جارج میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور کچھ تشویش سے مشین کی ڈرائینگ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک طویل سانس لیتے ہوئے اس نے کچھ لکھنا شروع کیا۔ اسی دوران میں اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا وہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکا تھا اور شاید اگر وہ انگریز نا ہوتا تو اب تک موت کامنتظر ہوتا۔ لیکن رشک ہے ان لوگوں پر کہ آخری دم تک کام کرتے رہتے ہیں۔ انہی سوچوں میں گم مجھے اس کے آواز سنائی دی، جس میں بہت مایوسی اور پریشانی تھی۔ مجھے لگا شاید کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے میں نے گلہ صاف کیا اور اس سے گویا ہوا،
جارج لگتا ہے بہت پریشان ہو؟
اس نے اپنے مخصوص ، مہذب بھرے لہجے میں دو تین گالیاں دیں، اب پتا نہیں مجھے دیں یا کس کو دیں اور بولا۔
پریشان کیوں نا ہوں، کپمنی کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے، نا جانے کب بند ہوجائے۔
مجھے حیرت ہوئی ، کیوں کہ اس کی کمپنی کی مشینری ہماری کپمنی میں استعمال ہو رہی تھی اور جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ یورپ سے آ جاتا اور اچھی خاصی کمائی بھی کر جاتا اور کمپنی کے خرچے پہ عیاشی بھی کرتا۔
مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے اس کو پوچھا کیوں بھئی کپمنی اتنی اچھی چل رہی ہے پھر بند کیسے ہوگی؟ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولا، لگتا ہے تمہیں پوری بات بتانی پڑے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ کمپنی میں لیبر یعنی مزدور آئے دن ہڑتال کر دیتے ہیں اور کام بند کردیتے ہیں ایک تو پہلے ہی لیبر بہت مہنگی ہے اور اوپر سے کام بند کی وجہ سے کمپنی کی حالت کافی پتلی ہے۔ اس لیئے حالات کافی خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
میں نے کہا بھائی، تو اس میں کونسا بڑا مسئلہ ہے، تم لوگ لیبر پاکستان، انڈیا ، بنگلہ دیش سے لے لو، تمہیں بہت سستی پڑے گی اور لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری کمپنی میں آئیں گے۔
میری بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا لگتا ہے کہ تم زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو چھوڑ کر باہر سے بندے نہیں لا سکتے۔ لیکن اپنے ملک میں یہ حال ہے کہ نوجوان نسل کام کرنے کو تیار نہیں اور پہلے لوگ کتنا اور کب تک سب کچھ چلائیں گے، زیادہ سے زیادہ پانچ دس سال میں ہم لوگوں کے پاس پراڈکشن بہت کم رہ جائے گی اور انڈسٹریاں گھاٹے میں جانے لگیں گیں۔
اب میرے دل میں پھر سوال اٹھا، کہ جارج یہ نوجوان کام کرنے کو کیوں تیار نہیں؟
اس نے آٹھ دس ننگی گالیاں دیتے ہوئے کہا۔ اصل میں تعلیمی اعتبار سے نوجوان ڈگریاں لیے ہوئے ہیں۔ اب وہ لیبر کے کام میں تو آتے نہیں، تو پھر سٹاف یعنی وائٹ کالر کام میں کتنے لوگ رکھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پہ نوجوانوں نے ایک اور کام پکڑا ہوا ہے۔ وہ پڑھائی کے بعد کہیں نا کہیں جاب کر لیتے ہیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ وہاں پر کوئی ایسا کام کرتے ہیں یا اپنے باس وغیرہ سے لڑائی کرتے ہیں اور مجبوراَ کپمنی ان کو ٹرمینیٹ کردیتی ہے، اس کاغذ کو لیکر وہ سرکار کے پاس جاتے ہیں اور سرکار ان کو بے روزگاری الاونس دینا شروع کردیتی ہے جب تک کہ ان کو کوئی موزوں نوکری نا مل جائے۔ اور نوکری انہوں نے کرنی نہیں ہوتی۔ اس بےروزگاری الاونس کو وہ اپنے مہینے کے اخراجات اور عیاشیوں کے لیئے وقف کر کے ، کچھ کئے بغیر مزے کرتے ہیں۔
جس جگہ نوجوانوں کی حالت ایسی ہو وہاں کوئی کام کیسے اور کب تک چلے گا۔
میں اس کی باتیں سنتا اور دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ میں شیخوپورہ کے ایک کالج کا منظر تھا۔
بے اے پارٹ ٹو کی کلاس اور سب طالب علم انگلش کے پیریڈ میں اکتاہٹ کا شکار بیٹھے ہوئے تھے آج ان کے پروفیسر کی آخری کلاس تھی ویسے تو ان کو اس پروفیسر کا پڑھایا ہوا سمجھ نہیں آتا تھا لیکن آج تو وہ دعائیں کر رہے تھے کہ جلدی جان چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ پروفیسر صاحب کو چھٹیاں جانا تھا۔
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی سب سٹوڈنٹ اکھٹے ہو کر پرنسپل کے کمرے میں چلے گئے تاکہ ان سے انگریزی کے عارضی پروفیسر کے بارے میں پوچھ سکیں، پرنسپل صاحب نے مایوسی سے بتایا کہ ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا، جس پر طالب علم کافی برہم ہوئے کیوں کہ امتحانات ہونے والے تھے اور انگریزی ایک اہم مضمون تھا۔
یہی بحث جاری تھی کہ پرنسپل کا چپڑاسی چائے لیکر ان کے کمرے میں داخل ہوا، اور پرنسپل صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے ایک طرف مودب کھڑا ہوگیا، سب نے اس کی طرف ایک عارضی سی نظر ڈالی اور بحث کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، سب اسی بحث میں تھے کہ اس نوجوان چپڑاسی نے مودب انداز میں پرنسپل سے مخاطب ہو کر کہا، سر اگر بہت زیادہ پرابلم ہے اور کوئی انتظام نہیں ہو رہا تو کیا میں ان کی انگریزی کی کلاس لے لیا کروں۔
پرسنپل سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے پتا نہیں کتنی ساعتیں کمرےمیں خاموشی طاری رہی پھر اس کے بعد پرنسپل صاحب نے قدرے برہمی سے کہا دیکھو عبید الرحمٰن (فرضی نام) ہم مذاق نہیں ایک بہت اہم بات پر بحث کر رہے ہیں، اور یہ سب بی اے فائنل ائیر کے طالب علم ہیں کوئی نرسری کے نہیں۔
لیکن عبید الرحمٰن نے زور دیتے ہوئے کہا سر ایسی بات نہیں آپ مجھے ایک چانس دیں میں کچھ دن ان کو پڑھاتا ہوں اگر ان کو میری سمجھ آ گئی تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کوئی اور انتظام کر لیجے گا۔ پرنسپل نے غصے سے کہا تم ایک چپڑاسی ہو اور اگر اتنے قابل تھے تو اس نوکری پر کیا کر رہے ہو۔
یہ بات سن کر عبید الرحمٰن تھوڑا سا آبدیدہ سا ہو گا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ سر میں ڈبل ایم اے ہوں اور ایک مدت سے روزگار نا ہونے کی وجہ سے ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا۔ جب کچھ نا سوجھا تو یہ چپڑاسی کی جگہ خالی دیکھ کر ادھر نوکری کر لی، محنت میں عظمت ہے اور ویسے بھی کچھ نا کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ ابھی ایک موقع ہے جہاں میں اپنے علم کو استعمال کرسکتا ہوں سو میں نے آپ ک بتلا دیا، آگے جیسے آپ بہتر سمجھیں۔
یہ بات سن کر پرنسپل صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کار انہوں نے اپنے طلبہ اور طالبات کی طرف دیکھا اور کہا اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نا ہو تو فوری طور پر عبید کو موقع دیا جا سکتا ہے۔۔
کچھ نے بے توجعی سے اور کچھ نے ناگواری سے ان کی طرف دیکھا اور نیم رضامندی سے اٹھ کر جانے لگے۔ ان کے جانے کے بعد پرنسپل صاحب نے تسلی کے لیئے عبید الرحمٰن سے اس کے کاغذات منگوائے ، دیکھے اور سر ہلاتے ہوئے تعریفی نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اجازت دے دی۔
اگلے دن جب عبید تیار ہو کر کالج پہنچا تو کوئی پہچان نا پایا کہ یہ وہی چپڑاسی ہے۔ اس نے پرنسپل صاحب کے پاس جا کر اجازت چاہی اور کلاس لینے چلا گیا۔ جب ایک گھنٹے کے لیکچر کے بعد وہ کلاس سے نکلا تو تمام طلبہ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات لئے پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوئے۔ جہاں پر انہوں نے پرنسپل صآحب سے پر زور اصرار کیا کہ عبید الرحمٰن کو مستقل پڑھانے دیا جائے کیوں کہ اس کا طریقہ روایتی اور پرانے طریقوں سے کہیں بہتر اور طرز تخاطب بہت ہی زبردست تھا۔
وہ دن اور آج کا دن عبید الرحمٰن کو باقاعدہ نوکری مل چکی ہے اور اب وہ چپڑاسی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ایک پروفیسر ہے اور پڑھا رہا ہے۔
یہ ہیں ہمارے نوجوان جن کا جذبہ اتنا سچا اور لگن اتنی پختہ ہے۔ پھر بھی!!!!!! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ اور ہم ، ایک دوسرے سے اسقدرمختلف ہیں پھر بھی وہ ہم سے زیادہ کیسے ترقی کر گئے اور ہم ابھی تک ترقی پزیر ہیں؟
دوسچے واقعات سے ماخوذ کی گئی تحریر
از: راشد ادریس رانا ــــــــــــــــ دسمبر 2013
مسئلہ یہ ہے کہ کمپنی میں لیبر یعنی مزدور آئے دن ہڑتال کر دیتے ہیں اور کام بند کردیتے ہیں ایک تو پہلے ہی لیبر بہت مہنگی ہے اور اوپر سے کام بند کی وجہ سے کمپنی کی حالت کافی پتلی ہے۔ اس لیئے حالات کافی خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
میں نے کہا بھائی، تو اس میں کونسا بڑا مسئلہ ہے، تم لوگ لیبر پاکستان، انڈیا ، بنگلہ دیش سے لے لو، تمہیں بہت سستی پڑے گی اور لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری کمپنی میں آئیں گے۔
میری بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا لگتا ہے کہ تم زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو چھوڑ کر باہر سے بندے نہیں لا سکتے۔ لیکن اپنے ملک میں یہ حال ہے کہ نوجوان نسل کام کرنے کو تیار نہیں اور پہلے لوگ کتنا اور کب تک سب کچھ چلائیں گے، زیادہ سے زیادہ پانچ دس سال میں ہم لوگوں کے پاس پراڈکشن بہت کم رہ جائے گی اور انڈسٹریاں گھاٹے میں جانے لگیں گیں۔
اب میرے دل میں پھر سوال اٹھا، کہ جارج یہ نوجوان کام کرنے کو کیوں تیار نہیں؟
اس نے آٹھ دس ننگی گالیاں دیتے ہوئے کہا۔ اصل میں تعلیمی اعتبار سے نوجوان ڈگریاں لیے ہوئے ہیں۔ اب وہ لیبر کے کام میں تو آتے نہیں، تو پھر سٹاف یعنی وائٹ کالر کام میں کتنے لوگ رکھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پہ نوجوانوں نے ایک اور کام پکڑا ہوا ہے۔ وہ پڑھائی کے بعد کہیں نا کہیں جاب کر لیتے ہیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ وہاں پر کوئی ایسا کام کرتے ہیں یا اپنے باس وغیرہ سے لڑائی کرتے ہیں اور مجبوراَ کپمنی ان کو ٹرمینیٹ کردیتی ہے، اس کاغذ کو لیکر وہ سرکار کے پاس جاتے ہیں اور سرکار ان کو بے روزگاری الاونس دینا شروع کردیتی ہے جب تک کہ ان کو کوئی موزوں نوکری نا مل جائے۔ اور نوکری انہوں نے کرنی نہیں ہوتی۔ اس بےروزگاری الاونس کو وہ اپنے مہینے کے اخراجات اور عیاشیوں کے لیئے وقف کر کے ، کچھ کئے بغیر مزے کرتے ہیں۔
جس جگہ نوجوانوں کی حالت ایسی ہو وہاں کوئی کام کیسے اور کب تک چلے گا۔
میں اس کی باتیں سنتا اور دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ میں شیخوپورہ کے ایک کالج کا منظر تھا۔
بے اے پارٹ ٹو کی کلاس اور سب طالب علم انگلش کے پیریڈ میں اکتاہٹ کا شکار بیٹھے ہوئے تھے آج ان کے پروفیسر کی آخری کلاس تھی ویسے تو ان کو اس پروفیسر کا پڑھایا ہوا سمجھ نہیں آتا تھا لیکن آج تو وہ دعائیں کر رہے تھے کہ جلدی جان چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ پروفیسر صاحب کو چھٹیاں جانا تھا۔
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی سب سٹوڈنٹ اکھٹے ہو کر پرنسپل کے کمرے میں چلے گئے تاکہ ان سے انگریزی کے عارضی پروفیسر کے بارے میں پوچھ سکیں، پرنسپل صاحب نے مایوسی سے بتایا کہ ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا، جس پر طالب علم کافی برہم ہوئے کیوں کہ امتحانات ہونے والے تھے اور انگریزی ایک اہم مضمون تھا۔
یہی بحث جاری تھی کہ پرنسپل کا چپڑاسی چائے لیکر ان کے کمرے میں داخل ہوا، اور پرنسپل صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے ایک طرف مودب کھڑا ہوگیا، سب نے اس کی طرف ایک عارضی سی نظر ڈالی اور بحث کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، سب اسی بحث میں تھے کہ اس نوجوان چپڑاسی نے مودب انداز میں پرنسپل سے مخاطب ہو کر کہا، سر اگر بہت زیادہ پرابلم ہے اور کوئی انتظام نہیں ہو رہا تو کیا میں ان کی انگریزی کی کلاس لے لیا کروں۔
پرسنپل سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے پتا نہیں کتنی ساعتیں کمرےمیں خاموشی طاری رہی پھر اس کے بعد پرنسپل صاحب نے قدرے برہمی سے کہا دیکھو عبید الرحمٰن (فرضی نام) ہم مذاق نہیں ایک بہت اہم بات پر بحث کر رہے ہیں، اور یہ سب بی اے فائنل ائیر کے طالب علم ہیں کوئی نرسری کے نہیں۔
لیکن عبید الرحمٰن نے زور دیتے ہوئے کہا سر ایسی بات نہیں آپ مجھے ایک چانس دیں میں کچھ دن ان کو پڑھاتا ہوں اگر ان کو میری سمجھ آ گئی تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کوئی اور انتظام کر لیجے گا۔ پرنسپل نے غصے سے کہا تم ایک چپڑاسی ہو اور اگر اتنے قابل تھے تو اس نوکری پر کیا کر رہے ہو۔
یہ بات سن کر عبید الرحمٰن تھوڑا سا آبدیدہ سا ہو گا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ سر میں ڈبل ایم اے ہوں اور ایک مدت سے روزگار نا ہونے کی وجہ سے ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا۔ جب کچھ نا سوجھا تو یہ چپڑاسی کی جگہ خالی دیکھ کر ادھر نوکری کر لی، محنت میں عظمت ہے اور ویسے بھی کچھ نا کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ ابھی ایک موقع ہے جہاں میں اپنے علم کو استعمال کرسکتا ہوں سو میں نے آپ ک بتلا دیا، آگے جیسے آپ بہتر سمجھیں۔
یہ بات سن کر پرنسپل صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کار انہوں نے اپنے طلبہ اور طالبات کی طرف دیکھا اور کہا اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نا ہو تو فوری طور پر عبید کو موقع دیا جا سکتا ہے۔۔
کچھ نے بے توجعی سے اور کچھ نے ناگواری سے ان کی طرف دیکھا اور نیم رضامندی سے اٹھ کر جانے لگے۔ ان کے جانے کے بعد پرنسپل صاحب نے تسلی کے لیئے عبید الرحمٰن سے اس کے کاغذات منگوائے ، دیکھے اور سر ہلاتے ہوئے تعریفی نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اجازت دے دی۔
اگلے دن جب عبید تیار ہو کر کالج پہنچا تو کوئی پہچان نا پایا کہ یہ وہی چپڑاسی ہے۔ اس نے پرنسپل صاحب کے پاس جا کر اجازت چاہی اور کلاس لینے چلا گیا۔ جب ایک گھنٹے کے لیکچر کے بعد وہ کلاس سے نکلا تو تمام طلبہ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات لئے پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوئے۔ جہاں پر انہوں نے پرنسپل صآحب سے پر زور اصرار کیا کہ عبید الرحمٰن کو مستقل پڑھانے دیا جائے کیوں کہ اس کا طریقہ روایتی اور پرانے طریقوں سے کہیں بہتر اور طرز تخاطب بہت ہی زبردست تھا۔
وہ دن اور آج کا دن عبید الرحمٰن کو باقاعدہ نوکری مل چکی ہے اور اب وہ چپڑاسی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ایک پروفیسر ہے اور پڑھا رہا ہے۔
یہ ہیں ہمارے نوجوان جن کا جذبہ اتنا سچا اور لگن اتنی پختہ ہے۔ پھر بھی!!!!!! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ اور ہم ، ایک دوسرے سے اسقدرمختلف ہیں پھر بھی وہ ہم سے زیادہ کیسے ترقی کر گئے اور ہم ابھی تک ترقی پزیر ہیں؟
دوسچے واقعات سے ماخوذ کی گئی تحریر
از: راشد ادریس رانا ــــــــــــــــ دسمبر 2013
No comments:
Post a Comment