قادیا نیوں کا اپنے نام نہادمذہب اور کفریہ عقا ئدکی بنیاد رکھنے کے روز اول سے ہی یہ پلان تھا کہ وہ ہندو پاک میں اپنی علیحدہ ریاست قا ئم کریں گے چاہے اسکے لیے انہیں کتنی ہی جانی ومالی قربانی کیوں نہ دینی پڑے عرصہ دراز سے اس پر عمل درامد کرنے کے لیے تمام قادیانی ملازمین اپنی تنخواہوں کا 7فیصد اور کاروباری حضرات بھی کم و بیش اتنا ہی سرمایہ اپنی جماعت کو جمع کرواتے چلے آرہے ہیں پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ربوہ (موجودہ اسلام نگر) کواس کے لیے منتخب کیا یہ علاقہ تین اطراف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے اور چوتھی طرف دریا بہہ رہاہے ربوہ میں رابطہ کا صرف ایک پل ہے جو کہ دریا پر بنا ہوا ہے اسلئے قادیانی منصوبہ سازوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے لیے یہ جگہ مخصوص کر ڈالی اور قادیانیوں نے اس جگہ پر ہزاروں ایکڑ نہیں بلکہ کئی میل لمبا چوڑا علاقہ اونے پونے داموں خرید لیا جسمیں انہیں تمام حکمرانوں کی بھی آشیر باد حاصل رہی قادیانی ریاست کے قیام کا انکا زیر زمین پلان ہی انکا اولین مقصد ہے جس طرح سے یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں عالم اسلام کے سینے میں خنجر گھونپ رکھا ہے اور پورا عالم کفر اور لادینی جمہوریت کے چیمپئن اسکے ممدومعاون بنے ہوئے ہیں اسی طرح انکی ہی پیروی کرتے ہوئے اور تمام کفریہ عقائد کی علمبر دار قوتوں کی ہی مدد سے قادیانی ربوہ میں مرزائی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں اسی مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے سول اور فوج کے اعلٰی عہدوں پر قبضہ کیا پاک فوج میں عملاًمرزائی اجتماعات بھی منعقد کرتے ہیں حتیٰ کہ کسی مرتد کے مکان کے بڑے ہال کو عبادت و اجتماع گاہ قرار دے لیتے ہیں ایک دوسرے کی ناجائز امداد کر کے اعلٰی عہدوں پر قابض ہیں اور بوقت ضرورت حکومت کی وفاداری سے بھی آنکھیں پھیر لیں گے اور قادیانی سربراہ کے حکم کی بجا آوری ان کی ترجیح ہو گی ۔قادیانیوں نے ربوہ میں دریا کے قرب وجوار کی طرف توکئی ایکڑ زمین خرید کر خالی چھوڑ رکھی ہے اسمیں نہ تو کوئی فصل اگاتے ہیں اور نہ ہی کوئی درخت بلکہ پہلے سے موجود تمام درخت جڑ سے اکھاڑپھینکے ہیں لیکن اس زمین کو عملا ًمستقل طور پر پانی لگاتے ہیں تا کہ زمین پختہ رہے اور بوقت ضرورت اسکو فوراً آناًفانا ًائیرپورٹ میں تبدیل کر کے یہاں پر جنگی طیارے اتارے جاسکیں اور ریاست کا منصوبہ تکمیل پا سکے ۔ہمارے وزیر خارجہ ، وزیر اعظم ، حتیٰ کہ صدر پاکستان تک نے جو ملاقاتیں امریکیوں سے اعلیٰ سطح پر کی ہیں ان میں یہ معاملہ سر فہرست رہا اور اندرونِ خانہ سب کچھ طے پا گیا ۔ امریکن افواج جو کہ پاکستان کے اندر اور بارڈرز پر خاصی تعداد میں موجود ہیں اور پہلے بھی 9/11 کے واقعہ کے بعد یہیں سے ” اسلامی افغانستان“ کو تباہ و برباد کر کے قبضہ کر چکی ہیں اور آج کل نت نئے علاقہ پر پاکستانی بارڈر کے اندر جب چاہتی ہیں حملہ آور ہو کر مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کر ڈالتی ہیں جسکے لئے موجودہ 87 افراد کے باجوڑ میں قتل کے واقعہ پر کسی ثبوت کی ضرورت نہ ہے۔ اسلئے ربوہ جیسی کسی جگہ جہاں کفر کے روپ میں مسلمان کہلوانے والے موجود ہیں انکا حملہ آور ہونا یا قبضہ میں امداد کر ڈالنا بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔ صدر پاکستان کی کئی بار اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف تجاویز اور تردید یں بھی ا یسے اقدام کرنے میں ممد و معاون ہیں عالم اسلام کے ممالک کے سربراہوں یا بادشاہوں نہیں بلکہ صحیح العقیدہ عوام الناس کا اندرونی دباؤ انہیں ایسے اقدام سے باز رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی تو اسلام دشمن پالیسیوں سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہوتا نظر آتا ہے ۔ مرزائیوں کے سر براہ کی طرف سے کسی بھی افراتفری کو بنیاد بنا کر قادیانی ریاست کا اعلان ہوتے ہی امریکن جنگجو طیارے فوری طور پر ربوہ اےئر پورٹ پر اتریں گے اور پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی آنکھ مچولی کی وجہ سے یہ تعمیر ہو جائیگی۔ قادیانیوں نے اطراف میں موجود پہاڑیوں کی غاروں میں جدید ترین اسلحہ جمع کر رکھا ہے جو کہ بوقت ضرورت انکے کام آسکے گا ملک بھر سے نہیں بلکہ پوری دینا سے قادیانیوں کو اسرائیل کی طرح یہاں لا کر جمع کرنے کے لئے قادیانی ہزاروں ایکڑ زمین اطراف میں خرید چکے ہیں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو سب معلوم ہے مگر سرکاری ہونے کے ناطے انکا وطیرہ ہر دور میں یہی رہا ہے کہ موجود حکمرانوں کے نظریات کے مطابق ہی وہ رپورٹس مرتب کر کے بھجواتے ہیں تاکہ مقتدر افراد کے ماتھوں پر بل نہ آسکے اور ایسے ملازمین کا دال دلیہ چلتا رہے اور امریکنوں کا تو اسمیں مفاد موجود ہے کہ وہ پھر کھل کر یہاں سے پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان ، ایران حتیٰ کہ چین تک کو” کنٹرول “ کر سکیں گے اور انہیں کسی حکومت سے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے با رگیننگ کرنے کی ضرورت نہ رہے گی یہاں تک کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی نام نہاد امداد دیکر اپنے مقاصد و مطالبات پورے کرنے کروانے سے بھی جان چھوٹ جائیگی اور ناجائزوغیر جمہوری قابض حکمرانوں کی سر پرستی کرتے ہوئے جو بدنامی کا دھبہ اُن پر ہے وہ بھی نہ رہے گا۔ ویسے بھی اسرائیل کی طرح عالم اسلام میں دوسرے اسرائیل کا قیام عمل میں آ جائے گا پوری دنیا جانتی ہے کہ مرزائیوں (قادیانیوں) یا یہودیوں کی پالیسیوں اور عقائد و نظریات میں کوئی فرق نہ ہے۔دونوں ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں پاکستانی تو حیران و ششدر ہیں کہ قادیانیوں کے افواج ِ پاکستان میں ملازمتیں حاصل کرنے پر اب تک کیوں پابندی نہ لگائی جا سکی ہے؟ حالانکہ مرزائیوں کے نام نہاد کفریہ مذہب کی بنیاد ہی انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سے جہادی نظریات کو اکھاڑنے کے لئے کی تھی تا کہ وہ ہندو پاک میں مزید عرصہ مقتدر رہ سکیں مگر وہ پلان اس وقت کا میاب نہ ہو سکا۔ قادیانی جو خدا، رسول ودیگر انبیاء کسی کو نہ مانتے ہیں نہ انکا عقیدہ ہے تو پھر وہ جہاد فی سبیل اللہ کوکیسے مان سکتے ہیں ہماری فوج کا چونکہ نعرہ ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اسلئے پاک فوج کے نظریات سے متصادم کسی دوسرے نظریہ کے علمبرداروں کی بھرتی ویسے ہی قانون و آئین کے مطابق نہ ہے۔ برطانیہ کی سینکڑوں برس سے قائم حکومت جب مسلمانوں کے شعور سے قریب الختم ہوئی تو انہوں نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق مرزا غلام احمد نامی شخص کو مسلمانوں کے دلوں سے غیرت ایمانی ، حُبِ رسول اور جہادی نظریات کو ختم کرنے کا کام سونپا۔ اُس وقت با وجوہ وہ کامیاب نہ ہو سکا کہ بہتے ہوئے دریاؤں کا رُخ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک زوروں پر تھی اور علماء کی قربانیاں اور انگریز اقتدار کی طرف سے انکی قتل و غارت عروج پر تھی اسلئے انگریزوں کو یہاں سے جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی مگر اپنا کاشتہ پودا نہ اکھاڑا اور مسلسل آج تک انکا مشن پورا کرنے کے لئے قادیانی جماعت تگ و دو میں مصروف ہے پورے ملک میں نہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی ہر جگہ رسل و رسائل کے ذریعے لٹریچر کی بھر مار ہے۔ حکومتی چیک ا ینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ربوہ میں اب بھی عملاً انکا کنٹرول ہے کوئی ملازم ان کی جازت کے بغیر وہاں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ٹرانسفر ہو کر آبھی جائے تو قادیانی اسکا نا طقہ بند کر دیتے ہیں یہاں تک کہ با لآخر اسے یہاں سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑتی ہے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس احرارِ اسلام نے یہاں پر مساجد تو قائم کر رکھی ہیں مگر وہ بھی صرف سالانہ جلسہ کی حد تک ہیں عملاً مسلمانوں کا کوئی تبلیغی یا تعلیمی مشن یہاں پر کام نہیں کر رہا ۔ گو کہ 7 ستمبر1974 کو قادیانیوں کو قومی اسمبلی پاکستان نے متفقہ قرار داد کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا تھا مگر جو قوانین مرتب کئے گئے ان پر آج تک عمل درآمد نہ ہو سکا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ 29 مئی1974 کو ربوہ کے سٹیشن پر ر میڈیکل کالج ملتان کے نہتے 187 طلبہ جو کہ سوات کی سیر سے واپس آرہے تھے کو قادیانیوں نے مسلح حملہ کر کے زخمی کر ڈالا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ وقوعہ سے تین روز قبل ہی ملتان سے سوات جاتے ہوئے جب چناب ایکسپریس ربوہ (اسلام نگر) سٹیشن پر رکی تو راقم الحروف کے 1971 کے مرتب کردہ 16 صفحہ کے پمفلٹ ” آئینہ مرزائیت“ کو تقسیم کیا تھا جس پر اسٹیشن پر موجود قادیانی سیخ پا ہوگئے تُو تکار اور معمولی ہاتھا پائی کے بعد ٹرین چل پڑی مگر قادیانیوں کا اپنی مستقبل کی تصوراتی نام نہاد ریاست کے ” دارالخلافہ“ جیسے مقام پر ایسا معمولی واقعہ ان کے مزاج شیطانی کو شدید ناگوار گذرا کہ پورے ملک سے مسلح قادیانی نوجوان اکٹھے کئے گئے اور واپسی پر ان مسلح منکرینِ ختم نبوت وجہنم واصلین نے حملہ کر کے 187 مسلمان طلبہ کو شدید زخمی کر ڈالا جس کی باز گشت راقم الحروف اور ایک اور سٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار ارباب عالم کی پریس کانفرنس سے پوری دنیا کے ریڈیو اور اخبارات میں سنی گئی۔ اور تمام پرنٹ میڈیا اخبارات و رسائل نے دوسرے دن خدا اور رسول ﷺ کے دشمنوں کی اس شرمناک حرکت کو شہہ سرخی کے طور پر شائع کیا اور جس پرپورے ملک کے صحیح العقیدہ اور مسلمہ مکاتیبِ فکر کے علماء نے اکٹھے ہو کر قادیانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا ۔ جب اس واقعہ کی تحقیقات ہائیکورٹ کے فُل بنچ جس کی سربراہی جسٹس صمدانی نے کی تو بھی وقوعہ کی بنیاد اسی پمفلٹ ” آئینہ مرزائیت“ کو قرار دیا گیا۔عدالت نے قادیانیوں کی تمام کفریہ کتب او ر لٹریچر سے اس پمفلٹ میں درج حوالہ جات کا موازنہ کر کے اسے حرف بحرف درست قرار دیا تھا۔اس پمفلٹ کو آج کل عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان جس کا ہیڈ آفس ملتان میں ہے مختلف زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کرتی ہے ۔ قومی اسمبلی میں قرارداد سے چند روز قبل قائد حزبِ اختلاف مولانا مفتی محمود مرحوم ، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، اور دیگر علماء و ممبران اسمبلی نے قادیانیوں کے کفریہ عقائد اسمبلی کے فلور پر بیان کئے تو ممبران اسمبلی دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گئے۔ خود راقم الحروف نے مذکورہ پمفلٹ قائد حزب اقتدار شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیا تو وہ ان کفریہ حوالہ جات کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ نقل کفر کفر نہ باشد۔چند حوالہ جات یوں ہیں” کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کر لی ہے مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا“ ۔ ” میرے مخالف جنگلوں کے سور ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں“۔ حتیٰ کی تمام ممبران قومی اسمبلی نے ان کفریہ عقائد کے مندرجات / حوالہ جات کو پمفلٹ کے ذریعے دیکھا اور لاہور ہائیکورٹ کے فُل بنچ کی تحقیقات کی رپورٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مشترکہ قرار دا دکے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے ڈالا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتیبِ فکر کے مسلمان قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں ، شر انگیزیوں اور زیر زمیں خفیہ طور پر ” قادیانی ریاست “ کے قیا م کی مذموم کوششوں کے تدارک کے لئے متحد ہو کر ان کا مقابلہ کریں ۔ فوج میں سے ان کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لئے تمام قادیانیوں کو فوج میں سے نکالا جائے یا کم از کم کرنل یا س سے اوپر کے عہدہ کے تمام ملازمین کو فوراً فارغ کیا جائے تاکہ ان کا پا کستان میں موجود امریکی افواج اور خود ہماری پاک فوج میں موجود قادیانیوں کی امداد سے قادیانی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ پاکستانی مسلمان موجودہ حکمرانوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے بھی متحد و متفق ہو کر دباؤ ڈالیں تاکہ ہماری خارجہ اوراندرونی پالیسی قرآن و سنت اور ایٹمی پاکستان کے نظریات کے مطابق مرتب ہو سکے۔ اور تمام سامراجی ممالک کی غلامی سے مسلمان آزاد ہو سکیں۔اگر عالم اسلام کے تمام ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا خوف نہ ہوتا تو جس طرح امریکہ کی تمام دیگر پالیسیوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے اسی طرح اسرائیل کبھی کا تسلیم کیا جا چکا ہوتا۔ ایسا اعلان چونکہ پاکستان کی پورے عالم اسلام میں شدید بدنامی کا باعث بنتا اس لئے اس کی جگہ دوسرے پلان پر عمل در آمد کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ کہ قادیانی ریاست کا اگر اعلان ہو بھی جائے تو اس پر حکومتی سطح پر اس قدر شدید ردِ عمل کا اظہار نہ کیا جائے اور پاکستان کے اندر اس کڑوی گولی کو نگلوانے کے لئے تجاویز مرتب کی جائیں ایسی تجاویز کے لئے اسلام آباد میں کرپٹ لادین بیورو کریٹس پر مشتمل کمیٹی دن رات مصروف عمل ہے ایسے اعلان کو موجودہ حکومت آسانی سے ہضم کر سکتی ہے ۔ سابق روایات کی طرح صرف اتنا ہی تو کہنا پڑے گا کہ اگر ہم امریکی افواج کے اس اقدام کی مخالفت کرتے تو وہ پورے ملک پر قبضہ کر لیتے ہم کیا کریں ہم تو صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے اور آپ کی جان و مال کو بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں اگر چند میل میں قادیانی ریاست قائم ہو بھی گئی ہے تو سیاچین کی طرح ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ پہلے بھی تو ربوہ (اسلام نگر) میں انہی کا کنٹرول تھا۔وغیرہ وغیرہ۔ قادیانیوں کے اسی پلان کی تکمیل کے لئے اور موجودہ حکمرانوں کی امداد کے بل بوتے پر ہی تو قادیانیوں کے خلاف کسی قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکا حتیٰ کہ حکومت کی مکمل آشیر باد کی وجہ سے کوئی قادیانی اپنے نام کے ساتھ لفظ قادیانی یا مرزائی لکھنے کو تیار نہ ہے۔ نہ ہی ووٹر لسٹ میں قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلموں کی فہرست میں یا قادیانیوں کی لسٹ میں درج کرواتے ہیں۔ سانپوں کی طرح مسلمانوں کی صفحوں میں گھسے ہوئے بہروپئے مرزائیوں کی سر گرمیاں عروج پر ہیں انکی سازشوں اور ” ڈنگ مارو بل میں گھس جاؤ“ جیسی پالیسی سے پوری ملت اسلامیہ زخمی زخمی اور لہو لہان ہے۔ ملک بھر میں موجود اہلِ سنت کے مدارس و مساجد اور اہلِ تشیع حضرات کی امام بارگاہوں پر راکٹوں ، دستی بموں اور کلاشن کوفوں کے حملوں کا پلان یہی لوگ مرتب کرتے ہیں اس سلسلہ میں سرمایہ بھی مہیا کرتے ہیں مسلمانوں کے متفقہ علیہ نظریات اور مسالک میں معمولی اختلافات کی جڑیں گہری کر رہے ہیں اس طرح سے1974 کی تحریک ختم نبوت میں گلی کوچوں کے اندر اپنی پٹائی اور املاک کے نقصان کا بدلہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ کی پالیسی اختیار کر کے خوب خوب لے رہے ہیں اور ہم خواب خرگوش میں مدہوش پڑے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ/ چیف جسٹسزہائی کورٹس / حکمرانوں میں صحیح العقیدہ مسلمان حضرات / آئی جی صاحبان پولیس صوبہ جات/ وزارت داخلہ بھی اس کا سو یو موٹو ایکشن لیکر اس کے تدارک کے لئے اقدامات کریں۔
نوٹ: دنیا بھر کے تما م اخبارات ، رسائل و جرائد کے ایڈیٹرصاحبان/ انچارج آڈیو وڈیو، ریڈیو و پرنٹ میڈیا اس کالم کو خدا اور اسکے رسول ﷺ کی محبت کے تقاضوں اور ملکی سالمیت کے تحفظ اور دینی اقدار کو روند ڈالنے کی قادیانیوں کی پالیسیوں سے نجات کے لئے اس کو ضرور بالضرور من و عن شائع و نشر کر کے مشکور فرمائیں۔ دیگر افراد بھی اپنے احباب و عزیز و اقارب تک اس پیغام کو لازماً پہنچائیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔
نوٹ: دنیا بھر کے تما م اخبارات ، رسائل و جرائد کے ایڈیٹرصاحبان/ انچارج آڈیو وڈیو، ریڈیو و پرنٹ میڈیا اس کالم کو خدا اور اسکے رسول ﷺ کی محبت کے تقاضوں اور ملکی سالمیت کے تحفظ اور دینی اقدار کو روند ڈالنے کی قادیانیوں کی پالیسیوں سے نجات کے لئے اس کو ضرور بالضرور من و عن شائع و نشر کر کے مشکور فرمائیں۔ دیگر افراد بھی اپنے احباب و عزیز و اقارب تک اس پیغام کو لازماً پہنچائیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔
Muntakhib Tehreer
کاش آپکی تحریر پڑھنے کے میں آسانی ہوتی۔کم از کم فونٹ تو صحیح کریں
ReplyDeleteجناب ایک گسٹاخانہ گزارش ہے۔
ReplyDeleteاتنی اہم تحریر کو اگر چند سطروں کا پیرا گراف بنا کر لگایا جائے تو پڑھنے میں آسانی ہوگی۔۔
امید ہے گستاخی کی معافی مل جائے گی۔
اس تحرير ميں کا ذکر نہيں
ReplyDelete1 ۔ 1953ء ميں لاہور ميں مارشل لاء لگا کر ختمِ نبوت کے 1300 علمبردار شہيد کئے گئے
2 ۔ 1947ء ميں لاکھوں مرزائيوں کے دستخطوں سے ايک قرارداد تاجِ برطانيہ کو بھيجی گئی تھی جس ميں مرزائيوں کی تاجِ برطانيہ کيلئے خدمات کا حوالہ دے کر اُنہيں قاديا ضلع گورداس پور دينے کا مطالبہ اس بنا پر کيا گيا تھا کہ مرزائی وہ والے مسلمان نہيں جيسا محمد علی جناح ہيں ۔ اس کے نتيجہ ميں اصول اور متفقہ فيصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع گورداس پور کو تقسيم کر کے آدھا بھارت ميں اس طرح شامل کيا گيا کہ بھارت کو جموں کشمير ميں داخل ہونے کا راستہ مہياء کيا
نوٹ ۔ ياسر صاحب کا مشورہ درست ہے ۔ اس مضمون کا خلاصہ بھی شائع کر ديں ۔ زيادہ تر قارئين کے پاس پڑھنے کا وقت کم ہوتا ہے
Ha ha ha ...Astagfirullah
ReplyDeleteI have looked for it on Google maps. It seems to be a well planned small town on the bank of Chenab but I cant see any mountains/ hills on the three sides, as you have mentioned.
ReplyDelete