Thursday, 21 February 2013

راشد ادریس رانا: ناتمام خواہشیں: 21.02.2013

اپنی خواہشوں کا
جال بنتا گیا
میں تو اپنے ہی
دل کی سنتا گیا
مشکل ہوتی گئی
زندگی اسقدر
میں تو پلکوں سے
کانٹے ہی چنتا گیا
سوچیں ایسی کہ
جن میں الجھتا گیا
باتیں ایسی کہ
دل ہی تو بھرتا گیا
روز جیتا گیا
روز مرتا گیا
لاش کندھوں پہ
اپنی اٹھا کر راشد
میں کوسوں اور
میلوں ہی چلتا گیا
راشد ادریس رانا: ناتمام خواہشیں: 21.02.2013

Tuesday, 19 February 2013

...::::::قتل ہوتا دیکھ کر میں جا بجا انسان کو:::::...

(جناب جبار واصف)
 رحیم یار خان
کا حالات حاضرہ پر جگرسوز کلام . 

قتل ہوتا دیکھ کر میں جا بجا انسان کو
  ایک چٹھی لکھ رہا ہوں صدر ِ پاکستان کو
.
صدر جی اِس ملک سے اپنا تو جی اب بھر گیا
  ہر بشر جس ملک میں جینے سے پہلے مر گیا
.
...
چار سُو اِس ملک میں تاریکیوں کا راج ہے
  کل تو بد تر تھا مگر کل سے بھی بدتر آج ہے
.
ہر طرف اس ملک میں دہشت سی ہے پھیلی ہوئی
  جس طرف بھی دیکھئے وحشت سی ہے پھیلی ہوئی
.
کس قدر اِس ملک میں قانون ہے بکھرا ہوا
  جس طرف بھی دیکھئے بس خون ہے بکھرا ہوا
.
کیا سناؤں میں تمہیں اُن لڑکیوں کی داستاں
  کھا گیا جن کی جوانی کو ہوس کا آسماں
.
کیا تمہارا جی نہیں کٹتا وہ مائیں دیکھ کر
  ہر طرف لٹتی ہوئی کم سن ردائیں دیکھ کر
.
آؤ اب تم کو دکھاؤں ایک ننھی جان کو
  جس نے نوچا رات بھر سوکھے ہوئے اِک نان کو
.
پھر وہ ننھی جان کیااحسان ہم پہ کر گئی
  مفلسی میں بھوک کے ہاتھوں بلک کر مر گئی
.
یہ ستم کچھ اِس لئے تجھ کو نظر آتا نہیں
  کیونکہ اِس کی زد کے اندر تیرا گھر آتا نہیں
.
صدر جی اِس ملک میں مجھ سے جیا جاتا نہیں
  روز اپنوں کا لہو مجھ سے پیا جاتا نہیں
.
اب تمہارے سامنے سارے مرے حالات ہیں
  تم کو اب معلوم ہے واصف کے جو جذبات ہیں
.
میں تو کرتا ہوں تہہ دل سے دعا تیرے لئے
  منتظر ہوں میں کہ کیا کرتے ہو تم میرے لئے

Friday, 15 February 2013

مُحبّت ہَم بھی کَرتے ہیں...!

بہت آسان ہے کَہنا،
مُحبّت ہَم بھی کَرتے ہیں...!
مَگر مَطلَب مُحبّت کا،
سَمجھ لَینا نَہیں آسان،
مُحبّت پا کے کَھو دَینا،
...
مُحبّت کَھو کے پا لَینا،
یہ اُن لَوگُوں کے قِصّے ہیں،
مُحبّت کے جَو مُجرِم ہیں،
جَو مِل جانے پہ ہَنستے ہیں،
بِچَھڑ جانے پہ رَوتے ہیں،
!.............! سُنو !.............!
مُحبّت کَرنے والے تَو،
بہت خامَوش ہَوتے ہیں،
جَو قُربَت میں بھی جِیتے ہیں،
جَو فُرقَت میں بھی جِیتے ہیں،
نہ وہ فَریاد کَرتے ہیں،
نہ وہ اَشکُوں کَو پِیتے ہیں،
مُحبّت کے کِسی بھی لَفظ کا،
چَرچا نَہیں کَرتے،
وہ مَر کے بھی اَپنی چاہَت کَو،
کَبھی رُسوا نَہیں کَرتے،
بہت آسان ہے کَہنا،
مُحبّت ہَم بھی کَرتے ہیں...!
~✿Blossom✿~

Tuesday, 12 February 2013

---اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے---

اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

یہ کِس کا تصوّر ہے، یہ کِس کا فسانہ ہے؟
جو اشک ہے آنکھوں میں، تسبیح کا دانہ ہے

دل سنگِ ملامت کا ہرچند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے، دل ہی تو زمانہ ہے

ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی، ہنسنے کو زمانہ ہے

وہ اور وفا دشمن، مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے، آنکھوں کا بہانہ ہے

شاعرہوں میں شاعر ہوں، میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینہ، قدرت مرا شانہ ہے

جو اُن پہ گزرتی ہے، کس نے اُسے جانا ہے؟
اپنی ہی مصیبت ہے، اپنا ہی فسانہ ہے

آغازِ محبت ہے، آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے، آہوں کا زمانہ ہے

آنکھوں میں نمی سی ہے چُپ چُپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

ہم درد بدل نالاں، وہ دست بدل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم، تیرا ہی زمانہ ہے

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا، آج اپنا زمانہ ہے

اے عشق جنوں پیشہ! ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستمگر کو ہنس ہنس کے رُلانا ہے

تھوڑی سی اجازت بھی، اے بزم گہہ ہستی
آ نکلے ہیں، دم بھر کو رونا ہے، رُلانا ہے

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

خود حسن وشباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھئے، تب وہ ہیں، آئینہ ہے، شانا ہے

ہم عشقِ مجسّم ہیں، لب تشنہ ومستسقی
دریا سے طلب کیسی، دریا کو رُلانا ہے

تصویر کے دو رُخ ہیں جاں اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے، اک نقش دِکھانا ہے

یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے

مجھ کو اسی دُھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے، وہ اب آئے، لازم اُنہیں آنا ہے

خوداری و محرومی، محرومی و خوداری
اب دل کو خدا رکھے، اب دل کا زمانہ ہے

اشکوں کے تبسّم میں، آہوں کے ترنّم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے، رہ جائے سو دانا ہے
جگرمرادآبادی

جگرمرادآبادی

Friday, 8 February 2013

✿✿✿ پردہ اور اسلام ✿✿✿



بہ نام وطن.....[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]

بہ نام وطن :

مصطفیٰ زیدی

کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم
تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفاداریِ جاں مانگتے ہو
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو ے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
علم نے خونِ رگِ جاں‌دیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اسرار بنوں
کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
بہ وفاداریِ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہرباریِ الفاظ صنادیدِ عجم
بہ صدائے جرس قافلۂ اہلِ قلم
مجھ کو ہر قطرۂ خُون ِ شُہدا تیری قسم
منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جھُک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پھُوٹیں گی تو کل پھُوٹیں گی
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
ایک اک خوشۂ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغۂ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں
دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جھُکا کر آؤ
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
مصر میں جلوۂ یوسف کی دکاں جلتی ہے
عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے
چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا
اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں
ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے
[̲̅L][̲̅i̲̅][̲̅k̲̅][̲̅e̲̅]
عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی