
یقیناً عرش بھی کانپا ہوگا اور ہوائیں روئی ہوں گی، ہر وہ شے جو انسان نہیں وہ انسان کی بربریت اور درندگی پر نوح خواں ہو گی۔
تیسرے دن اس کو مقامی ہسپتال میں جب ہوش آیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا۔
وزیر اعلٰی پنجاب نے از خود نوٹس لے لیا،
بے غیرتوں کا ٹولہ پولیس پہلے تو رپورٹ درج نہیں کررہی تھی اور جب مرکزی ملزم فرار ہو گیا تو ایکشن میں آ گئ،
آج صبح کی رپورٹ کے مرکزی مجرم کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: اب آگے کیا ہو گا?
کیا ایک کیس چلے گا اور جب تک اس کا فیصلہ ہو گا تب تک یہ افسوس ناک دل دہلا دینے والا واقعہ ماضی کی راکھ بن چکا ہوگا?
یا پھر اس میں واسطہ و بل واسطہ ملوث افراد کو کھلے چوک میں گولی مار کر لٹکا دینا چائیے تا کہ عبرت ہو۔
آخر کوئی تو ایسی سزا ہو جو عبرت ناک ہو اور دوسروں کے لیئے سبق ہو۔
اس کا خواب تھا کہ وہ بہت سارا پڑھے گی، اور اپنے والدین کے لیئے فخر بنے گی۔ بھائی بہنوں کے لیئے تمغہ امتیاز بنے گی۔ ساری امنگیں اور جذبات اپنی جگہ لیکن اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، باپ بہت محنت سے اور سفید پوشی کا بھرم لیئے اپنے بچوں کے تگ و دو میں مصروف تھا۔
بہت خوشی سے وہ اپنے کالج میں پہنچی اور کمرہ جماعت میں پورے انہماک سے پڑھائی میں مصروف ہو گئی اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا، جب اچانک اس کی ایک ٹیچر نے اسے آکر بلایا اور کہا کہ وہ اس کے ساتھ آئے، وہ کچھ سمجھی نا سمجھی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے پیچے چل پڑی، باہر جا کر اس کی ٹیچر نے آہستہ سے مگر پریشان لہجے میں اسے کہا کہ تمہاری والدہ کی طبعیت بہت خراب ہو گئی ہے اور تمہیں جلدی سے گھر جانا چاہیئے، یہ خبر ایک بجلی کی طرح اس کے دل و دماغ پر گری اور اسے کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا کرئے بہت عجلت میں اس نے اپنی کتابیں اٹھایئں اور باہر کی طرف دوڑی، اس کی وہ ٹیچر اس کے ساتھ ساتھ تھی، پھر داخلی گیٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر اپنے تایا زاد پر پڑی اور ناگواری کا احساس فوری طور پر اس کے چہرے پر عیاں تھا ، کہنے کو تو وہ اس کا رشتہ دار بھائی تھا لیکن بے انتہا دولت، اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ لوگ انہیں خاطر میں نا لاتے تھے اور ہمیشہ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ لیکن اسوقت صورت حال کچھ عجیب تھی وہ اپنے چہرے پر پریشانی طاری کئے اس کی طرف لپکا، اور بولا کہ اس کی والدہ کی طبعیت بہت خراب ہے لہذا وہ اسے لینے آیا ہے، سو وہ جلدی سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے، وہ شش وپنج کے عالم میں اس کی گاڑی تک آئی لیکن گاڑی میں سوار تین افراد کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی، وہ بہت تیزی سے نیچے اترے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکتی انہوں نے اسے آن دبوچا اور گاڑی میں ڈال دیا۔
بے بسی اور گھبراہٹ میں اس نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنیوالی ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ تو کب کی اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔ وہ چیخی لیکن اس کی آواز سننے کے لیئے وہاں کوئی نہیں تھا، اور گاڑی فراٹے بھرتی کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہی تھی، اس دھان پان سی میٹرک کی لڑکی نے بہت آہ و بکا کی لیکن کہیں اس کی آواز نا سنی گئی،
اچانک گاڑی ایک ویران جگہ پر رکی، اور انہوں نے کھینچ کر اسے نیچے اتارا،
اس کے بعد جو ہوا اسے نا تو بیان کیا جا سکتا ہے اور نا کسی بھی غیرت مند انسان کے لیئے ایسا سوچنا ہی ممکن ہے۔
ان درندوں نے اپنی درندگی اور حرام کاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے پامال کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس
یقیناً عرش بھی کانپا ہوگا اور ہوائیں روئی ہوں گی، ہر وہ شے جو انسان نہیں وہ انسان کی بربریت اور درندگی پر نوح خواں ہو گی۔
تیسرے دن اس کو مقامی ہسپتال میں جب ہوش آیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا۔
وزیر اعلٰی پنجاب نے از خود نوٹس لے لیا،
بے غیرتوں کا ٹولہ پولیس پہلے تو رپورٹ درج نہیں کررہی تھی اور جب مرکزی ملزم فرار ہو گیا تو ایکشن میں آ گئ،
آج صبح کی رپورٹ کے مرکزی مجرم کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: اب آگے کیا ہو گا?
کیا ایک کیس چلے گا اور جب تک اس کا فیصلہ ہو گا تب تک یہ افسوس ناک دل دہلا دینے والا واقعہ ماضی کی راکھ بن چکا ہوگا?
یا پھر اس میں واسطہ و بل واسطہ ملوث افراد کو کھلے چوک میں گولی مار کر لٹکا دینا چائیے تا کہ عبرت ہو۔
آخر کوئی تو ایسی سزا ہو جو عبرت ناک ہو اور دوسروں کے لیئے سبق ہو۔
Subscribe to:
Posts (Atom)