بہ نام وطن :
کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم
تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفاداریِ جاں مانگتے ہو
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو ے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
علم نے خونِ رگِ جاںدیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا
علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اسرار بنوں
کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں
صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے
بہ وفاداریِ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہرباریِ الفاظ صنادیدِ عجم
بہ صدائے جرس قافلۂ اہلِ قلم
مجھ کو ہر قطرۂ خُون ِ شُہدا تیری قسم
منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جھُک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے
آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پھُوٹیں گی تو کل پھُوٹیں گی
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
ایک اک خوشۂ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟
بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغۂ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں
دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جھُکا کر آؤ
کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
مصر میں جلوۂ یوسف کی دکاں جلتی ہے
عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے
چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا
اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں
ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے
عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی