یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان ، ہندوستان اکھٹے ہوا کرتے تھے، اور گورا راج یعنی انگریز حکمران برصغیر پاک و ہند پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا.انہی دنوں کی بات ہے کہ پنجاب کے ایک گاوں میں اچانک سے بلوا شروع ہوگیا، اس دنگا فساد میں مسلمان ایک طرف اور ہندو ایک طرف تھے. جب بات حد سے بڑھ گئی تو گورا پولیس کو مداخلت کرنی پڑی،
اس وقت میں پولیس متاثرہ علاقے میں ہی ایک کھلی کچہری لگا کر معاملہ سلجھانے کی کوشش کیا کرتی تھی پھر بھی اگر معاملہ رفعہ دفع نا ہوتا تو مزید کاروائی کی جاتی.
ایک گورے انسپکٹر نے فریقین کو اکھٹا کیا اور کہا کہ باری باری اپنا معاملہ پیش کریں. سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے امام مسجد نے کہا جناب! جب بھی ہم مسجد میں پانچ وقت آذان دیتے ہیں اسی وقت میں ہندو اپنے مندر میں بغل اور گھنٹیاں بجانا شروع کردیتے ہیں جس سے ہماری آذان کی بے حرمتی ہوتی ہے.
اب باری آئی ہندووں کی تو پنڈت نے کہا کہ جی ہم تو اپنے دیوی دیوتاوں کی سیوا کے لیئے اور خوش کرنے کے لیئے یہ سب کچھ کرتے ہیں، یہ مسلمان ویسے ہی لڑائی جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں.
انگریز بڑا پریشان ہوا کہ ایسا کیا عمل ہے جس پر لڑائی ہوجاتی ہے اور وقت کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، اس نے مسلمانوں کو کہا کہ آپ جو بھی پڑھتے ہو مجھے با آواز بلند پڑھ کر سناو......... جس کے جواب میں مولوی صاحب نے ادب سے کہا جناب!!! ہماری آذان کا مقرر وقت ہے اور ہم پانچ وقت ہی آذان پڑھتے ہیں نا پہلے نا بعد میں اس لیئے اگر آپ کو آذان سننی ہو تو مقررہ وقت پر تشریف لائیں. . . . اب انگریز سٹپٹا گیا...... اس نے ہندووں سے کہا کہ جو کچھ تم کرتے ہو کر کے دکھاو، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ہندووں نے فوراً سے مل کر الاپ شلاپ گانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ بِغل بجانے اور گھنٹیاں بجانی شروع کر دیں........ انگریز پولیس افسر بہت تلملایا اور اس نے حکم دیا،،،،،،
کہ ہندو جو بھی کرتے ہیں وہ کسی وقت بھی کر سکتے ہیں اس لیئے وہ یہ سب کچھ اس وقت کریں گے جب مسلمانوں کی آذان اور نماز کا وقت نہیں ہوگا
جبکہ مسلمانوں کے پانچ اوقات دن میں مقرر ہیں اس لیئے وہ اپنے مقررہ وقت پر آذان دیا کریں گے
No comments:
Post a Comment