Monday 27 August 2012

وہ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔


جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے خاندان سے ملنے پہلے لندن اور پھر کیلی فورنیا کے شہر فریسنو آئی ہوں . کتابوں کی تقریب اجرا کے بعد ایک ہفتہ ہم سب نے صرف باتیں کرنے اور اپنی یادوں کو ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا . سوآج کل ہم سب صرف باتیں کرتے ہیں اور کبھی کھبی ہم سب کھانا کھانے کی بجائے صرف باتیں کرتے ہیں . آج سوچا کہ امی جی ( اپنی ساس رشیدہ بیگم ) سے ان کی کہانی پوچھتے ہیں . وہ جو ہر وقت پاکستان کے نیوز چینلز دن رات دیکھتی ہیں لیکن ان سب سے الگ اپنی ایک رائے رکھتی ہیں جو کسی مبصر سے کم نہیں ہوتی ..
بڑی مشکلوں سے وہ راضی ہوئیں اور وہ جیسے جیسے بولتی گئیں میں لکھتی گئی . میرے ساتھ صومیہ بھی تھی کاغذ قلم لے کر کہ جہاں میری لکھنے کی رفتار کم ہو جائے وہ نوٹ کر لے .

آئیے امی جی کی کہانی امی جی کی زبانی سنتے ہیں


میں انڈیا کے ضلع جالندھر کے قصبہ اپرا کے گاؤں رائے پور میں رہتی تھی. قران شریف پڑھنے کے علاوہ کوئی کام ضروری نہیں ہوتا تھا. ہمارے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی لیکن سب بچے جوان بوڑھے قرآن پڑھے ہوئے تھے. سب علم کے خواہاں تھے پر ڈگریوں سے بے نیاز تھے . ہم سب لوگ ایک ساتھ رہتے تھے . سب کی عزت و احترام ایک دوسرے پر لازم تھی . جھوٹ بولنے کا تصور تک نہ تھا. خاندان کے خاندان ایک ساتھ رہتے تھے . ساررے رشتہ دار ایک براداری کی طرح رہتے تھے . سینا پرونا ، کھانا پکانا ، زمینداری کرنا، مٹی میں کھیلنا، مٹی میں رہنا ہی کام تھا .
کھیت کنویں سب اپنےتھے . سوائے نمک کے ہم کچھ نہیں خریدتے تھے. ہمارے سامنے ہندوؤں کی برادری رہتی تھی . وہ امیر اور سنار تھے لیکن لین دین میں ہیرے تھے کبھی کوئی لڑائی نہیں . کوئی فساد اور دنگا نہیں . سب ایک دوسرے سے راضی . سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے .شادی بیاہ، جینے مرنے میں بھی ساتھ رہتے تھے .
جب پاکستان بنا تب بھی ہمارے گاؤں میں کچھ نہ ہوا تھا. کسی نے کسی کو نہیں لوٹا. مجھے یاد ہے کہ میرے ابا جی گھر میں آئے اور کہنے لگے کہ ارے تم لوگ ابھی بھی سو رہے ہو. گاؤں کے گاؤں جا رہے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں تھاکہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں .. . میری ماں نے دو لحاف گڈے پر رکھے .اور سب مردوں نے طے کیا کہ ہم اپنی ٹیوں کی خود حاظت کریں گے اور اگر کوئی موقع ایسا آیا تو سب لڑکیوں کو دریا میں پھینک دیں گے لیکن کسی کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے . اور خود لڑتے ہوئے مر جائیں گے . ابھی ہم چلے ہی تھے کہ ہمارے گاؤں کو کسی نے آگ لگا دی .. بس پھر کیاتھا ہم سب دھاڑیں مار کر رونے لگے .. لیکن چلتے گئے اورپھر اسی طرح قافلے کے قافلے ملتے گئے اور ہم سب ایک کیمپ میں پہنچ گئے


اتنے میں ایسے ہوا کہ ایک طرف سے رونے دھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں . لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں میں مظبوطی سے تھام لیا اور دریا کی طرف دوڑنے لگے کہ لڑکیوں کو پھینک دیں گے . لیکن کسی نے چیخیں مار کر سمجھایا کہ لوگ اپنی جگہ چھوٹنے پر رو رہے ہیں . کوئی بلوہ کرنے والا آیا گیا نہیں ہے . میری امی کی یہی دعا تھی کہ اے اللہ اگر مارنا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ مار دے لیکن ہمیں الگ الگ مت کرنا. ایسے میں میرا چھوٹا بھائی ہم سے بچھڑ گیا. وہ جو گھنٹے ہم نے گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے گزرے . لیکن شکر خدا کا کہ وہ مل گیا . اور پانچ میل کے فاصلے پر فلور کیمپ میں پہنچ ہی گئے . ہم لوگ چھوٹی عید کے بعد نکلے تھے اور بڑی عید تک ہی ہم لوگ کیمپ میں ہی تھے .
بارشیں برسیں . سیلاب آیا ، بھوک آئی ، سردی آئی ، کئی بچے پیدا ہوئے ، لاکھوں مر گئے ، بس نہ آیا تو آرام کا دن نہ آیا . بچوں کو اپنی گود میں سنبھالے بارشوں میں دوسرے کیمپ جانا پڑ گیا . نہ پاکی کا پتہ نا صفائی کا خیال . نہ کھانا نہ پانی … وہیں میری دادی اور تائی جی اور ان کی بیٹی کی وفات ہو گئی . کوئی جماعت ..کوئی خیر خبر لینے والا نہ تھا. . پھر ہم لوگ ساڑھے تین مہینے کیمپ میں رہے . پھر کہیں جا کر ریل گاڑی کا بندوبست ہوا اور ہم پاکستان کے لئے روانہ ہوئے. یہ ہندوؤں کا اصول تھا کہ اگر ہندؤں سے بھری گاڑی لاہورر سے آرام سے واپس آتی تو وہ لوگ مسلمانوں کی گاڑی کو سکون سے لاہور جانے دیتے تھے ورنہ امرتسر ، دریائے ستلج پر ہی بھری گاڑی تباہ کر دیتے تھے .
ایک دن ہم لوگ مال گاڑیوں میں بھر دئے گئے اور پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے . ہم لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں تھی . کہ ہندو مار ہی نہ دیں . ملتان چھاؤنی پہنچ کر گاڑی روک لی گئی . اور سب سے کہا کہ یہی پر سب اتر جائیں . گاڑی سے اتر کر سب سجدہ شکر میں پاک سر زمین پر گر گئے . اب ایک نئی مشکل درپیش تھی کہ کہاں جائیں . ہم لوگ پھر فوجی چھاؤنی میں آگئے . ایک کمرے میں بہت سارے خاندان ایک ساتھ رہنے لگے .دس دن رہنے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے تو دو دن خانیوال پر رکنے کے بعد میاں چنوں پہنچے .
میاں چنوں میں کپاس اور روئی کے کارخانوں میں کیمپ لگے ہوئے تھے. وہاں رک گئے .ہم سب حیران تھے کہ اب کیا کریں . وہاں دس دن رہنے کے بعد ہم پانچ سو خاندانوں نے ایک ہی گاؤں میں اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا اور گورنمنٹ سے کلیم میں زمینیں ایک ساتھ مانگ لیں تاکہ سب کے دکھ سکھ سانجھے رہیں. ہم سب نے کھانا ایک ساتھ پکانا اور ایک ساتھ کھانا. بس یہی ہماری برادری تھی



پھرچودہ سال کی عمر میں1948 میں میری شادی ہو گئی . نہ کوئی لین دین نہ کوئی شغل میلا . سب اتنی سادگی اور سکون سے ہوا کہ کوئی سوچ نہیں سکتا . تمہارے ابا جی کی عمر سولہ سال کی تھی . ان دنوں تمہارے ابا جی لاہور کام کرتے تھے . میں بھی وہیں آگئی . ہم دنوں ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے اور ایک ساتھ ہی بوڑھے بھی . میں تمہارے ابا جی کے سفر کی گواہ ہوں . تمہارے ابا جی پڑھے لکھے تھے اور نوکری پیشہ تھے . سب انہیں طعنے دیتے تھے کہ زمینداری کرو کہ زمینداری کی جڑیں زمین کے اند ر ہوتی ہیں اور نوکری کی زمین کے اوپر . لوگ میرے باپ کوبھی طعنہ دیتے تھے کہ انہوں نے میری شادی کسی فقیر سے کر دی ہے . پر میرے باپ کہتے تھے کہ نصیب نوکریوں سے نہیں بنتے . نصیب بنانے والا اوپر ہے جو جنگل میں بھی منگل کر دیتا ہے .
اور ایسا ہی ہوا میری زندگی جنگل سے بے شک شروع ہوئی پر اس میں ابھی تک منگل ہی ہے . مجھے اللہ تعالی نے اتنے سکھ عطا کئے کہ میں اس کا شکر نہیں ادا کر سکتی . اس نے مجھے چھت دی ، عزت دی ، تماہرے ابا جی کا ساتھ دیا ، عزت کرنے والے نیک صالح اولاد عطا کی . وہ مجھے اس کے علاوہ دے بھی کیا . سچ کہوں تو مجھے کوئی دکھ نہیں سوائے پاکستان کی بربادی کے . ہر شخص ظالم ہو گیا ہے . خود غرضی اور بدنیتی کاہر طرف راج ہے. ہر طرف ایک اندھیر نگری سی ہے . مجھے اپنا ہندوستان والا گھر ابھی بہت یاد آتا ہے . خوابوں میں بھی وہیں رہتی ہوں . میں روز کیا ہر پل سوچتی ہوں کیا کوئی حکمران ، کوئی چھوٹا بڑا تم یا کوئی اور ہماری ہجرت کی تکلیف سہہ سکتا ہے.
پاکستان سے تو ہم لوگ آگئے ، بس بھی گئے ، گھر بار بھی بن گئے . بس پتہ نہیں لوگ کب اور کیسے بدل گئے . وہ بھائی چارہ نہیں رہا، محبت نہیں رہی ، مقابلے اور حسد کی دوڑ لگی ہوئی ہے . لوگ اتنا سہم گئے ہیں کہ اپنی خوشیاں اپنوں سے ہی چھپانے لگ گئے ہیں … بس میری بیٹی یوں سمجھو کہ جب پاکستان بن رہا تھا اس وقت بھی یہ حال نہیں تھا جو اب ہے . اس وقت قرار آجاتا تھا اور سمجھ بھی آتی تھی کہ کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے ….. اب کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے یہ سمجھ نہیں آتا ….
میں نے پوری ہجرت کے سفر میں صرف سنا تھا کہ بلوائی مسلمانوں کو مار رہے ہیں لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا … بیٹی کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو مارتے دیکھا ہے .. ہندوؤں کے ساتھ رہ کر کسی نے کسی کو کافر نہیں کہا پر آج کے مسلمان کے لئے اپنے ہی کسی مسلمان بھائی کو کافر کہہ دینا سب سے آسان تر ہے ….
بیٹی میرا پیغام تم سب کے لئے یہ ہے کہ دیکھو سب نے کسی جگہ تو رہنا ہی ہے تو کیوں نہ مل کر رہیں .. محبت سے رہیں ..ایک دوسرے کی عزت کریں اور انہیں ان کی مسلکی آزادی کے ساتھ رہنے دیں ..اگر ہم ہی ایک دوسرے کو کافر کہیں گے یا برا بھلا کہیں گے تو سوچیں جو مسلمان نہیں ہیں وہ ہمارے بارے میں کیا کیا نہ سوچیں گے … ؟ ؟
اس کے بعد میری امی جی (میری ساس رشیدہ بیگم) نے مزید کچھ بولنے سے انکار کر دیا اور جھلملاتی آنکھیں لئے اپنے کمرے میں چلی گئیں.

2 comments:

  1. ہم پردیس میں بسنے والی پاکستان کی تیسری نسل پہلی نسل کا دکھ دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں۔
    آپ کی ساس صاحبہ کی کہانی سن کر تو مزید اس فرقہ پرستی سے نفرت ہو گئی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies

    1. یاسر بھائی ویسے یہ ڈاکٹر صاحبہ ہیں جن کی والدہ کی یہ کہانی ہے۔ لیکن اگر میں اپنے آباو اجداد کی نقل مکانی اور ہجرت کی داستان لکھوں تو شاید ایک اور کہانی سامنے آ جائے جو اس کہانی سے بھی زیادہ درد ناک ہیں، اللہ تعالٰی کروٹ کروٹ جنت میں جگہ عطاء فرمائے (آمین) میری نانی ماں جب اپنی ہجرت کی آپ بیتی سناتی تھیں تو کانپنے لگ جاتی تھیں رو رو کر گلا خشک ہو جاتا تھا اور بیان نہیں کر پاتی تھیں۔ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن ، اور اپنی آنکھوں کے سامنے سات کے سات بھائی قتل اور اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلتے دیکھے تھے انہوں نے۔ دو مرتبہ کنوئے میں چھلانگ لگائی صرف عزت بچانے اور باعزت موت کے لیئے لیکن زندگی تھی جوعزت بھی بچی اور جان بھی اور پاکستان پہنچ گئے۔

      بہت دکھ والی داستانیں ہیں مہاجروں کی، آزادی اور اس ملک کی قدر خون در خون ہماری رگوں میں ہے، جبھی تو دعا ہے کہ اللہ مرتے وقت اپنی مٹی نصیب کرنا ، جیسا بھی ہے ، ہے تو اپنا ملک اللہ قائم رکھے۔ آمین

      Delete