5 Gazain | پانچ غذائیں
رخسانہ فظل
Thank you very much______________ http://www.urdudigest.pk
پچھلے ۱۰۰ برس کے دوران زراعت میں
انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ ان کی بدولت یہ ممکن ہوگیا کہ اناج، سبزیاں اور پھل
وسیع مقدا ر میں اُگائے جاسکیں۔ جب انسانوں کو خوراک وافر میسر آئی اور
بیماریوں کے علاج بھی دریافت ہوئے، تو ان کی تعداد بڑھنے لگی۔ چنانچہ آج
کرۂ ارض پر ۷ ارب سے زائد انسان آباد ہیں۔خوراک کی وسیع مقدار ہونے کے
باوجود اب بھی دنیا میں ہر چھے میں سے ایک انسان غذائی کمی کا شکار ہے۔
آبادی چونکہ مسلسل بڑھ رہی ہے، لہٰذا ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے ۲۰ برس بعد
مزید ۲۰ فیصد خوراک درکار ہوگی تاکہ سبھی انسان پیٹ بھر سکیں۔
دنیا میں پھیلی بھوک اور خوراک کی بڑھتی مانگ دیکھ کر سائنس داں کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ’’سپرغذائیں‘‘ تیار کریں۔ یہ ایسی غذائیں ہوں گی جو نہایت کم پانی یا قحط میں بھی اُگ سکیں گی۔ نیز عالمی گرمائو (گلوبل وارمنگ) کے منفی نتائج بھی ان پر اثر نہیں ڈالیں گے اور ساتھ ساتھ وہ صحت بخش بھی ہوں گی۔ یوں ان سپر غذائوں کے ذریعے انسان اس قابل ہوجائے گا کہ دنیا سے بھوک ختم کرسکے۔ذیل میں ایسی ہی ۵ سپرغذائوں کا تذکرہ پیش ہے جو مستقبل میں کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ گو ابھی ان پر تجربات جاری ہیں، لیکن عنقریب یہ لاکھوں کسانوں کی دسترس میں ہوں گی۔
زیرآب چاول
فرض کیجیے، آپ ایک کسان ہیں۔ آپ کئی ماہ محنت مشقت کرکے کھیت میں چاول اُگاتے ہیں تاکہ ۲۲ ارکان پر مشتمل اپنے خاندان کا پیٹ بھرسکیں لیکن کٹائی کا مرحلہ شروع ہونے سے کچھ پہلے اچانک سیلاب چاول کی ساری فصل تباہ کر دیتا ہے۔ مصطفی بنگلہ دیش کے گائوں رنگ پور کا باسی ہے۔ پچھلے ۵ میں سے ۴ برس کے دوران سیلابوں کی وجہ سے اس کی فصل کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا۔ مصطفیٰ کا کھیت ۶ ہیکٹر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ۲ ہیکٹر رقبہ عموماً زیرِآب رہتا ہے۔ یہ صرف مصطفیٰ کمال کا معاملہ نہیں، دنیا میں ہزارہا دیگر کسانوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال صرف بنگلہ دیش اور بھارت میں سیلاب ۴ لاکھ ٹن چاول تباہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ چاول ۳ کروڑ افراد کا پیٹ باآسانی بھر سکتے ہیں۔
لیکن اب یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔ فلپائن میں چاول کا بین الاقوامی تحقیقی مرکز واقع ہے۔ اس کے سائنسدانوں نے چاول کی ایسی قسم ایجاد کرلی ہے جو ۲ ہفتے تک پانی میں ڈوبے رہنے کے باوجود زندہ رہتی ہے۔ چاول کی سبھی اقسام زیر آب ہی نشوونما پاتی ہیں۔ لیکن ان کی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے… بیجوں سے پودا بہ سرعت پھوٹتا اور بلند ہوتا ہے تاکہ دھوپ تک رسائی پا سکے۔ اس عمل میں پودا بہت توانائی استعمال کرتا ہے اور اگر وہ ضرورت سے چند دن زائد زیرآب رہے تو ختم ہوجاتا ہے۔زیرآب چاول کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر سیلاب آجائے اور بیج یا پودے طویل عرصہ پانی میں ڈوبے رہیں، تو وہ خوابیدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ نشوونما پا کر وہ سطح آب تک پہنچ جائیں، تو فطری رفتار سے بڑھنے لگتے ہیں۔
چاول کی یہ قسم کیونکر وجود میں آئی، اس کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔ پہلے ماہرین نے چاول کی ایک قسم سے وہ جین حاصل کیا جس کی بدولت سیلاب اس پر منفی اثرات مرتب کرتا تھا۔ لیکن اس قسم کی پیداوار بہت کم تھی۔ ماہرین نے پھر وہ جین چاول کی ایسی قسم میں داخل کیا جو خوب پیداوار دیتی ہے، نیز اس کی فصل بھی عمدہ ہے۔ یوں ’’زیرآب چاول‘‘ ایجاد ہوا۔ زیرآب چاول کی تیاری میں ۳۰ برس لگے۔ دراصل اس تحقیق کے سربراہ اور انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق، ڈاکٹرڈیوڈ میکل نے ۱۹۸۰ء میں چاول کی ایسی قسم تیار کرنا چاہی تھی جو سیلاب کا مقابلہ کرسکے۔ لیکن تب سائنس ترقی یافتہ نہیں تھی۔ چنانچہ ایسی قسم نے جنم لیا جس کا ذائقہ بڑا تلخ تھا۔
ڈاکٹرڈیوڈ نے تاہم تجربے جاری رکھے اور آخر اس کی محنت رنگ لائی۔ مصطفی ان کسانوں میں شامل ہے جنھیں بطور تجربہ زیرآب چاول کے بیج دیے گئے۔ نتیجتاً ۲۰۰۹ء سے اس کی فصل میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوچکا۔ ظاہر ہے، اس کی آمدن بھی بڑھ گئی جس نے مصطفی کے اہل خانہ پر خوشگوار اثرات مرتب کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ چھے برس میں دنیا کے تقریباً ۲ کروڑ کسان خاندان چاول کی اس انقلابی قسم سے استفادہ کرنے لگیں گے۔
جادوئی کریلا
آپ کو شاید خبر نہ ہو کہ آج دنیا میں تقریباً ۳۰ کروڑ انسان ذیابیطس قسم دوم کا شکار ہیں اور ان میں سے ’’۸۰ فیصد لوگ‘‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں۔ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک مثلاً چین، بھارت اور برازیل کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے کہ وہاں لوگ طب و صحت کی بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی اور بھارتی گوشت و الم غلم غذا کھا کر فربہ ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ورزش نہ کرنا مزید ستم ڈھاتا ہے۔ مزیدبرآں افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک میں لوگ عموماً نشاستے والی غذا کھاتے ہیں۔ یوں انھیں حرارے تو وافر مل جاتے ہیں مگر مناسب غذائیت نہیں ملتی۔ انہی وجوہ کی بنا پر انسان جلد یا بدیر ذیابیطس کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اس مرض کا علاج سستا نہیں اور اگر انسولین استعمال کی جائے، تو خاصا خرچ آتا ہے۔ چنانچہ مناسب علاج نہ ملنے پر غریب چل بستے ہیں۔ مگر اب کریلا ان کی مدد کو آپہنچا ہے، وہی سبزی جسے بہت سے لوگ کڑوا ہونے کے باعث نہیں کھاتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکما پچھلے کئی برس سے ذیابیطس کے علاج میں کریلے استعمال کرا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر حضرات اس کی افادیت کے قائل نہ تھے۔ لیکن اب جدید سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ کریلے میں ذیابیطس کا مقابلہ کرنے والے کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کیمیکل ’’چرانتین‘‘ جو انسولین کا نظام بہتر بناتا ہے۔ پھر کریلے میں شامل خصوصی مرکبات ایک خاص پروٹین، اے ایم پی کے کو متحرک کرتے ہیں۔ یہی پروٹین ہمارے جسم میں گلوکوز کی سطح متوازن (نارمل) رکھتا ہے۔ کریلے میں لیکٹن پروٹین کی ایک قسم بھی ملتی ہے۔ یہ پروٹین ہمارے خون میں شکر کی سطح کم اور بھوک کنٹرول کرتا ہے۔ انہی اجزا کے باعث اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کریلے کی ایک پلیٹ کھانے سے وہی اثر جنم لیتا ہے جو ذیابیطس میں روزانہ کھائی جانے والی دوا، گلبن کلامائیڈ سے پیدا ہوتا ہے۔
آج کل تائیوان میں واقع عالمی نباتاتی مرکز کے ماہرین کریلے کی ۲۸۰ اقسام پر تجربات کر رہے ہیں۔ یہ اقسام پوری دنیا میں اگائی جاتی ہیں۔ ان تجربوں کا مدعا یہ ہے کہ آپس میں پارنسلیت سے ایسا ’’سپرکریلا‘‘ اگایا جائے جو بھرپور انداز میں ذیابیطس کے علاج میں کام آسکے۔ ماہرین کو قوی اُمید ہے کہ اگلے چار پانچ سال میں وہ ایسی ’’ذیابیطس توڑ‘‘ سبزی ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مونگ کی دال
ممکن ہے آپ کو مونگ کی دال پسند نہ ہو، لیکن پاک بھارت کے لاکھوں باشندوں کا یہ من بھاتا کھاجا ہے۔ مزید یہی دال لاکھوں مردوزن اور بچوں کو تندرست رکھنے میں بھی زبردست کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر قمر خان لاہور کے ممتاز معالج ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ہمارے معاشرے میں مردوں کا مقام سب سے اعلیٰ ہے۔ اسی لیے وہ سب سے پہلے کھانا کھاتے ہیں۔ جو بچ جائے، اس سے پھر عورتیں اور بچے پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن غرباء کے ہاں عموماً غذائیت سے عنقا کھانا پکتا ہے۔ اسی لیے بچوں کا مدافعتی نظام کمزور ہو کر بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ نتیجتاً ہر ۱۵ جنوبی ایشیائی بچوں میں سے ایک ۵ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔‘‘
خواتین اور بچوں کی اموات کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان کی خوراک میں فولاد نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان میں خون کی کمی جنم لیتی ہے، نیز نشوونما بخوبی نہیں ہوپاتی۔ مونگ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فولاد وافر مقدار میں ملتا ہے۔ لہٰذا یہ کم قیمت خوراک صحت مند رکھنے میں غریبوں کی مدد کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کاشتکاروں کی اکثریت دال مونگ کاشت نہیں کرتی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی فصل ۱۱۰ دن میں تیار ہوتی جبکہ پیداوار بھی واجبی رہتی۔ پھر معمولی منفی اثرات بھی فصل تباہ کر دیتے۔
اس صورتِ حال میں عالمی نباتاتی مرکز کے سائنس دانوں نے دال مونگ کی تمام اقسام کو بھی پارنسلیت کے عمل سے گزارا۔ آخر ۵ سال قبل وہ ایسی قسم دریافت کرنے میں کامیاب رہے جس کی فصل نشوونما پانے میں صرف ۵۵ دن لگاتی ہے۔ نیز اس کی پیداوار بھی عمدہ ہے۔ مزیدبرآں اس کا سخت ڈوڈا پودے کے اوپر لگتا ہے تاکہ اسے باآسانی توڑا جاسکے۔ اس قسم کے بہترین بیج ایشیا بھر میں ۱۵ لاکھ کسانوں کو تقسیم کیے جا چکے۔ یوں دال مونگ کی پیداوار میں ۳۵ فیصد اضافہ ہوگیا۔ آج کل عالمی نباتاتی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹرجیکولیسن ہیوگز بھارت میں دال مونگ کی یہ قسم مقبول بنانے کی مہم پر ہیں۔ وہ پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ویت نام بھی جائیں گے۔
کیلا
وسطی اور مشرقی افریقہ کے کئی ممالک میں کیلا آبادی کی اہم خوراک ہے۔ مزیدبرآں ان ملکوں کے تقریباً ۵ کروڑ چھوٹے کسانوں کا روزگار بھی اس پھل سے وابستہ ہے جو قیمتی معدنیات و حیاتین رکھتا ہے۔ لیکن ۲۰۰۱ء میں ان چھوٹے کسانوں پر ایک قدرتی آفت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یہ کہ ایک نئے مرض، بنانا زنتھونونس ولٹ نامی نے کیلوں کے سیکڑوں باغات تباہ کرڈالے۔ یہ پہلے پہل یوگنڈا میں سامنے آیا اور پھر کانگو، کینیا، روانڈا اور تنزانیہ تک پھیل گیا۔ اس مرض میں گرفتار ہو کر کیلا اتنا سڑ جاتا کہ کھانے کے قابل نہ رہتا۔
اس نباتاتی مرض کی وجہ سے ہزارہا کسانوں کی آمدن آدھی رہ گئی۔ کئی قرضوں اور غربت میں جکڑے گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء سے یہ قدرتی آفت ہر سال کیلوں کے باغات پر حملہ کرتی اور انھیں تباہ و برباد کردیتی ہے۔ کیلے کی تمام اقسام اس نباتی بیماری سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ چنانچہ ماہرین نباتیات نے فیصلہ کہا کہ ’’سپرکیلے‘‘ کی قسم تیار کی جائے۔ اس ضمن میں نائیجیریا میں واقع انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹروپیکل ایگری کلچر اور یوگنڈا کے قومی ادارہ برائے زرعی تحقیق کے ماہرین مل کر تجربات کرنے لگے۔
ایک تجربے میں انھوں نے سرخ مرچ کی قسم، فلفل دراز سے جینیاتی مواد لیا اور اُسے کیلے کی ایک مشہور قسم کے پودے میں شامل کردیا۔ اس جینیاتی مواد نے بہت جلد پودے میں موجود بنانا زنتھومونس ولٹ کے جراثیم مار ڈالے۔ سائنس دان اب فلفل دراز کا جینیاتی مواد رکھنے والے کیلے کا بیج تیار کرنے کی کوششوں میں محو ہیں۔ انھیں اُمید ہے کہ کیلے کی یہ نئی قسم اگلے ۳ سال میں چھوٹے افریقی کسانوں کو مل جائے گی۔
مکئی
آج دنیا کے کئی ممالک میں تبدیل ہوتی آب و ہوا قدرتی آفات لانے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ کے غریب ترین ۳۰ کروڑ باسی مکئی کھا کر پیٹ بھرتے اور زندہ رہتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ بدلتی آب و ہوا سے جنم لیتے قحط ۲۰۵۰ء تک افریقہ میں مکئی کی پیداوار ۱۰ تا ۱۵ فیصد کم کردیں گے۔
اسی آمدہ خطرے کو مدنظر رکھ کر فرانس میں واقع انٹرنیشنل ایگری کلچر ریسرچ سنٹر کے ماہرین مکئی کی مختلف اقسام پر پارنسلیت کے تجربے کرنے لگے۔ مدعا یہ تھا کہ ایسی قسم تیار ہوجائے جو نہایت کم بارش یا پانی میں بھی اُگ سکے۔
آخر اُنھیں ۲۰۱۰ء میں کامیابی ملی اور ’’سپر مکئی‘‘ کے بیج تیار کر لیے گئے۔ پچھلے سال ماہِ فروری میں یہ ہائی ٹیک بیج کینیا میں سیکڑوں کسانوں کو دیے گئے۔ دراصل کینیا تب شدید قحط کا شکار تھا۔ کئی علاقوں میں مکئی کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ سپرمکئی کے بیجوں نے واقعی کمال کردکھایا اور بہت کم پانی سے بھی فصل تیار ہوگئی۔ کینیا کا ایک کسان، فلپ نگولانیا کہتا ہے ’’اب میرے کھیت میں ۳۶۰ کلو مکئی پیدا ہوئی ہے۔ یہ اگلے ۹ ماہ تک میرا اور میرے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر یہ بیج مجھے نہ ملتے، تو یقینا میں بھی کئی کسانوں کی طرح مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتا۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ قحط کا مقابلہ کرنے والی مکئی کی قسم اس اناج کی پیداوار ۳۰ فیصد تک بڑھا دے گی۔ یوں قحط کے باعث افریقہ پر بھوک کا جو خطرہ منڈلا رہا تھا، وہ ختم ہوگیا۔
دنیا میں پھیلی بھوک اور خوراک کی بڑھتی مانگ دیکھ کر سائنس داں کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ’’سپرغذائیں‘‘ تیار کریں۔ یہ ایسی غذائیں ہوں گی جو نہایت کم پانی یا قحط میں بھی اُگ سکیں گی۔ نیز عالمی گرمائو (گلوبل وارمنگ) کے منفی نتائج بھی ان پر اثر نہیں ڈالیں گے اور ساتھ ساتھ وہ صحت بخش بھی ہوں گی۔ یوں ان سپر غذائوں کے ذریعے انسان اس قابل ہوجائے گا کہ دنیا سے بھوک ختم کرسکے۔ذیل میں ایسی ہی ۵ سپرغذائوں کا تذکرہ پیش ہے جو مستقبل میں کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ گو ابھی ان پر تجربات جاری ہیں، لیکن عنقریب یہ لاکھوں کسانوں کی دسترس میں ہوں گی۔
زیرآب چاول
فرض کیجیے، آپ ایک کسان ہیں۔ آپ کئی ماہ محنت مشقت کرکے کھیت میں چاول اُگاتے ہیں تاکہ ۲۲ ارکان پر مشتمل اپنے خاندان کا پیٹ بھرسکیں لیکن کٹائی کا مرحلہ شروع ہونے سے کچھ پہلے اچانک سیلاب چاول کی ساری فصل تباہ کر دیتا ہے۔ مصطفی بنگلہ دیش کے گائوں رنگ پور کا باسی ہے۔ پچھلے ۵ میں سے ۴ برس کے دوران سیلابوں کی وجہ سے اس کی فصل کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا۔ مصطفیٰ کا کھیت ۶ ہیکٹر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ۲ ہیکٹر رقبہ عموماً زیرِآب رہتا ہے۔ یہ صرف مصطفیٰ کمال کا معاملہ نہیں، دنیا میں ہزارہا دیگر کسانوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال صرف بنگلہ دیش اور بھارت میں سیلاب ۴ لاکھ ٹن چاول تباہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ چاول ۳ کروڑ افراد کا پیٹ باآسانی بھر سکتے ہیں۔
لیکن اب یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔ فلپائن میں چاول کا بین الاقوامی تحقیقی مرکز واقع ہے۔ اس کے سائنسدانوں نے چاول کی ایسی قسم ایجاد کرلی ہے جو ۲ ہفتے تک پانی میں ڈوبے رہنے کے باوجود زندہ رہتی ہے۔ چاول کی سبھی اقسام زیر آب ہی نشوونما پاتی ہیں۔ لیکن ان کی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے… بیجوں سے پودا بہ سرعت پھوٹتا اور بلند ہوتا ہے تاکہ دھوپ تک رسائی پا سکے۔ اس عمل میں پودا بہت توانائی استعمال کرتا ہے اور اگر وہ ضرورت سے چند دن زائد زیرآب رہے تو ختم ہوجاتا ہے۔زیرآب چاول کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر سیلاب آجائے اور بیج یا پودے طویل عرصہ پانی میں ڈوبے رہیں، تو وہ خوابیدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ نشوونما پا کر وہ سطح آب تک پہنچ جائیں، تو فطری رفتار سے بڑھنے لگتے ہیں۔
چاول کی یہ قسم کیونکر وجود میں آئی، اس کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔ پہلے ماہرین نے چاول کی ایک قسم سے وہ جین حاصل کیا جس کی بدولت سیلاب اس پر منفی اثرات مرتب کرتا تھا۔ لیکن اس قسم کی پیداوار بہت کم تھی۔ ماہرین نے پھر وہ جین چاول کی ایسی قسم میں داخل کیا جو خوب پیداوار دیتی ہے، نیز اس کی فصل بھی عمدہ ہے۔ یوں ’’زیرآب چاول‘‘ ایجاد ہوا۔ زیرآب چاول کی تیاری میں ۳۰ برس لگے۔ دراصل اس تحقیق کے سربراہ اور انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق، ڈاکٹرڈیوڈ میکل نے ۱۹۸۰ء میں چاول کی ایسی قسم تیار کرنا چاہی تھی جو سیلاب کا مقابلہ کرسکے۔ لیکن تب سائنس ترقی یافتہ نہیں تھی۔ چنانچہ ایسی قسم نے جنم لیا جس کا ذائقہ بڑا تلخ تھا۔
ڈاکٹرڈیوڈ نے تاہم تجربے جاری رکھے اور آخر اس کی محنت رنگ لائی۔ مصطفی ان کسانوں میں شامل ہے جنھیں بطور تجربہ زیرآب چاول کے بیج دیے گئے۔ نتیجتاً ۲۰۰۹ء سے اس کی فصل میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوچکا۔ ظاہر ہے، اس کی آمدن بھی بڑھ گئی جس نے مصطفی کے اہل خانہ پر خوشگوار اثرات مرتب کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ چھے برس میں دنیا کے تقریباً ۲ کروڑ کسان خاندان چاول کی اس انقلابی قسم سے استفادہ کرنے لگیں گے۔
جادوئی کریلا
آپ کو شاید خبر نہ ہو کہ آج دنیا میں تقریباً ۳۰ کروڑ انسان ذیابیطس قسم دوم کا شکار ہیں اور ان میں سے ’’۸۰ فیصد لوگ‘‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں۔ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک مثلاً چین، بھارت اور برازیل کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے کہ وہاں لوگ طب و صحت کی بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی اور بھارتی گوشت و الم غلم غذا کھا کر فربہ ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ورزش نہ کرنا مزید ستم ڈھاتا ہے۔ مزیدبرآں افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک میں لوگ عموماً نشاستے والی غذا کھاتے ہیں۔ یوں انھیں حرارے تو وافر مل جاتے ہیں مگر مناسب غذائیت نہیں ملتی۔ انہی وجوہ کی بنا پر انسان جلد یا بدیر ذیابیطس کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اس مرض کا علاج سستا نہیں اور اگر انسولین استعمال کی جائے، تو خاصا خرچ آتا ہے۔ چنانچہ مناسب علاج نہ ملنے پر غریب چل بستے ہیں۔ مگر اب کریلا ان کی مدد کو آپہنچا ہے، وہی سبزی جسے بہت سے لوگ کڑوا ہونے کے باعث نہیں کھاتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکما پچھلے کئی برس سے ذیابیطس کے علاج میں کریلے استعمال کرا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر حضرات اس کی افادیت کے قائل نہ تھے۔ لیکن اب جدید سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ کریلے میں ذیابیطس کا مقابلہ کرنے والے کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کیمیکل ’’چرانتین‘‘ جو انسولین کا نظام بہتر بناتا ہے۔ پھر کریلے میں شامل خصوصی مرکبات ایک خاص پروٹین، اے ایم پی کے کو متحرک کرتے ہیں۔ یہی پروٹین ہمارے جسم میں گلوکوز کی سطح متوازن (نارمل) رکھتا ہے۔ کریلے میں لیکٹن پروٹین کی ایک قسم بھی ملتی ہے۔ یہ پروٹین ہمارے خون میں شکر کی سطح کم اور بھوک کنٹرول کرتا ہے۔ انہی اجزا کے باعث اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کریلے کی ایک پلیٹ کھانے سے وہی اثر جنم لیتا ہے جو ذیابیطس میں روزانہ کھائی جانے والی دوا، گلبن کلامائیڈ سے پیدا ہوتا ہے۔
آج کل تائیوان میں واقع عالمی نباتاتی مرکز کے ماہرین کریلے کی ۲۸۰ اقسام پر تجربات کر رہے ہیں۔ یہ اقسام پوری دنیا میں اگائی جاتی ہیں۔ ان تجربوں کا مدعا یہ ہے کہ آپس میں پارنسلیت سے ایسا ’’سپرکریلا‘‘ اگایا جائے جو بھرپور انداز میں ذیابیطس کے علاج میں کام آسکے۔ ماہرین کو قوی اُمید ہے کہ اگلے چار پانچ سال میں وہ ایسی ’’ذیابیطس توڑ‘‘ سبزی ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مونگ کی دال
ممکن ہے آپ کو مونگ کی دال پسند نہ ہو، لیکن پاک بھارت کے لاکھوں باشندوں کا یہ من بھاتا کھاجا ہے۔ مزید یہی دال لاکھوں مردوزن اور بچوں کو تندرست رکھنے میں بھی زبردست کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر قمر خان لاہور کے ممتاز معالج ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ہمارے معاشرے میں مردوں کا مقام سب سے اعلیٰ ہے۔ اسی لیے وہ سب سے پہلے کھانا کھاتے ہیں۔ جو بچ جائے، اس سے پھر عورتیں اور بچے پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن غرباء کے ہاں عموماً غذائیت سے عنقا کھانا پکتا ہے۔ اسی لیے بچوں کا مدافعتی نظام کمزور ہو کر بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ نتیجتاً ہر ۱۵ جنوبی ایشیائی بچوں میں سے ایک ۵ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔‘‘
خواتین اور بچوں کی اموات کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان کی خوراک میں فولاد نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان میں خون کی کمی جنم لیتی ہے، نیز نشوونما بخوبی نہیں ہوپاتی۔ مونگ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فولاد وافر مقدار میں ملتا ہے۔ لہٰذا یہ کم قیمت خوراک صحت مند رکھنے میں غریبوں کی مدد کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کاشتکاروں کی اکثریت دال مونگ کاشت نہیں کرتی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی فصل ۱۱۰ دن میں تیار ہوتی جبکہ پیداوار بھی واجبی رہتی۔ پھر معمولی منفی اثرات بھی فصل تباہ کر دیتے۔
اس صورتِ حال میں عالمی نباتاتی مرکز کے سائنس دانوں نے دال مونگ کی تمام اقسام کو بھی پارنسلیت کے عمل سے گزارا۔ آخر ۵ سال قبل وہ ایسی قسم دریافت کرنے میں کامیاب رہے جس کی فصل نشوونما پانے میں صرف ۵۵ دن لگاتی ہے۔ نیز اس کی پیداوار بھی عمدہ ہے۔ مزیدبرآں اس کا سخت ڈوڈا پودے کے اوپر لگتا ہے تاکہ اسے باآسانی توڑا جاسکے۔ اس قسم کے بہترین بیج ایشیا بھر میں ۱۵ لاکھ کسانوں کو تقسیم کیے جا چکے۔ یوں دال مونگ کی پیداوار میں ۳۵ فیصد اضافہ ہوگیا۔ آج کل عالمی نباتاتی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹرجیکولیسن ہیوگز بھارت میں دال مونگ کی یہ قسم مقبول بنانے کی مہم پر ہیں۔ وہ پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ویت نام بھی جائیں گے۔
کیلا
وسطی اور مشرقی افریقہ کے کئی ممالک میں کیلا آبادی کی اہم خوراک ہے۔ مزیدبرآں ان ملکوں کے تقریباً ۵ کروڑ چھوٹے کسانوں کا روزگار بھی اس پھل سے وابستہ ہے جو قیمتی معدنیات و حیاتین رکھتا ہے۔ لیکن ۲۰۰۱ء میں ان چھوٹے کسانوں پر ایک قدرتی آفت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یہ کہ ایک نئے مرض، بنانا زنتھونونس ولٹ نامی نے کیلوں کے سیکڑوں باغات تباہ کرڈالے۔ یہ پہلے پہل یوگنڈا میں سامنے آیا اور پھر کانگو، کینیا، روانڈا اور تنزانیہ تک پھیل گیا۔ اس مرض میں گرفتار ہو کر کیلا اتنا سڑ جاتا کہ کھانے کے قابل نہ رہتا۔
اس نباتاتی مرض کی وجہ سے ہزارہا کسانوں کی آمدن آدھی رہ گئی۔ کئی قرضوں اور غربت میں جکڑے گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء سے یہ قدرتی آفت ہر سال کیلوں کے باغات پر حملہ کرتی اور انھیں تباہ و برباد کردیتی ہے۔ کیلے کی تمام اقسام اس نباتی بیماری سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ چنانچہ ماہرین نباتیات نے فیصلہ کہا کہ ’’سپرکیلے‘‘ کی قسم تیار کی جائے۔ اس ضمن میں نائیجیریا میں واقع انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹروپیکل ایگری کلچر اور یوگنڈا کے قومی ادارہ برائے زرعی تحقیق کے ماہرین مل کر تجربات کرنے لگے۔
ایک تجربے میں انھوں نے سرخ مرچ کی قسم، فلفل دراز سے جینیاتی مواد لیا اور اُسے کیلے کی ایک مشہور قسم کے پودے میں شامل کردیا۔ اس جینیاتی مواد نے بہت جلد پودے میں موجود بنانا زنتھومونس ولٹ کے جراثیم مار ڈالے۔ سائنس دان اب فلفل دراز کا جینیاتی مواد رکھنے والے کیلے کا بیج تیار کرنے کی کوششوں میں محو ہیں۔ انھیں اُمید ہے کہ کیلے کی یہ نئی قسم اگلے ۳ سال میں چھوٹے افریقی کسانوں کو مل جائے گی۔
مکئی
آج دنیا کے کئی ممالک میں تبدیل ہوتی آب و ہوا قدرتی آفات لانے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ کے غریب ترین ۳۰ کروڑ باسی مکئی کھا کر پیٹ بھرتے اور زندہ رہتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ بدلتی آب و ہوا سے جنم لیتے قحط ۲۰۵۰ء تک افریقہ میں مکئی کی پیداوار ۱۰ تا ۱۵ فیصد کم کردیں گے۔
اسی آمدہ خطرے کو مدنظر رکھ کر فرانس میں واقع انٹرنیشنل ایگری کلچر ریسرچ سنٹر کے ماہرین مکئی کی مختلف اقسام پر پارنسلیت کے تجربے کرنے لگے۔ مدعا یہ تھا کہ ایسی قسم تیار ہوجائے جو نہایت کم بارش یا پانی میں بھی اُگ سکے۔
آخر اُنھیں ۲۰۱۰ء میں کامیابی ملی اور ’’سپر مکئی‘‘ کے بیج تیار کر لیے گئے۔ پچھلے سال ماہِ فروری میں یہ ہائی ٹیک بیج کینیا میں سیکڑوں کسانوں کو دیے گئے۔ دراصل کینیا تب شدید قحط کا شکار تھا۔ کئی علاقوں میں مکئی کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ سپرمکئی کے بیجوں نے واقعی کمال کردکھایا اور بہت کم پانی سے بھی فصل تیار ہوگئی۔ کینیا کا ایک کسان، فلپ نگولانیا کہتا ہے ’’اب میرے کھیت میں ۳۶۰ کلو مکئی پیدا ہوئی ہے۔ یہ اگلے ۹ ماہ تک میرا اور میرے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر یہ بیج مجھے نہ ملتے، تو یقینا میں بھی کئی کسانوں کی طرح مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتا۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ قحط کا مقابلہ کرنے والی مکئی کی قسم اس اناج کی پیداوار ۳۰ فیصد تک بڑھا دے گی۔ یوں قحط کے باعث افریقہ پر بھوک کا جو خطرہ منڈلا رہا تھا، وہ ختم ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment