صرف انقلاب ہی معاشرے سے برائیوں کو ختم کر سکتا ہے، آئیں ہم سب ملکر اپنے اندر خود احتسابی کا انقلاب برپا کریں۔ جو بات کہتا ہوں بڑی بے حجاب کہتا ہوں اسی لیئے تو زندگی کو انقلاب کہتا ہوں
Thursday, 22 December 2011
Wednesday, 21 December 2011
ہم اور ہمارے ٹھگ
پرانے وقتوں میں لوگوں کوبیوقوف بناکرمال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہواکرتاتھااس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے۔انہی ٹھگوں کاایک واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی بکراخریدکراپنے گھرجارہاتھاکہ چارٹھگوں نے اسے دیکھ لیااورٹھگنے کاپروگرام بنایا۔چاروں ٹھگ اس کے راستے پرکچھ فاصلے سے کھڑے ہوگئے۔وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھاتوپہلاٹھگ اس سے آکرملااوربولا’’بھائی یہ کتاکہاں لےئے جارہے ہو؟‘‘دیہاتی نے اسیگھورکردیکھااوربولا’’بیوقوف تجھے نظرنہیںآرہا کہ یہ بکراہے کتانہیں‘‘۔دیہاتی کچھ اورآگے بڑھاتودوسراٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا’’یاریہ کتاتوبڑاشاندارہے کتنے کاخریدا؟‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتاکہاسے لیا؟‘‘اب دیہاتی تشویش میں مبتلاہوگیاکہ کہیں واقعی کتاتونہیں۔اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔بالآخرچوتھے ٹھگ سے ٹکراؤہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا’’جناب کیااس کتے کوگھاس کھلاؤگے؟‘‘اب تودیہاتی کے اوسان خطاہوگئے اوراس کاشک یقین میں بدل گیاکہ یہ واقعی کتاہے۔وہ اس بکرے کوچھوڑکربھاگ کھڑاہوایوں ان چاروں ٹھگوں نے بکراٹھگ لیا۔
دور حاضر میں ٹھگوں نے اپنا طریقہ کار ، رہن سہن، حلیہ سب کچھ بدل لیا ہے، کچھ پڑھ لکھ کر سیاہ ست میں آ گئے ، کچھ بیورو کریٹس بن گئے کچھ عسکری شعبہ میں شامل ہو کر نام کما رہے ہیں، کچھ نے ڈاکٹری کا لیبل لگا لیا ہے کچھ نے کاروبار کا، غرض یہ کہ پہلے یہ لوگ پہچانے جاتے تھے لیکن ابھی ان کو پہچاننے کے لیئے ایک مخصوص نظر کی بلکہ نظریہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا کریں ہم لوگ محور سے ہٹنے اور گمراہی پر چلنے کی وجہ سے اس بصارت سے محروم ہو چکے ہیں، ہم نے ذاتی و معاشرتی برائیوں کو اپنی مجبوری کا لبادہ اوڑھا رکھا ہے اور اس کی دلیلیں کچھ یوں دیتے ہیں:
رشوت: کیا کریں مجبوری ہے، میٹر لگوانا ہے، بچے کا داخلہ کرنا ہے، نوکری لینی ہے، کام جلدی کرانا ہے، باہر جانا ہے۔
چور بازاری: کیا کریں مجبوری ہے، ٹماٹر 80روپے کلو نا لیں توکیا کریں، گوشت اصل قیمت سے دوگنا میں نا لیں تو کیا کریں۔
زخیرہ اندوزی: کیا کریں مجبوری ہے، نہیں کریں گے تو زیادہ منافع کیسے ہو گا اور ویسے بھی سبھی کرتے ہیں، اگلے سال پتہ نہیں اتنی کمائی ہو نا ہو۔
جھوٹ: جس جھوٹ سے کوئی کام بنتا ہو وہ جھوٹ تھوری ہوتا ہے، اب دیکھو نا جھوٹ بول کر جو اثاثہ جات لکھوائے ہیں اگر سچ بولا ہوتا تو اولاد کے مستقبل کا کیا ہوتا۔
سیاہ ست: کیا کریں مجبوری ہے، کوئی نا کوئی تو حکومت میں آنا ہی ہے، اب میں یا تم تھوڑی اسمبلی چلایئں گے۔ ویسے بھی یہ خاندانی (چور) لوگ ہیں، کل کوئی کام ہوا تو آرام سے کرا دیں گے۔
ووٹ: کیا کریں مجبوری ہے، ڈالیں یا نا ڈالیں حکومت تو بن ہی جانی ہے، سو جو دروازے پر مانگنے آیا ہے اسی کو دے دیتے ہیں، اتنا ٹائم کس کے پاس کے جا کر دیکھیں بندے کا ماضی کیا ہے۔
سیاستدان: کیا کریں مجبوری ہے، سب چور ہیں، لٹیرے ہیں، غاصب ہیں، قاتل ہیں، ظالم ہیں لیکن اور کوئی آپشن جو نہیں۔
فوج: ہمیشہ سے زندہ باد ہے اور رہے گی، کوئی مجبوری تو نہیں لیکن ڈر ضرور ہے کہ اگر فوج کی چھیڑا یا احتساب کیا تو ناراض نا ہو جایئں اس لیئے جو کر رہے ہیں کرنے دو، آخر کو سرحدوں کی حفاظت تو کر ہی رہے ہیں (کونسی سرحدوں کی یہ آج تک ہمیں خود بھی نہیں پتہ)
معاشرتی برائیاں: کیا کریں مجبوری ہے، ساری دنیا کا دستور ہے اب ہم نے کر لیا تو کیا ہوا سبھی کرتے ہیں۔ مثلا سگنل کی خلاف ورزی، کوڑا کرکٹ گھر سے نکال کر گلی یا سڑک پر پھینکنا، بجلی چوری کرنا، گیس چوری کرنا، پانی چوری کرنا، ٹیکس چوری کرنا۔ کوئی مرتا ہے تو مرنے دو کون اس جھنجٹ میں پڑے گورنمنٹ کا کام ہے۔
سو ٹھگ بھی حیران ہیں کہ وہ ہمیں لوٹتے جاتے ہیں، پر ہم پھر بھی زندہ ہیں ٹھیک ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم دو چار دن بین کرتے ہیں روتے ہیں اور پھر اسی روش پر چل پڑتے ہیں۔ یعنی کہ ہم بھی ٹھگ ہیں_________________________
اوپر والے ہمیں ٹھگتے ہیں اور ہم!!!!!!
اپنی زمین کو
اپنے ضمیر کو
اپنی اخلاقیات کو
اپنی مذہبی معاشرتی اقدار کو
اپنے آپ کو
ٹھگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کر رہا ہے اوپر والا کر رہا ہے!!!!!
Monday, 19 December 2011
+_+_ نا بھلا پاو گے _+_+
انکہی بات کو سمجھو گے تو یاد آوں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آوں گا
اس جدایی میں تم اندر سے بکھر جاو گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آوں گا
اسی انداز میںہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آوں گا
میری خوشبو تمہیںآے گی گلابوں کی طرح
اگر خود سے نا بولوگے تو یاد آوں گا
آج تم محفل یاراں پے ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھروگے تو یاد آوں گا
سرد راتوں کے مہکتے ہوےسناٹوں میں
جب کسی پھول کو چوموگے تو یاد آوں گا
اب تو یہ اشک میں ہونٹوں سے چر لیتا ہوں
ہاتھ سے خود انہیں پونچھوگے تو یاد آوں گا
حادثے آییں گے جیون میں تو ہوگے نڈھال
کسی دیوارکو تھامو گے تو یاد آوں گا
شال پہناے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگوگے تو یاد آوں گا
اس میں شامل مرےبخت کی تاریکی بھی
تم سیہ رنگ جوپہنوگے تو یاد آوں گا
+_+_کوئی شام گھر بھی رہا کرو_+_+
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو
__بنے تو سہی__
کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی
پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے
کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی
کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی
وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی
جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں
برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی
کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے
کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی
دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کیلیے
کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی
جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی
.::::میری زندگی تو فراق ہے::::.
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی
تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
Thursday, 15 December 2011
باپ کی شان
صیحح بخاری شریف: کتاب الفرائض: حدیث: 6768 صفحہ نمبر 565
1- باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرئے۔
2- باپ کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نا سننی پڑیں۔
3- باپ کے سامنے اونچا نا بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گا۔
4- باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو تا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دنیا میں بلند کرے۔
5- باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہو سکو۔
6- باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نا گریں ورنہ، اللہ تعالٰی تمہیں جنت سے گرا دیں گے۔
Monday, 12 December 2011
پرانا زخم پھر تازہ ہوا
درد پھر جاگا، پرانا زخم پھر تازہ ہوا
فصلِ گُل کتنے قریب آئی ہے، اندازہ ہوا
صبح یوں نکلی، سنور کے جس طرح کوئی دُلہن
شبنم آویزہ ہوئی، رنگِ شفق غازہ ہوا
ہاتھ میرے بُھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مُجھ پر جب سے اُس کے گھر کا دروازہ ہوا
ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اُس کو رُخصت کرکے گھر لَوٹے تو اندازہ ہوا
Sunday, 11 December 2011
کوئی کندھا نہیں دیتا
کوئی بھی رستہ نہیں دیتا
زمیں واقف نہیں بنتی
فلک سایہ نہیں دیتا
خوشی اور دکھ کے موسم
سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں
کسی کو اپنے حصے کا
کوئی لمحہ نہیں دیتا
اداسی جس کے دل میں ہو
اسی کی نیند اڑتی ہے
کسی کو اپنی آنکھوں سے
کوئی سپنتا نہیں دیتا
اٹھاناخود ہی پڑتا ہے
تھکا ٹوٹا بدن اپنا
کہ جب تک سانس چلتی ہے
کوئی کندھا نہیں دیتا
Saturday, 10 December 2011
...::::Beauty of Math::::...
Absolutely amazing!
Beauty of Math!
1 x 8 + 1 = 9
12 x 8 + 2 = 98
123 x 8 + 3 = 987
1234 x 8 + 4 = 9876
12345 x 8 + 5 = 98765
123456 x 8 + 6 = 987654
1234567 x 8 + 7 = 9876543
12345678 x 8 + 8 = 98765432
123456789 x 8 + 9 = 987654321
1 x 9 + 2 = 11
12 x 9 + 3 = 111
123 x 9 + 4 = 1111
1234 x 9 + 5 = 11111
12345 x 9 + 6 = 111111
123456 x 9 + 7 = 1111111
1234567 x 9 + 8 = 11111111
12345678 x 9 + 9 = 111111111
123456789 x 9 +10= 1111111111
9 x 9 + 7 = 88
98 x 9 + 6 = 888
987 x 9 + 5 = 8888
9876 x 9 + 4 = 88888
98765 x 9 + 3 = 888888
987654 x 9 + 2 = 8888888
9876543 x 9 + 1 = 88888888
98765432 x 9 + 0 = 888888888
Brilliant, isn't it?
And look at this symmetry:
1 x 1 = 1
11 x 11 = 121
111 x 111 = 12321
1111 x 1111 = 1234321
11111 x 11111 = 123454321
111111 x 111111 = 12345654321
1111111 x 1111111 = 1234567654321
11111111 x 11111111 = 123456787654321
111111111 x 111111111=12345678987654321
Now, take a look at this...
From a strictly mathematical viewpoint,
What Equals to 100%?
What does it mean to give MORE than 100%?
Ever wonder about those people who say they are giving more than 100%...
We have all been in situations where someone wants you to
GIVE OVER 100%.
How about ACHIEVING 101%?
What equals to 100% in life?
Here's a little mathematical formula that might help answering these questions:
If:
A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T U V W X Y Z
Is represented as:
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26
It is
H-A-R-D-W-O-R- K
8+1+18+4+2 3+15+18+11 = 98%
And
K-N-O-W-L-E-D-G-E
11+14+15+23+12+5+4+7+5 = 96%
But
A-T-T-I-T-U-D-E
1+20+20+9+20+21+4+5 = 100%
AND
L-O-V-E-O-F-G-O-D
12+15+22+5+15+6+7+15+4 = 101%
Therefore, one can conclude with mathematical certainty that:
While Hard Work and Knowledge will get you close and Attitude will get you there...
It's the Love of God that will put you over the top!!!
Tuesday, 6 December 2011
چالیس ہزار روپے میں پاکستانی گھر سولر انرجی پر منتقل ہو سکتا ہے
لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او پرویز لودھی نے کہا کہ شمسی توانائی کا استعمال گزشتہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے بارے میں عام لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور وہ کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سولر پینلز سورج سے بہت سی روشنی کو لے کرقلیل مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اس کا استعمال احتیا ط سے کرنا چاہیے اور روشنی کے لیے ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے چاہیں۔
اسد محمود نے کہا کہ صرف ایل ای ڈی بلب ہی نہیں بلکہ گھر کی دوسری چیزیں بھی سولر انرجی سے مطابقت رکھنے والی ہونی چاہیں ۔ سولر انرجی ڈی سی کرنٹ پیدا کرتی ہے اس لیے اس پر وہی مشینیں چلانی چاہییں جو ڈی سی کرنٹ پر چلیں اور سولر سسٹم کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے ساتھ منسلک دوسرے آلات بھی انرجی ایفیشنٹ ہونے چاہییں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سولر سسٹم کی موجودہ لاگت کے پیش نظر پریکٹیکل یہ ہے کہ گھر کا پورا سسٹم سولر پر نہ کریں بلکہ صرف اسے بیک اپ کے طور پر استعمال کریں۔بالکل اسی طرح جیسے بجلی چلے جانے کی صورت میں جنریٹر کو بیک اپ کے طور پر رکھا جاتاہے ۔
شاہد صدیقی صاحب نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں لوگ سولر سسٹم لگانے کے لیے موجود ہیں لیکن یہ سولر پینل الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص انسٹال کر سکتا ہے ۔
متبادل توانائی کے بورڈ کے چئیر مین عارف علاؤالدین نے جنریٹر اور سولر انرجی کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سولر سسٹم زیادہ سستا پڑے گا لیکن اس وقت سسٹم میں استعمال ہونےوالی بیٹری مہنگی ہے ۔ سولر پینل 21سے 25 سینٹ فی گھنٹہ کی بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔عارف علاؤالدین نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر انرجی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے حکومت بجلی خرید سکتی ہے اور ایک کلو واٹس یااس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات درا ٓمد کرنے کے لیے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی ہے ۔ا نہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سولر پینل کے ساتھ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ کے پاس زائد بجلی ہے اور آپ کسی وجہ سے اس بجلی کو استعمال نہیں کر رہے اور اسے گرڈ میں ڈال دیں تو حکومت وہ اضافی سولر بجلی خرید سکتی ہے ۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز سولر بجلی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا ادارہ بھی مختلف مقامات پر اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن اس کا سب سے بڑاپراجیکٹ وہ تھا جس کے تحت مٹھی میں پچاس دیہاتوں میں تیس ہزار گھروں کو سولر انرجی فراہم کی گئی اور ہر گھر کو کو دو دو لائٹس اور ایک ایک پنکھا چلانے کے لیے سولر سسٹم لگا کر دیا تو اس پورے سسٹم پر ایک گھر میں چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اب جب کہ پینلز اور دوسرے متعلقہ آلات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اس لاگت میں اور کمی ہو سکتی ہے
Monday, 5 December 2011
اک چھوٹا سا لڑکا
میں جن دنوں
اک میلے میں
پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا
ہر اک شے مول لوں
جیب خالی تھی
کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیئے حسرتیں سینکڑوں
اور آج میلہ لگا ہے
اسی شان سے
آج چاہوں تو
سارا جہاں مول لوں
آج چاہوں تو
اک اک دوکان مول لوں
نارسائی کا اب
دل میں دھڑکا کہاں
پر وہ الہڑ سااب
چھوٹا لڑکا کہاں
شاعر ابن انشاء!!!!!
Thursday, 1 December 2011
الّلہ سے ڈرنے والے
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں حرام و حلال کا لحاظ رہتا ہے۔ ان کو یہ خیال آتا رہتا ہے کہ مرنے کے بعد الّلہ کے یہاں حساب کتاب کے لئے حاضر ہونا ہے۔ عام حالات مین وہ الّلہ سے ڈر کر زندگی گزارتے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں کسی کو ان سے حق تلفی اور بےاخلاقی کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تاہم وہ اپنئ نفسیاتی پیچیدگیوں سے اٹھے ہوئے نہین ہوتے۔ ان کا خوف خدا اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ وہ ان کے نفس کےاندر چھپے ہوئے جزبات کا احاطہ کرلے۔ عام حالات میںوہ خدا ترس زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیش آئے تو اچانک وہ دوسری قسم کے انسان بن جاتے ہیں۔ کبھی کسی کی محبت کا لحاظ، کبھی کسی کے خلاف نفرت کا جزبہ،کبھی اپنی عزت کا سوال ان کے اوپر اس طرح غالب آتا ہے کہ ان کا خوف خدا اس کے نیچےدب کر رہ جاتاہے۔ یہ عمل چونکہ اکثر غیر شعوری طور پر ہوتا ہے اس لئے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپراپنے نفس کے اس حملہ سے آگاہ ہوں اوراپنے آپ کو تھامتے ہوئے اپنے کو متقیانہ روش پر قائم رکھیں ، معمول کے حالات میں خدا ترسی کی زندگی گزار نے والا غیر معمولی حالات میں وہی کچھ کر گزرتا ہے جو پہلی قسم کے لوگ اپنے عام زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا انسان وہ ہے جو پورے معنوں ہیں الّلہ سے ڈرنے والا ہے، جو الّلہ کو پہچاننے کے ساتھ خود اپنے آپ کو بھی پوری طرح پہچان چکا ہو۔ ایسا شخص صرف عام حالات ہی میں الّلہ سے نہین ڈرتا بلکہ غیر معمولی حالات میں بھی الّلہ کا خوف اس کا نگراں بنا رہتا ہے۔ کسی کی محبت جب اس کو بے خوفی کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے تو وہ فوراً اس کو دیکھ لیتا ہے۔ کسی سے چھپی ہوئی نفرت جب اس کے نفس میں تیرتی ہے اور اس کو بے انصافی پر اکساتی ہے تو وہ چونک پڑتاہے اور اس سے باخبر ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ ذاتی عزت و وقار کا سوال جب اس کے اندر داخل ہوکر اس کو کسی حق کےاعتراف سے روکتا ہے تو وہ بلا تاخیر اس کو جان لیتا ہے۔ اس طوح وہ اپنی تمام خامیوں سے آگاہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے۔ اس کا مسلسل احتساب اس کو ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو انتہائی بے لاگ نظر سے دیکھ سکے۔ بالفاظ دیگر، وہ اپنے آپ کو اس حقیقی نظر سے دیکھنے لگتا ہے جس نظر سے اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
دعا
‘‘ میرے لئے بائیسکل خرید دیجئے’’ ایک غریب خاندان کے لڑکے نے اپنے باپ سے کہا۔ باپ کے لئے بائیسکل خریدنا مشکل تھا۔ اس نے ٹال دیا ۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ آخر کار ایک روز باپ نے ڈانت کر کہا‘‘ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا۔’’ یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔ وہ کچھ دیر تک چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا‘‘ آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں پھر آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں’’ اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا ۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا ‘‘ اچھا بیٹے ، اطمینان رکھو۔ میں تم کو ضرور بائیسکل دوں گا۔’’ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگلے دن اس نے پیسہ کر کے بیٹے کے لئے نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی۔جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہو گئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطہ پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لئے بھی اتنا بڑا مسئلہ بن گئی جتنا وہ خود اس کے اپنے لئے تھی۔
یہ انسانی واقعہ خدائی واقعہ کی تمثیل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دعا ہےجو لوٹائی نہیں جاتی۔ یہ وہ دعا ہےجس میں بندہ اپنے پوری ہستی کو انڈہل دیتا ہے ۔ جب بندہ کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین و آسمان بھی نہ کر سکیں۔جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کرلیتا ہے کہ ‘‘ بیٹا’’ اور ‘‘ باپ’’ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہےجب کہ دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔
اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو جاتے ہیں۔ قادر مطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میںلےلیتا ہے۔
Wednesday, 30 November 2011
وہ پگلی۔۔۔۔۔
وہ پگلی۔۔۔۔۔
پھر سے بیتے موسموں کی
تلخیوں کو
یاد کرتی ہے
پرانا کارڈ پڑھتی ہے
کہ جس میں اُس نے
لکھا تھا
میں لوٹوں گا دسمبر میں
نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گن گن کر بتاتی ہے
جونہی 15 گزرتی ہے
وہ کچھہ کچھہ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی
پرانی البموں کو کھول کر
!!!ماضی بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اُس کو
کہ بیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں۔۔۔
یونہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی۔۔۔
دوبارہ سے کیلنڈر میں
دسمبر کے مہینے کے صفحےکو
موڑ کر، پھر سے
پھر سے
دسمبر کے سحر میں
ڈوب جاتی ہے
کہ آخر اُس نے لکھا تھا۔۔۔۔
میں لوٹوں گا دسمبر میں
انتخابی تحریر::::::::لڑکی= بیوی، بہو، بیٹی اور پھر ماں
میری ماں نے مجھ سے پوچھا کہ بتا تجھے شادی کے لئے کیسی لڑکی چاہئے؟
میں نے ماں سے کہا جو تجھے پسند ہو
ماں نے کہا جو تجھے سمجھے اور تجھے پسند آئے وہی میری پسند ہو گی اور میں تو
چاند جیسی بہو لاؤں گی تیرے لئے ، پھر بھی بتاؤ نہ کسی لڑکی چاہئے ؟
میں خاموش ہو گیا اور سوائے ان چند الفاظ کے اور کچھ نہ کہہ
سکا کہ
ماں لڑکی وہ چاند نہیں ہونی چاہئے
جسے ہر کوئی بے نقاب دیکھے
بلکہ
لڑکی وہ سورج ہونا چاہئے
جسے دیکھتے ہی آنکھیں جھک جائیں
کبھی احترام میں !
کبھی جلال میں !
دوستو________________________ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اچھی عادت کی مالک نیک اور پارسا عورت کسی فقیر کے گھر میں بھی ہو تو اسے بھی بادشاہ بنا دیتی ہے۔ ! اس لئے دین دار لڑکی سے شادی کرو جو آپ کی دنیا و آخرت کو سنوار دے جو کل کو آپ کے بچوں کی ماں بنے گی جو سب کو فخر سے بتا سکیں کہ ہماری ماں جیسی کوئی نہیں۔
Tuesday, 29 November 2011
یہ کم ظرف انسان by:::Rana Rashid:::::
نا بدلا ہے یہ سورج
نا ہی بدلا ہے یہ چاند
بدلا ہے تو بس بدلا ہے
یہ کم ظرف انسان
نا بدلے ہیں یہ ستارے
نا ہی بدلے پربت سارے
ناہی بدلی یہ دھرتی پیاری
نا بدلا پھول کا کھلنا
نا ہی بدلا ہے کھیت کھلیان
بدلا ہے تو بس بدلا ہے
یہ کم ظرف انسان
نا بدلا ہے پانی کا جھرنا
نا بدلا شبنم کا گرنا
نا تو بدلا ہوا کا رخ
نا ہی بدلا پورب پچھم
اور ناہی بدلا ہے آسمان
بدلا ہے تو بس بدلا ہے
یہ کم ظرف انسان
نا بدلی ہے کوئل کی کوکو
نا بدلی مرغے کی بانگ
بدلا ہے تو بس بدلا ہے
یہ کم ظرف انسان
===================
Saturday, 26 November 2011
عالم اسلام میں ”دوسرا اسرائیل“ قادیانی ریاست کامنصوبہ
نوٹ: دنیا بھر کے تما م اخبارات ، رسائل و جرائد کے ایڈیٹرصاحبان/ انچارج آڈیو وڈیو، ریڈیو و پرنٹ میڈیا اس کالم کو خدا اور اسکے رسول ﷺ کی محبت کے تقاضوں اور ملکی سالمیت کے تحفظ اور دینی اقدار کو روند ڈالنے کی قادیانیوں کی پالیسیوں سے نجات کے لئے اس کو ضرور بالضرور من و عن شائع و نشر کر کے مشکور فرمائیں۔ دیگر افراد بھی اپنے احباب و عزیز و اقارب تک اس پیغام کو لازماً پہنچائیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔
Friday, 25 November 2011
کجھ بغض دی ریت
وچ نہیں ملدا
اوہ ہار تے جیت
وچ نہیں ملد
مخلوق خدا نال
پیار تے کر،
رب صرف مسیت
وچ نہیں ملدا۔
محبت روٹھ جاتی ہے
یہ تسبیح محبت ہے
جو آئے تیسرا دانا
یہ ڈوری ٹوٹ جاتی ہے
مقرر وقت ہوتا ہے
محبت کی نمازوں کا
ادا جن کی نکل جائے
قضاء بھی چھوٹ جاتی ہے
محبت کی نمازوں میں
امامت ایک کو سونپو
اسے تکنے اسے تکنے
سے نیت ٹوٹ جاتی ہے
محبت دل کا سجدہ ہے
جو ہے توحید پر قائم
نظر کے شرک والوں سے
محبت روٹھ جاتی ہے
Thursday, 24 November 2011
Sunday, 13 November 2011
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی : ابن انشاء
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ادھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لائی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہ ا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا
Saturday, 12 November 2011
Thursday, 10 November 2011
Saturday, 5 November 2011
لونڈی کی پکار پر معتصم باللہ کی یلغار
{ وا معتصماہ}
" ہائے خلیفہ معتصم تم کہاں ہو!"
اس موٹے عیسائی نے لونڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
{ وما یقدر علیہ المعتصم! یجیء علی ابلق وینصرک؟!}
" معتصم باللہ اس پکار کا کیوں کر جواب دے سکتا ہے! ایا وہ چتکبرے گھورے پر سوار ہوکر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟"
پھر اس لونڈی کے رخسار پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی-
یہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ نے اس آدمی سے دریافت کیا:
" عموریہ کس سمت میں ہے؟"
اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے-
خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ کی سمت موڑا اور کہا:
{ لبیک، ایتھا الجاریۃ! البیک، ھاذا المعتطم باللہ اجابک}
"میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے-"
پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ھزار چتکبرے گھوڑے تیار کرائے اور ایک لشکر جرار لےکر عموریہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا- جب اس محاصرہے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا- انہوں نے کہا: "ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں-" چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزرا-
خلیفہ اسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ جپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ مگوئیان کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں- خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کررہا تھا- بٹھی گرم تھی- وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا-
لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا-
اچانک غلام نے برے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:
{ فی راس المعتصم}
" یہ معتصم کے سر پر"
لوہار نے غلام سے کہا: تم نے بڑا برا کلمہ کہا ہے- اپنی اوقات میں رہو- تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ کہو-
غلام کہنے لگا: " تمہاری بات بلکل درست ہے مگر ہمارے خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہے- اس کے پاس اتنی فوج ہے- تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہین- اللہ کی قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذم داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا"-
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ معتصم باللہ کو بڑا تعحب ہوا- پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا-
صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی حدمت میں حاضر کیا-
خلیفہ نے پوچھا:
" رات جو باتیں مین نے سنی ہین، ان باتوں کی کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:
" آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے- اگر آپ جنگ میں مجھے کماندر بنادیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروادے گا-"
خلیفہ نے کہا:
"جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی-"
چنانچہ اللہ تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرادیا- پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا- اس اس نے فورا اس آدمی کو تلاش کیا جو لونڈی کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تونے اس لونڈی کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو- وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور لونڈی کےاس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی حدمت میں حاضر کیا- اس وقت خلیفہ نے لونڈی سے کہا:{ یا جاریۃ! ھل اجابک المعتطم؟}
" لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟"
اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلادیا- اور اب تلاش اس موٹے عیسائی کی ہوئی جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا- اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو- اللہ اکبر
محاضرات الابرا: 2/63، قصص العرب :3/449
اقتباس: سنہرے حروف
از: عبد المالک مجاھد
Thursday, 3 November 2011
مسلمانوں کے نام ایک غیر مسلم شاعر کا پیام
ایک ہی پربھو کی پوجا ہم اگر کرتے نہیں
ایک ہی در پر مگر سر آپ بھی دھرتے نہیں
اپنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہے
آپ کے سجدوں کا مرکز ’قبر ‘ جو بے جان ہے
اپنے معبودوں کی گنتی ہم اگر رکھتے نہیں
آپ کے مشکل کشاؤں کو بھی گن سکتے نہیں
’’جتنے کنکر اتنے شنکر‘‘ یہ اگر مشہور ہے
ساری درگاہوں پہ سجدہ آپ کا دستور ہے
اپنے دیوی دیوتاؤں کو اگر ہے اختیار
آپ کے ولیوں کی طاقت کا نہیں حدوشمار
وقتِ مشکل ہے اگر نعرہ مرا ’ بجرنگ بلی
آپ بھی وقتِ ضرورت نعرہ زن ہیں ’یاعلی‘
لیتا ہے اوتار پربھو جبکہ اپنے دیس میں
آپ کہتے ہیں ’’خدا ہے مصطفٰے کے بھیس میں‘‘
جس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں میں گھنٹیاں
تربتوں پر آپ کو دیکھا بجاتے تالیاں
ہم بھجن کرتے ہیں گاکر دیوتا کی خوبیاں
آپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوّالیاں
ہم چڑھاتے ہیں بتوں پر دودھ یا پانی کی دھار
آپ کو دیکھا چڑھاتے مرغ چادر ،شاندار
بت کی پوجا ہم کریں، ہم کو ملے’’نارِ سقر
آپ پوجیں قبر تو کیونکر ملے جنّت میں گھر؟
آپ مشرک، ہم بھی مشرک معاملہ جب صاف ہے
جنّتی تم،دوزخی ہم، یہ کوئی انصاف ہے
مورتی پتّھر کی پوجیں گر! تو ہم بدنام ہیں
آپ’’سنگِ نقشِپا‘‘ پوجیں تو نیکو نام ہیں
کتنا ملتا جلتا اپنا آپ سے ایمان ہے
’آپ کہتے ہیں مگر ہم کو ’’ تو بے ایمان ہے ‘
شرکیہ اعمال سے گر غیر مسلم ہم ہوئے
پھر وہی اعمال کرکے آپ کیوں مسلم ہوئے
ہم بھی جنّت میں رہیں گے تم اگر ہو جنّتی
ورنہ دوزخ میں ہمارے ساتھ ہوں گے آپ بھی
ہے یہ نیّر کی صدا سن لو مسلماں غور سے
اب نہ کہنا دوزخی ہم کو کسی بھی طور سے
اوم پر کاش نیّر، لدھیانوی
وہ دولت بھی آخر کھو بیٹے مسلماں
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خیال اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمیں و زماں میں
رہا شرک باقی نا وہم و گماں میں
وہ بدلہ گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی آخر کھو بیٹے مسلماں
مولانا الطاف حسین حالی
Monday, 31 October 2011
زندہ قوم اور مردہ قوم::::::فرق صاف ہے
شکریہ جناب: بشارت علی صاحب
ایک خود سوزی نے تیونس میں انقلاب بر پا کر دیا اور پاکستان میں خود سوزی نے ؟؟؟؟
محمد باﺅ عزیزی گریجویٹ تھا اور جنوری 2010 سے تیونس کی سڑکوں اور گلیوں میں نوکری تلا ش کرتا رہا۔مایوس ہوکر اس نے کام کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا اور آخر تنگ آ کر اس نے پیٹرول کی بھری ہوئی بوتل سے تیونس کی پا رلیمنٹ کے سامنے اپنے اوپر پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگالی۔ باﺅ عزیزی کی زندگی تلخیوں کی پوری کتاب تھی۔
باﺅ عزیزی نے جب اپنے آپ کو آگ لگائی تو اس وقت تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کی حکومت تھی جو پورے ملک پر قابض تھے ملک کا میڈیا مکمل طور پر حکومت کا پابند تھا ہر خبر حکومت کی مر ضی سے نشر ہوتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ باﺅ عزیزی کی خود سوزی کی تصاویر یا ویڈیو کسی چینل پر نشر نہیں ہوئی بلکہ تیونس کے ایک شہری کے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچی جس نے تیونس میں انقلاب کو جنم دیا جس کے زدمیں عرب کے دیگر ڈیکٹیٹرز بھی آگئے ۔
نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے راجہ رند خان نے بھی 24 اکتوبر کو یہی کیا ۔ وہ میٹرک پاس تھا۔ اس کی عمر بھی باﺅ عزیزی کی طرح 25 سال تھی وہ دو بچوں کا باپ اور ایک حاملہ بیوی کا خاوند تھا۔ راجہ نوکری کی تلا ش میں اسلام آباد آیااور اپنے علاقے کے ایم این اے سے ملا قات کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے پا رلیمنٹ لاجز میں گھسنے کی اجازت نہ دی تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوگیا اور اس کے دھرنے پر کسی نے دھیان نہ دیا ۔ چناچہ وہ خود سوزی کرنے پر مجبور ہوگیا اور راجہ رند نے 24 اکتوبر کو خود کوپارلیمنٹ کے سامنے آگ لگالی۔راجہ رند کی خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تو تھوڑی دیر تک پورا ملک سکتے کی حالت میں رہا لیکن پھر زندگی معمول پر آگئی اور لوگوں نے راجہ کی موت کو ایک نیوز پیکج یا ایک amazing نیوز کے طور پر لیا اور یوں میں غلط ثابت ہوگیا اور راجہ کی قربانی رائیگاں چلی گئی۔
باﺅ عزیزی کی موت تو تیونس میں انقلاب برپا کرگئی مگر افسوس راجہ رند کی خود سوزی پاکستان کو کچھ نہیں دے سکی اور پاکستان آج بھی راجہ رند کی طرح روز جی رہا ہے اور روز مررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب برپا کیوں نہ ہوسکا کیونکہ ہم لوگ صرف زندہ ہیں مگر ہم میں زندہ قوموں والی کوئی بات نہیں، اندر سے سب گل سڑ چکے ہیں، الزام لگاکے روز رات کو رضائی اوڑہ کے سونا اور دوسرے دن اٹھ کے دوبارہ حکومت کو برا بھلا کہناہمارا معمول بن گیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور صرف زرداری و رحمان ملک کو برا بھلا کہ کر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں ۔
یہ تو ایک معمولی راجہ رند تھا ایک وہ حبیب جالب تھے جو انقلابی نظمیں لکھتے رہے اور انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے مگر اس قوم پر کو ئی فرق نہ پڑا۔ پاکستان میں پچھلے برس 1600 افراد نے ریکا رڈخود کشی کی مگر کیا ہوا؟ راجہ رند خان کی موت نے اس کی بیوی کو پولیس میں نوکری دلوادی مگر کیا راجہ رند خان کی خود سوزی نے اس ملک کو کچھ دیا۔
Friday, 28 October 2011
بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے
ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچے
Wednesday, 26 October 2011
:::::Go America Go America::::::
~~Letter to Americans~~
Our country has suffered/is suffering from dictatorship by its elected/unelected leaders. They are involved in murder of thousands of innocent civilians in the tribal regions of Pakistan and Karachi. They are corrupt and will not let an ordinary Pakistani prosper. Human Rights violations, chaos, lawlessness, and all that comes with it is pretty much thriving in our country. Drug Mafia, Land mafia this that and jack mafia, we have them all. Justice takes forever, in fact, may take for never. We have weapons that can be misused against our own people by our own institutions at any time. Military dictatorship is still a threat in Pakistan. The rich are getting richer and the poor are getting poorer by the day. The educated migrate from here due to lack of opportunities. We have disputes with our neighbors and have had many wars. Ethnic and religious tension is in the air. I heard some voices talk about anarchy. People don’t like their president who is considered a gangster and murderer of his wife. I don’t like him either even though I’m not too sure about who killed BB. Our administration does not have full control over its territory. There are some separatist movements in Pakistan and some just fight others because they are paid to do so. Suicide bombings are common while our law enforcement agencies are immoral. Women, children, minorities and other groups of people are deprived of their basic rights on a daily basis. Feudalism, slavery, and honor killings are still in vogue.
Please do not consider the above as an invitation to invade Pakistan and/or fight for our rights. Stay out! Let us Pakistanis fix our problems even if it takes long. You haven’t fixed any country with your military intervention so far, and I don’t think you can fix ours. What you did in Iraq, Afghanistan, Vietnam and Libya has claimed more lives than the oppressor you tried to remove. Has put the people at an acute economic disadvantage, destroyed the very fabric of society, social structure, and governance. And you didn’t even get lucky to win their resources after several attempts. You do not have the automatic responsibility to fix Pakistan. You have no business here!
Tuesday, 25 October 2011
..:::::تمہاری یاد کے موسم:::::..
کبھی آنکھیں برستی ہیں
تمہیں دیکھیں ترستی ہیں
کبھی دل ڈوب جاتا ہے
دھڑکنا بھول جاتا ہے
یہ ساری دھوپ سورج کی مرے سر پر اترتی ہے
مرے اندر ٹھہر جاتی ہے
دل کو چیرتی ٹھنڈک
کبھی یہ پیرھن میرے جھلس کر راکھ ہوتے ھیں
کبھی آنکھوں کے سارے خواب جل کر خاک ہوتے ہیں
کبھی میں برف ہوتی ہوں
میرے ہاتھوں کی نیلاہٹ مجھے محسوس ہوتی ہے
پگھلتی ہوں توآنکھوں سے بھی ساون ٹوٹ پڑتا ہے
بکھرتی ہوں تو اک طوفان ہر سو پھیل جاتا ہے
سمٹتی ہوں تو اک کتبہ نگاہوں میں ٹہرتا جاتا ہے
تمہارے نام کا کتبہ
تمہاری قبر کا کتبہ
Thursday, 13 October 2011
چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!
چلو چھوڑو!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے
چلو چھوڑو!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اِک شَغل ہے بے کار لوگوں کا
Tuesday, 11 October 2011
Monday, 3 October 2011
!!!میرے وطن کے لوگو!!!
میرے وطن کے اداس لوگو!
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو،
کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو،
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
کہ ہم اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو اک خدا ہے
میرے وطن کے اداس لوگو!
جھکے سروں کو اٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہےاک طاقت تمہارے سر پر
کرے گی سایہ جو ان سروں پر
قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
اگر گرئے تو سنبھال لے گی
میرے وطن کے اداس لوگو!
اٹھو چلو اب وطن سنبھالو!!!
حوا کی بیٹی، تڑپ رہی ہے
اس کا خواب تھا کہ وہ بہت سارا پڑھے گی، اور اپنے والدین کے لیئے فخر بنے گی۔ بھائی بہنوں کے لیئے تمغہ امتیاز بنے گی۔ ساری امنگیں اور جذبات اپنی جگہ لیکن اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، باپ بہت محنت سے اور سفید پوشی کا بھرم لیئے اپنے بچوں کے تگ و دو میں مصروف تھا۔
بہت خوشی سے وہ اپنے کالج میں پہنچی اور کمرہ جماعت میں پورے انہماک سے پڑھائی میں مصروف ہو گئی اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا، جب اچانک اس کی ایک ٹیچر نے اسے آکر بلایا اور کہا کہ وہ اس کے ساتھ آئے، وہ کچھ سمجھی نا سمجھی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے پیچے چل پڑی، باہر جا کر اس کی ٹیچر نے آہستہ سے مگر پریشان لہجے میں اسے کہا کہ تمہاری والدہ کی طبعیت بہت خراب ہو گئی ہے اور تمہیں جلدی سے گھر جانا چاہیئے، یہ خبر ایک بجلی کی طرح اس کے دل و دماغ پر گری اور اسے کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا کرئے بہت عجلت میں اس نے اپنی کتابیں اٹھایئں اور باہر کی طرف دوڑی، اس کی وہ ٹیچر اس کے ساتھ ساتھ تھی، پھر داخلی گیٹ سے باہر آتے ہی اس کی نظر اپنے تایا زاد پر پڑی اور ناگواری کا احساس فوری طور پر اس کے چہرے پر عیاں تھا ، کہنے کو تو وہ اس کا رشتہ دار بھائی تھا لیکن بے انتہا دولت، اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ لوگ انہیں خاطر میں نا لاتے تھے اور ہمیشہ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ لیکن اسوقت صورت حال کچھ عجیب تھی وہ اپنے چہرے پر پریشانی طاری کئے اس کی طرف لپکا، اور بولا کہ اس کی والدہ کی طبعیت بہت خراب ہے لہذا وہ اسے لینے آیا ہے، سو وہ جلدی سے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے، وہ شش وپنج کے عالم میں اس کی گاڑی تک آئی لیکن گاڑی میں سوار تین افراد کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی، وہ بہت تیزی سے نیچے اترے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکتی انہوں نے اسے آن دبوچا اور گاڑی میں ڈال دیا۔
بے بسی اور گھبراہٹ میں اس نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنیوالی ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ تو کب کی اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔ وہ چیخی لیکن اس کی آواز سننے کے لیئے وہاں کوئی نہیں تھا، اور گاڑی فراٹے بھرتی کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہی تھی، اس دھان پان سی میٹرک کی لڑکی نے بہت آہ و بکا کی لیکن کہیں اس کی آواز نا سنی گئی،
اچانک گاڑی ایک ویران جگہ پر رکی، اور انہوں نے کھینچ کر اسے نیچے اتارا،
اس کے بعد جو ہوا اسے نا تو بیان کیا جا سکتا ہے اور نا کسی بھی غیرت مند انسان کے لیئے ایسا سوچنا ہی ممکن ہے۔
ان درندوں نے اپنی درندگی اور حرام کاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے پامال کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس
یقیناً عرش بھی کانپا ہوگا اور ہوائیں روئی ہوں گی، ہر وہ شے جو انسان نہیں وہ انسان کی بربریت اور درندگی پر نوح خواں ہو گی۔
تیسرے دن اس کو مقامی ہسپتال میں جب ہوش آیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا سے کیا ہو گیا۔
وزیر اعلٰی پنجاب نے از خود نوٹس لے لیا،
بے غیرتوں کا ٹولہ پولیس پہلے تو رپورٹ درج نہیں کررہی تھی اور جب مرکزی ملزم فرار ہو گیا تو ایکشن میں آ گئ،
آج صبح کی رپورٹ کے مرکزی مجرم کو راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: اب آگے کیا ہو گا?
کیا ایک کیس چلے گا اور جب تک اس کا فیصلہ ہو گا تب تک یہ افسوس ناک دل دہلا دینے والا واقعہ ماضی کی راکھ بن چکا ہوگا?
یا پھر اس میں واسطہ و بل واسطہ ملوث افراد کو کھلے چوک میں گولی مار کر لٹکا دینا چائیے تا کہ عبرت ہو۔
آخر کوئی تو ایسی سزا ہو جو عبرت ناک ہو اور دوسروں کے لیئے سبق ہو۔