تری یادوں سے چھن کر جب تری آواز آتی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے، تری تصویر گاتی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے، تری تصویر گاتی ہے
بچھڑ کر شاخ سے پتا ہَوا کے ہاتھ آیا ہے
کبھی اس کو گراتی ہے کبھی اس کو اٹھاتی ہے
کبھی اس کو گراتی ہے کبھی اس کو اٹھاتی ہے
یہی کافی نہیں، وہ مجھ سے دُکھ سُکھ بانٹ لیتی ہے
وگرنہ کوئی تتلی کاغذی پھولوں پہ آتی ہے
وگرنہ کوئی تتلی کاغذی پھولوں پہ آتی ہے
کوئی آواز اُٹھتی ہے مرئے اندر سے راتوں کو
سناتی ہے مجھے پریوں کے قصے اور سُلاتی ہے
سناتی ہے مجھے پریوں کے قصے اور سُلاتی ہے
مرا کوئی حوالہ موسوں کے پاس کیسے ہو
یہ دھرتی مجھ کو سوکھے گھاس کی صورت اُگاتی ہے
یہ دھرتی مجھ کو سوکھے گھاس کی صورت اُگاتی ہے
میں اپنے آپ کوچاروں طرف سے بند رکھتا ہوں
ہَوا آتی ہے تو پھر میرا ہر پٹ کھول جاتی ہے
ہَوا آتی ہے تو پھر میرا ہر پٹ کھول جاتی ہے
وہ بھولی ہے، وضاحت چاہتی ہے ہر اشارئے کی!
عجب لڑکی ہے رہ کر شہر میں بلکل دیہاتی ہے
عجب لڑکی ہے رہ کر شہر میں بلکل دیہاتی ہے
مجھے ویران کر دینا بڑا آسان ہے یوسف
جبھی تو وہ مجھے آواز دے کر بھول جاتی ہے!
جبھی تو وہ مجھے آواز دے کر بھول جاتی ہے!
No comments:
Post a Comment