Monday 3 October 2011

حوا کی بیٹی، تڑپ رہی ہے

آج کا دن بھی ہر دن کی طرح بہت خوبصورت تھا، امنگوں سے بھرا، پیار کی دھوپ لیئے۔ وہ صبح سویرے کالج کے لیئے تیار ہوئی باپ کی شفقت اور ماں کا پیار سمیٹے خوشی سے کالج روانہ ہوئی۔ اس کے بہت سے خواب تھے بہت سارے جذبات، جب سے اس نے میٹرک میں نمایاں نمبر لیئے تھے تب سے نا صرف گھر بھر میں معتبر ہوگئی تھی بلکہ سہلیوں سکھیوں میں بھی سب اس کو پسند کرنے لگے تھے۔

اس کا خواب تھا کہ وہ بہت سارا پڑھے گی، اور اپنے والدین کے لیئے فخر بنے گی۔ بھائی بہنوں کے لیئے تمغہ امتیاز بنے گی۔ ساری امنگیں اور جذبات اپنی جگہ لیکن اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، باپ بہت محنت سے اور سفید پوشی کا بھرم لیئے اپنے بچوں کے تگ و دو میں مصروف تھا۔

بہت خوشی سے وہ اپنے کالج میں پہنچی اور کمرہ جماعت میں پورے انہماک سے پڑھائی میں مصروف ہو گئی اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا، جب اچانک اس کی ایک ٹیچر نے اسے آکر بلایا اور کہا کہ وہ اس کے ساتھ آئے، وہ کچھ سمجھی نا سمجھی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے پیچے چل پڑی، باہر جا کر اس کی ٹیچر نے آہستہ سے مگر پریشان لہجے میں اسے کہا کہ تمہاری والدہ کی طبعیت بہت خراب ہو گئی ہے اور تمہیں جلدی سے گھر جانا چاہیئے، یہ خبر ایک بجلی کی طرح اس کے دل و دماغ پر گری اور اسے کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا کرئے بہت عجلت میں اس نے اپنی کتابیں اٹھایئں اور باہر کی طرف دوڑی، اس کی وہ ٹیچر اس کے ساتھ ساتھ تھی، پھر داخلی گیٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر اپنے تایا زاد پر پڑی اور ناگواری کا احساس فوری طور پر اس کے چہرے پر عیاں تھا ، کہنے کو تو وہ اس کا رشتہ دار بھائی تھا لیکن بے انتہا دولت، اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ لوگ انہیں خاطر میں نا لاتے تھے اور ہمیشہ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ لیکن اسوقت صورت حال کچھ عجیب تھی وہ اپنے چہرے پر پریشانی طاری کئے اس کی طرف لپکا، اور بولا کہ اس کی والدہ کی طبعیت بہت خراب ہے لہذا وہ اسے لینے آیا ہے، سو وہ جلدی سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے، وہ شش وپنج کے عالم میں اس کی گاڑی تک آئی لیکن گاڑی میں سوار تین افراد کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی، وہ بہت تیزی سے نیچے اترے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکتی انہوں نے اسے آن دبوچا اور گاڑی میں ڈال دیا۔

بے بسی اور گھبراہٹ میں اس نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنیوالی ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ تو کب کی اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔ وہ چیخی لیکن اس کی آواز سننے کے لیئے وہاں کوئی نہیں تھا، اور گاڑی فراٹے بھرتی کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہی تھی، اس دھان پان سی میٹرک کی لڑکی نے بہت آہ و بکا کی لیکن کہیں اس کی آواز نا سنی گئی،

اچانک گاڑی ایک ویران جگہ پر رکی، اور انہوں نے کھینچ کر اسے نیچے اتارا،

اس کے بعد جو ہوا اسے نا تو بیان کیا جا سکتا ہے اور نا کسی بھی غیرت مند انسان کے لیئے ایسا سوچنا ہی ممکن ہے۔

ان درندوں نے اپنی درندگی اور حرام کاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے پامال کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسوس صد افسوس

یقیناً عرش بھی کانپا ہوگا اور ہوائیں روئی ہوں گی، ہر وہ شے جو انسان نہیں وہ انسان کی بربریت اور درندگی پر نوح خواں ہو گی۔

تیسرے دن اس کو مقامی ہسپتال میں جب ہوش آیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا۔

وزیر اعلٰی پنجاب نے از خود نوٹس لے لیا،
بے غیرتوں کا ٹولہ پولیس پہلے تو رپورٹ درج نہیں کررہی تھی اور جب مرکزی ملزم فرار ہو گیا تو ایکشن میں آ گئ،
آج صبح کی رپورٹ کے مرکزی مجرم کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔

میرا سوال یہ ہے کہ: اب آگے کیا ہو گا?
کیا ایک کیس چلے گا اور جب تک اس کا فیصلہ ہو گا تب تک یہ افسوس ناک دل دہلا دینے والا واقعہ ماضی کی راکھ بن چکا ہوگا?
یا پھر اس میں واسطہ و بل واسطہ ملوث افراد کو کھلے چوک میں گولی مار کر لٹکا دینا چائیے تا کہ عبرت ہو۔


آخر کوئی تو ایسی سزا ہو جو عبرت ناک ہو اور دوسروں کے لیئے سبق ہو۔

No comments:

Post a Comment