Tuesday, 27 November 2012

کچھ پردیس کی باتاں

کچھ پردیس کی باتاں"
27-11-2012
از: راشد ادریس رانا "

کچھ خریداری کا ارادہ ہوا تو بھائی اور ایک دوست کو ساتھ لیکر لمبی واک کرتے ہوئے ایک قریبی شاپنگ مال جس کا نام دلما مال ہے وہاں چلے گئے، موسم بہت اچھا ہو رہا ہے آج کل ادھر ابوظہبی میں شام صبح بہت اچھی ہوا چلتی ہے.
کافی ٹائم شاپنگ مال میں ادھر ادھر گزار کر واپس نکلے تو کافی تھکاوٹ ہو گئی تھی، سوچا ٹیکسی ہی کر لی جائے. ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ایک خوبصورت ہوا کے جھونکے نے میری رگ وجاں میں ٹھنڈک بھر دی لیکن:::::
ایک ہی لمحہ میں میرا دل کیا کہ میں آنکھیں بند کروں اور کھولوں تو پاکستان میں ہوں..................

جو مزہ اپنے وطن کی ہواوں کا ہے وہ کہیں کا نہیں ہو سکتا........... پتا نہیں سب کو ہی اپنے وطن سے پیار ہوتا ہو گا. بہت سے لوگ مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہوں گے پاکستان کو اور یاد بھی کرتے ہوں گے لیکن.............

مجھے یوں لگتا ہے کہ میرا وجود میری ایک ایک پور جس مٹی سے تخلیق ہوئی ہے وہ مٹی صرف اور صرف پاکستان کی ہی ہے.
شاید اگر دنیا کی ہر خوشی اور آسائیش بھی میسر ہو تو بھی اپنے وطن کی بات ہی کچھ اور ہے............

مخملیں بستر پر لیٹ کر شاید نیند آ جاتی ہے ، ہر وقت اے سی کی ٹھنڈی ہوا جو کبھی گرمی کا احساس نہیں ہونے دیتی ہر سہولت اور ہر طرح کا تحفظ پر پھر بھی اپنے اندر ایک خلاء ایک ادھورا پن محسوس کرتا ہوں..............

اور مجھے پتا ہے وہ خلا اور ادھورا پن صرف اور صرف میرے سوہنے من موہنے دیس کی ہوا ہے...............

گلی کے نکڑ پر کھڑا ہونا، یا مری روڈ پر جا کر فٹ پاتھ پر بیٹھنا، یا پھر دامن کوہ کے راستے پر پہاڑکے کسی موڑ پر جا کر بیٹھ جانا..................... کافی غیر محفوظ ہیں لیکن پھر بھی ............................
اس میں اتنا سکون کیوں ہے................. کیوں کہ وہ میرا پیارا پاکستان ہی تو ہے................

پاکستان تجھے سلام............. پاکستان تو میری جان.................. پاکستان زندہ باد، پائیندہ باد
 

Friday, 23 November 2012

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ

 
 
 
بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا، آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:

" میرے پیارے بیٹے! ایسے وقت میں تم یہاں کیسے؟"

بچے نے جواب دیا : " آپ کی تلاش میں۔"
...

اس بچے کا نام زبیر تھا۔ باپ کا نام عوام اور ماں کا نام صفیہ رضی اللہ عنھا تھا۔ یہ بچہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کا پھوپی زاد بھائی تھا۔

قصہ یہ پیش آیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں افواہ پھیلی کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو کفار نے پہاڑوں میں پکڑلیا ہے۔ مکہ میں دشمن تو بہت زیادہ تھے، اس لیے ایسا ہوبھی سکتا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر بارہ سال تھی فوراً تلوار اٹھائی اور اکیلے ہی آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مل گئے۔ پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس حالت میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا:

" اگر واقعی مجھے پکڑ لیا گیا ہوتا تو پھر تم کیا کرتے۔"

اس بارہ سالہ بچے نے جواب دیا:

" میں مکّہ میں اتنے قتل کرتا کہ ان کے خون کی ندیاں بہادیتا اور کسی کو زندہ نہ چھوڑتا۔"

پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم یہ بات سن کر ہنس پڑے اور اس جرأت مندانہ انداز پر اپنی چادر مبارک انعام کے طور پر عطافرمائی۔
 
اللہ تعالٰی کو یہ ادا پسند آئی۔ جبرئیل( علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوئے اور عرض کیا زبیر کو خوش خبری دے دیں کہ اب قیامت تک جتنے لوگ اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائیں گے، ان کا ثواب زبیر کو بھی ملے گا۔

بہادری اور جرأت اللہ اور اس کے پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو بہت پسند اور محبوب ہے۔ خود رسول اللہ بھی بہادر تھے بہادری کو پسند فرماتے تھے اور بزدلی سستی کاہلی سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو نفرت تھی۔ ہر مسلمان کو بہادر بننا چاہیے.

پاکستان کو مثبت سوچ کی ضرورت ہے.

منتخب و تدریسی تحریر
 
 
کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔

اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔

اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں...
کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
 
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔

اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔ 
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!

تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟

چھلہ کی لبدا پھرئے.

 
چھلہ کی لبدا پھرئے.

Monday, 19 November 2012

♥♥♥ فقط تمہارا ہوں ، تمہارا رہوں گا ♥♥♥

وفا کروں تو جفا ہے ملتی،
کہ قسمت میں اپنی وفا نہیں ہے،
میں سوچتا ہوں اکثر،
ملا ہے مجھ کو وہ جان الفت،
کہ قسمت پہ اپنی ہے رشک آتا،
 
مگر ہے مجھ سے خفا وہ بے حد،
کہ وہ ہے سمجھتا!!!!
مجھ میں تو جیسے وفا نہیں ہے،
میں کیسے بتلاوں،
میں کیسے کہہ دوں
کہ جان جاناں!!!!
 
یہ زندگی کی صبح ، یہ ساری شامیں
یہ موسموں کے رنگ، یہ سب ہوائیں
یہ تتلی، یہ جگنو، پھولوں کی خوشبو
تمہاری مسکان، اور تبسم
کہ میری خوشیاں تمہاری ادائیں
تم مجھ میں بستے ہو ، جان بن کر
کہ جیسے سانسوں کی ڈور ہو تم
تمہار ی ہر اک ادا پہ
مر مٹا ہوں ، فنا ہوا ہوں
میرے ہمدم،میرے ساجن ،میرے ساتھی،
میرے دل کے تو چور ہو تم

کہ جو بھی کہہ لو جو بھی سمجھ لو
مگر یہ بات ہے سب سے سچی
جب تم روٹھتی ہو تو لگتی ہو بچی
کہ بچے تو دل کے ہیں صاف ہوتے
کہ کل کے دکھوں کو وہ آج کے پل میں
نہیں سنجوتے ، نہیں پروتے
تم بھی مجھے سے خفا نا رہنا،
ہزار روٹھو، لاکھ روٹھو،
مگر میں تم کو منانا چاہوں،
تم کبھی بھی ضد نا کرنا،
بس میری جاں مان جانا، مسکرانا
کہ جہاں پہ بے حد ہے پیار ہوتا،
وہاں منانے اور روٹھنے کا
بہت مزہ ہے،
بس اک بات اپنے دل میں اتار لینا
میں جہاں بھی جاوں ، جہاں بھی جاوں
فقط تمہارا ہوں ، تمہارا رہوں گا،
فقط تمہارا ہوں ، تمہارا رہوں گا،

Dedicated to : Jan-e-Rashid

Monday, 12 November 2012

میں گھر کب جاوں گا. Dedicated to Overseas

 

ایک پردیسی کی کہانی !
_____________________

پیارے ابو جان اور امی جان
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں
آپکا پیارا – جمال


پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔


پیارے ابو جان اور امی جان
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال


پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔


پیارے ابو جان اور امی جانآج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال


پیارے بیٹے جمالبیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری ۔ زہرہ


پیاری شریک حیات زہرہانیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال

پیارے جمالآپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری ۔ زہرہ
________

اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔

Wednesday, 7 November 2012

◘◘◘ کھوٹے سکے ◘◘◘

 


بغداد میں ایک نانبائی تھا ، وہ بہت اچھے نان کلچے لگاتا تھا اور دور دور سے دنیا اس کے گرم گرم نان خریدنے کے لیے آتی تھی ۔ کچھ لوگ بعض اوقات اسے کھوٹا سکہ دے کر چلے جاتے جیسے یہاں ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں ۔ وہ نانبائی کھوٹا سکہ لینے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد اسے اپنے " گلے" ( پیسوں والی صندوقچی ) میں ڈال لیتا تھا ۔ کبھی واپس نہیں کرتا تھا اور کسی کو آواز دے کر نہیں کہتا تھا کہ تم نے مجھے کھوٹا سکہ دیا ہے ۔ بے ایمان آدمی ہو وغیرہ وغیرہ اس بلکہ محبت سے وہ سکہ بھی رکھ لیتا تھا ۔ جب اس نانبائی کا آخری وقت آیا تو اس نے پکار کر اللہ سے کہا ( دیکھئیے یہ بھی دعا کا ایک انداز ہے ) "اے اللہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں تیرے بندوں سے کھوٹے سکے لے کر انہیں اعلیٰ درجے کے خوشبو دار گرم گرم صحت مند نان دیتا رہا اور وہ لے کر جاتے رہے ۔ آج میں تیرے پاس جھوٹی اور کھوٹی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وہ اس طرح سے نہیں جیسی تو چاہت ہے ۔ میری تجھ سے یہ درخواست ہے کہ جس طرح سے میں نے تیری مخلوق کو معاف کیا تو بھی مجھے معاف کر دے ۔ میرے پاس اصل عبادت نہیں ہے "۔

بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اونچے مقام پر فائز تھا اور اللہ نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ متمنی تھا ۔


اشفاق احمد زاویہ 2 ھاٹ لائن صفحہ 97

Saturday, 3 November 2012

ہمیشہ گلاس کو نیچے رکھیں ــ منتخب تحریرـــ

 


ایک پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا - اس نے وہ گلاس بلند کر دیا تا کہ تمام طلبہ اسے دیکھ لیں پھر اس نے طالب علموں سے سوال کیا " تمھارے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا ؟ "
" پچاس گرام ! "
" سو گرام ! "
" ایک سو پچیس گرام "
لڑکے اپنے اپنے اندازے سے جواب دینے لگے -
" میں خود صحیح وزن نہیں بتا سکتا جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کر لوں ! "
پروفیسر نے کہا ! " مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لئے اسی طرح اٹھائے رہوں ؟"
کچھ نہیں ہوگا ! تمام طالب علموں نے جواب دیا -

ٹھیک ہے اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یونہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا ؟
آپ کے بازو میں درد شروع ہو جائے گا -
تم نے بلکل ٹھیک کہا - پروفیسر نے تائیدی لہجے میں کہا -

اب یہ بتاؤ کہ اس گلاس کو میں دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو کیا ہوگا ؟
آپ کا بازو سن ہو سکتا ہے ایک طالب علم نے کہا
آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے دوسرے نے کہا
آپ پر فالج کا حملہ ہو سکتا ہے
لیکن آپ کو اسپتال تو لازمی جانا پڑیگا ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری کلاس قہقہے لگانے لگی -

بہت اچھا ! پروفیسر نے برا نہ مناتے ہوئے کہا -
لیکن اس تمام دوران میں کیا گلاس کا وزن تبدیل ہوا ؟
نہیں - طالب علموں نے جواب دیا -

تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا ؟
طالب علم چکرا گئے -
گلاس نیچے رکھ دیں - ایک طالب علم نے کہا -
بلکل صحیح .............! پروفیسر نے کہا " ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں آپ انھیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں - انھیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ سر کا درد بن جائیں گے
انھیں اور زیادہ دیر تک تھامے رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کر دیں گے آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے -

اپنی زندگی کے چیلنجز کے بارے میں سوچنا یقینن اہمیت رکھتا ہے لیکن ...................
" اس سے کہیں زیادہ اہم ہر دن کے اختمام پر سونے سے پہلے انھیں ذہن پر سے اتار دینا ہے - اس طریقے سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا نہیں رہیں گے - ہر روزصبح آپ تر و تازہ اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیدار ہونگے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو کسی بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کر سکیں گے لہٰذا گلاس کو نیچے رکھنا یاد رکھیں "

Thursday, 1 November 2012

ہم محسنوں کو نہیں بھولتے

 
=================

 وہ دو تھیں‘ ایک میکسیکو میں پیدا ہوئی، دوسری جرمنی کے شہر لائزگ میں۔
ایک نن تھی اوردوسری ڈاکٹر۔ سسٹربیرنس کا تعلق میکسیکو سے تھا جب کہ ڈاکٹر روتھ فائو جرمنی کی رہنے والی تھی‘ یہ دونوں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ نے 1958ء میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں...
پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
 
ڈاکٹر روتھ فائو اس وقت تیس سال کی جوان خاتون تھی‘ یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘ ڈاکٹر روتھ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘ ڈاکٹر روتھ نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا
خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
 
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ڈاکٹر روتھ اور سسٹر بیرنس کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ ڈاکٹر روتھ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
 
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ ڈاکٹر روتھ نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ ڈاکٹر روتھ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ ڈاکٹر روتھ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
 
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ڈاکٹر روتھ کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
 
حکومت ڈاکٹر روتھ فائو کی خدمات سے واقف ہے چنانچہ حکومت نے 1988ء میں ڈاکٹر روتھ کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر روتھ فائو کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
 
جس میں لوگ آج بھی کینسر کا علاج پھونکوں‘ شوگر کا علاج پانی اور نفسیاتی عارضوں کا علاج عاملوں کے ڈنڈوں سے کرتے ہیں اور جس میں ہم بغیر کسی وجہ کے ہر گورے کے خلاف ہیں اور ہم سیم باسیل جیسے بیمار ذہنیت کے لوگوں کی حرکتوں کی سزا پاکستانی چرچوں‘ پاکستانی اے ٹی ایم مشینوں‘ پاکستانی پٹرول پمپوں اور پاکستانی گاڑیوں کو دیتے ہیں
 

 میری خواہش ہے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹر روتھ کا پروفائل چھوٹے بچوں کے سلیبس میں شامل کر لیں‘ یہ وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکزی جگہوں پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بھی بنوائیں‘ ڈاکٹر روتھ کی تصویر کنندہ کی جائے‘ اس کے ساتھ اس کا پروفائل تحریر کیاجائے اور عوام اور اسکولوں کے بچوں کو تحریک دی جائے یہ ڈاکٹر روتھ کی یادگار پر آئیں اور یہاں موم بتی جلا کر پاکستان کی اس محسنہ کا شکریہ ادا کریں۔ ہمارا سی ڈی اے پہلا قدم اٹھا سکتا ہے‘ یہ شاہراہ دستور یا بلیو ایریا کے کسی نمایاں مقام پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بنا دے‘ ڈاکٹر صاحبہ شائد اس وقت تک زندہ ہیں آپ انھیں بلوا کر اس یاد گار کا افتتاح کروائیں اور ہمارا میڈیا انھیں سراہے تا کہ جرمنی سمیت یورپ اور امریکا کے لوگوں کو علم ہو سکے ہم جہاں سیم باسیل جیسے شیطانوں کی مذمت کرتے ہیں ہم وہاں ڈاکٹر روتھ جیسی فرشتہ صفت خواتین کی عظمت کا احترام بھی کرتے ہیں‘ ہم انھیں اپنے دل اور دماغ دونوں میں جگہ بھی دیتے ہیں اور‘ اور ‘ اور ہم احسان فراموش نہیں ہیں‘ ہم اپنے محسنوں کوکبھی نہیں بھولتے۔
از جاوید چودھری زیرو پوائینٹ۔ Javed Chaudhry
کالم 14 اکتوبر 2012 ایکسپریس اخبار