آج صبح کا آغاز بہت زبردست تھا، بہت سی تیاریاں کرنی تھیں. پچھلی رات بہت دیر تک جاگا کیوں کہ تقریر تیار کرنی تھی جو بہت زبردست اور ہلا دینے والی ہونی چاہئے جبھی تو میڈیا پر طوطی بولے گی. بہت عزم تھا اور بہت جوش بھی.
جلدی جلدی تقریر کے اوراق کو دیکھتا ہوا تیار ہوا اور ناشتہ کی میز پر پہنچ گیا. جلدی جلدی ناشتہ کرتے ہوئے نظر گھڑی پر تھی کہ کہیں دیر نا ہوجائے. باہر آکر گاڑی گیرج سے نکالی اور گاڑی دوڑاتا ہوا9th ایوینیو سے گزرا. بہت مستانہ دن تھا راولپنڈی کے میرئیٹ ہوٹل میں آج بہت سارے لوگ اکھٹے تھے اور اس تقریب میں مجھے تقریر کرنی تھی. موضوع بہت زبردست تھا اس لیئے مجھے پورا یقین تھا سامین کے ساتھ ساتھ میڈیا کی توجہ بھی حاصل کر پاوں گا. اور یہی میری کامیابی ہے.
مجھے اپنے اردگرد کی کچھ پروا نہیں تھی. اپنی ہی مگن میں گاڑی چلاتا جا رہا تھا. پیرودھائی سے پہلے ہی میں نے شارٹ کٹ کرنے کی سوچی اور گاڑی اندرونی راستے سے کمرشل مارکیٹ کی طرف موڑ لی، کیوں کہ اندیشہ تھا کہ ٹریفک کے رش کی وجہ سے کہیں لیٹ نا ہو جاوں. اور آج تاخیر سے جانا مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا.
جیسے ہی کمرشل مارکیٹ سے میں باہر نکلا اور چاندنی چوک سے گزرنے لگا. اچانک سڑک پر رش دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا. گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے ہوئے بہت ناگواری کا احساس ہوا، کچھ لوگ جن میں زیادہ تر لوگ مزدور طبقہ تھاوہ بھیڑ بکریوں کی طرح افراتفری میں ایک جگہ اکھٹے ہو رہے تھے. جس کی وجہ سے اچھا خاصہ مجمع جمع ہوگیا تھا اور ٹریفک جزو طور پر بند تھی. لیکن آہستہ آہستہ ناگواری سے گاڑی کو آگے بڑھاتا جب میں مجمع کے قریب پہنچا تو اتنے میں ایمبولینس کی آواز بھی کانوں میں پڑی جو ایک طرف کھڑی تھی اور اہلکار ایک سٹریچر پر لیٹے ہوئے آدمی ( جو کہ پرانے پھٹے ہوئے لباس سے مزدور دکھتا تھا) اس کو مصنوعی تنفس دینے کی کوشش کر رہے تھے . ایک لمحہ میں سارا منظر اور وجوہات میرے سامنے تھیں. یہ بیچارہ کوئی مزدور تھا جو کہ کسی وجہ سے بے ہوش تھا. لیکن اگلے ہی لمحے پرامیڈیکس والے نے افسوس سے سر ہلایا تو مجمع میں موجود دو تین لوگ زور زور سے رونے لگے. شاید وہ اس کے ساتھی تھے یا دوست تھے.
اس دلخراش منظرسے متاثر ہو کر میں نے گاڑی ایک طرف کی اور ایک بندے سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس نے میری طرف دیکھا اور افسردگی سے بولا. صاحب!!! ہم سب مزدور ہیں اور اس جگہ پر بیٹھ کر مزدوری ملنے کا انتظار کرتے ہیں یہ بھی ہمارا ایک مزدور ساتھی تھا. . . . پچھلے کئی دن سے کام نہیں ملا اوپر سے بیمار اور لگاتار فاقے بھی کر رہا تھا. بے چارے کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں. . . ابھی بے ہوش ہو کر گرا گیا ہم نے ریسکیو والوں کو اطلاع دی ابھی انہوں نے آکر چیک کیا تو پتا چلا کہ یہ مر گیا ہے.... ... ...
ایک بجلی سی میرے مردہ ضمیر پر کڑک کر گری اور مجھے اپنی تقریر کا وہ آخری جملہ وہ آخری سطر یاد آگئی جس میں میں نے سامعین کو جوش دلانے کے لیئے یہ کہنا تھا:
بھائیو!!! آج یوم مئی / یوم مزدور ہے آو عہد کریں کہ ہم اپنے ملک میں کسی مزدور کو بھوکانہیں مرنے دیں گے.......
اس منافقت بھر جملے اور سڑک پر پڑی ایک مزدور کی لاش نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا. کیا یہی "یوم مزدور" ہے.