Thursday, 21 August 2014

سپاہی مقبول حسین

 
 
17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں-

https://www.facebook.com/photo.php?v=276230809238419
 

Saturday, 2 August 2014

ریلوے سٹیشن ـــــ Railway Station

یہ میرا گاوں نہیں ، نا ہی میرے گاوں سے ریل کی پٹری گزرتی ہے نا ہی وہاں اسٹیشن ہے۔ پھر بھی مجھے ریل، ریل کی پٹری اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشن بہت اچھے لگے ہیں۔
 
ایک ٹرین اس کی پٹڑی اور اس کا اسٹیشن کیسی قدامت بستی ہے ان میں، کیسا سُر تال ہے کیسا میل جول ہے ان کا۔
 
یہ ایک گاوں کا چھوٹا سا سٹیشن ہے، گاوں کی طرف سے آنیوالا کچا راستہ جو کھیتوں سے گھرا ہوا ہے اور جس کے ایک طرف میں ایک چھوٹی سی نہر ہے جس نہر پر ساتھ ساتھ ٹاہلی اور کیکر کے پیڑ ہیں، بیچ بیچ میں کہیں کہیں ایک آدھ پیپل کا پیڑ کسی ٹیوب ویل کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جو اپنی قدیم وضع قطع سے بہت ہیں بزرگ دکھائی دیتا ہے، اس کے نیچے بان کی چارپائیوں پر بیٹھے بزرگ جو حقہ کے گڑ گڑ میں نا جانے بچھلی آدھ صدی کے کونسے قصے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔
 
اس کچے راستے کے ساتھ ساتھ بہتی یہ چھوٹی سی نہر جو گرمی سردی گاوں کے باسیوں کو زندگی کا احساس دلائے رواں دواں ہے آگے جا کر سیدھی طرف مڑ جاتی ہے اور کچی سڑک کو خیر آباد کہہ دیتی ہے۔ پھر یہ پنجاب کی دھرتی میں ایسے گم ہو جاتی ہے جیسے ایک چھوٹا بچا ٹھنڈے پانی سے نہا کر کانپتا ہوا اپنی ماں کی آغوش میں چھپ جاتا ہو۔
 
اب یہ تنہا راستہ اپنی اداس تنہائی کے ساتھ ریلوئے اسٹیشن پر جا کر دو شاخہ ہو جاتا ہے جس کا ایک سرا تو ختم ہو جاتا ہے جہاں پر کچھ ٹھیلے، ایک دو پرانی خستہ حال دکانیں اور ایک چائے کا صدا بہار ہوٹل ہے۔ جبکہ دوسرا سِرا اسٹیشن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اکلوتےریلوئے پھاٹک کو پھاندتا ہوا ریلوئے ٹریک کی دوسری طرف کھیتوں کے سلسلوں کو چیرتا ہوا ایسے چلا جاتا ہے جیسے کسی سرحد کو عبور کر رہا ہو۔
ٹھیلے والے صبح سویرے اپنی اپنی بنائی ہوئی چیزیں لیکر آدھر آ جاتے ہیں پھیری بھی لگا لیتے ہیں اور باقی سارا دن ادھر ریلوے اسٹیشن کی رونق میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔  جس میں پتیسا، ریوڑیاں، دال موٹھ، کھٹے چپس اور بہت ساری چیزیں ملتی ہیں۔ پھر باری آتی ہے گنے کے جوس والے کی، جس کا کام کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں لہٰذا وہ گرمی کے موسم میں گنے کا جوس بیچتا ہے اور سردی کے موسم میں چھلیاں بھون بھون کر بیچتا ہے۔ اس سے زرا پرے کچی دکانوں میں پہلی دکان ایک عدد نائی یعنی حجام کی ہے جو گاوں کا واحد حجام بھی ہے اور شادی بیاہ پر دیگ پکانے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ دوسری دکان حلوائی کی ہے جو کہ دھول مٹی اور مکھیوں کے جھمگٹوں کے ساتھ سال ہا سال سے اپنی مٹھایاں بنانے اور بیچنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے آگے گاوں کا واحد ، اکلوتا لاج دلارا چھپر ہوٹل ہے جس پر صبح تڑکے سے لیکر رات دیر تک چائے سمیت ہر قسم کا کھانا ملتا ہے۔
 
پھر ریلوئے اسٹیشن کی پرانی مگر خوبصورت لمبی سیڑھیاں ہیں جہاں سے اسٹیشن کی مرکزی عمارت میں داخل ہوا جاتا ہے۔ داخلی برآمدئے میں الٹی طرف ایک بنچ ہے اورسیدھی طرف قدیم ترین نلکا جس کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پنجاب کی دھرتی کی مٹھاس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
 
سیدھی طرف ٹکٹ والا کمرہ اور اس کی چھوٹی سی کھڑکی ہے۔ دوسری طرف اکلوتا ڈاک خانہ ہے جو پرانے فرنیچر کے ساتھ ساتھ پرانے ڈبوں نما طاقوں سے بھرا پڑا ہے جو کسی زمانے میں ڈاک کے باقاعدہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔
 
آگے بڑھیں تو ایک عدد پھاٹک نما دروازہ ہے جس پر کبھی کبھار مسافروں کے رش ہونے کی صورت میں ریلوئے کا ایک ملازم ٹکٹ چیک کر نے کی غرض سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سے گزر کر آگے دیکھیں تو سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف آپ کو پلیٹ فارم ملے گا، جو اپنی صفائی اور خوبصورتی میں کمال رکھتا ہے۔
 
زیادہ بڑا اسٹین نہیں لیکن پھر بھی اس پر چار بنچ لگائے گئے ہیں جو مسافروں کے انتظار گاہ بھی ہے ، دونوں اطراف میں جہاں سے پلیٹ فارم شروع ہوتاہے وہاں پر بھی خوبصورت لال گلاب کے جھاڑی نما پودے ہیں اور جہاں ختم ہوتا ہے وہاں پر بھی، سیدھے طرف لگے ہوئے جامن کے پیڑ بہت ہی خوبصورت ہیں اور اپنی بلندی کی وجہ سے اسٹیشن پر اکثر سایا کئے رہتے ہیں۔ اسٹیشن کی دوسری طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برگد کے دو بڑئے درخت ہیں جنھہوں نے اپنی قدیم عمر اور بزرگی سے اس اسٹیشن کو رونق بھی بخشی ہوئی ہے اور خوبصورتی بھی، ان سے پرئے لہلاتے کھیتوں کا نا ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے۔
 
ریلوئے اسٹیشن کے ساتھ قابل زکر و قدر وہ چند چھوٹے چھوٹے خوبصورت کوارٹر تھے جو اس ریلوئے اسٹیشن اور ڈاک خانے کے ملازمین لئیے سرکار کی طرف سے دئیے گئے تھے۔ جن کے آگے چھوٹے چھوٹے باغیچہ نما لان تھے جن میں باڑیں بھی تھیں اور اہل مکین ان میں سبزیاں بھی اگاتے تھے، اسٹیشن ماسٹر نے اپنے کوارٹر کے اگے بہت صاف لان بنایا ہواتھا جس میں اکثر وہ بیٹھ کر چائے کے ساتھ ساتھ پچھلے ہفتے کے اخبارات کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
 
سامنے ہی کچھ فاصلے پر کھیت تھے جن میں لگے ٹیوب ویل جب چلتے تو دل کو لبھا دینے والے نغمے جنم لیتے تھے۔ انہی نغموں میں جب آنیوالی ٹرین کی چھک چھک کوں کوں شامل ہو جاتی تو ایک عجب سا راگ پیدا ہوتا جو چند منٹوں کے بعد ختم ہو کر پھر نغمہ بن جاتا۔
 
شاید یہ سارا خوبصورت منظر اپنے ان نظاروں اور نغموں کے ساتھ صدیوں سے صدیوں تک چلتا رہے۔
 
یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور سہانا منظر ہے جو میرے دل میں ثبت ہو چکا ہے۔
 
ریلوئے سٹیشن ، ایک عہد ایک یادگار ایک داستان اور ایک تاریخ۔
 
از راشد ادریس رانا: 01آگست 2014۔