Wednesday, 21 December 2011

ہم اور ہمارے ٹھگ



پرانے وقتوں میں لوگوں کوبیوقوف بناکرمال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہواکرتاتھااس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے۔انہی ٹھگوں کاایک واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی بکراخریدکراپنے گھرجارہاتھاکہ چارٹھگوں نے اسے دیکھ لیااورٹھگنے کاپروگرام بنایا۔چاروں ٹھگ اس کے راستے پرکچھ فاصلے سے کھڑے ہوگئے۔وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھاتوپہلاٹھگ اس سے آکرملااوربولا’’بھائی یہ کتاکہاں لےئے جارہے ہو؟‘‘دیہاتی نے اسیگھورکردیکھااوربولا’’بیوقوف تجھے نظرنہیںآرہا کہ یہ بکراہے کتانہیں‘‘۔دیہاتی کچھ اورآگے بڑھاتودوسراٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا’’یاریہ کتاتوبڑاشاندارہے کتنے کاخریدا؟‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتاکہاسے لیا؟‘‘اب دیہاتی تشویش میں مبتلاہوگیاکہ کہیں واقعی کتاتونہیں۔اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔بالآخرچوتھے ٹھگ سے ٹکراؤہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا’’جناب کیااس کتے کوگھاس کھلاؤگے؟‘‘اب تودیہاتی کے اوسان خطاہوگئے اوراس کاشک یقین میں بدل گیاکہ یہ واقعی کتاہے۔وہ اس بکرے کوچھوڑکربھاگ کھڑاہوایوں ان چاروں ٹھگوں نے بکراٹھگ لیا۔


دور حاضر میں ٹھگوں نے اپنا طریقہ کار ، رہن سہن، حلیہ سب کچھ بدل لیا ہے، کچھ پڑھ لکھ کر سیاہ ست میں آ گئے ، کچھ بیورو کریٹس بن گئے کچھ عسکری شعبہ میں شامل ہو کر نام کما رہے ہیں، کچھ نے ڈاکٹری کا لیبل لگا لیا ہے کچھ نے کاروبار کا، غرض یہ کہ پہلے یہ لوگ پہچانے جاتے تھے لیکن ابھی ان کو پہچاننے کے لیئے ایک مخصوص نظر کی بلکہ نظریہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا کریں ہم لوگ محور سے ہٹنے اور گمراہی پر چلنے کی وجہ سے اس بصارت سے محروم ہو چکے ہیں، ہم نے ذاتی و معاشرتی برائیوں کو اپنی مجبوری کا لبادہ اوڑھا رکھا ہے اور اس کی دلیلیں کچھ یوں دیتے ہیں:

رشوت: کیا کریں مجبوری ہے، میٹر لگوانا ہے، بچے کا داخلہ کرنا ہے، نوکری لینی ہے، کام جلدی کرانا ہے، باہر جانا ہے۔

چور بازاری: کیا کریں مجبوری ہے، ٹماٹر 80روپے کلو نا لیں توکیا کریں، گوشت اصل قیمت سے دوگنا میں نا لیں تو کیا کریں۔

زخیرہ اندوزی: کیا کریں مجبوری ہے، نہیں کریں گے تو زیادہ منافع کیسے ہو گا اور ویسے بھی سبھی کرتے ہیں، اگلے سال پتہ نہیں اتنی کمائی ہو نا ہو۔

جھوٹ: جس جھوٹ سے کوئی کام بنتا ہو وہ جھوٹ تھوری ہوتا ہے، اب دیکھو نا جھوٹ بول کر جو اثاثہ جات لکھوائے ہیں اگر سچ بولا ہوتا تو اولاد کے مستقبل کا کیا ہوتا۔

سیاہ ست: کیا کریں مجبوری ہے، کوئی نا کوئی تو حکومت میں آنا ہی ہے، اب میں یا تم تھوڑی اسمبلی چلایئں گے۔ ویسے بھی یہ خاندانی (چور) لوگ ہیں، کل کوئی کام ہوا تو آرام سے کرا دیں گے۔

ووٹ: کیا کریں مجبوری ہے، ڈالیں یا نا ڈالیں حکومت تو بن ہی جانی ہے، سو جو دروازے پر مانگنے آیا ہے اسی کو دے دیتے ہیں، اتنا ٹائم کس کے پاس کے جا کر دیکھیں بندے کا ماضی کیا ہے۔

سیاستدان: کیا کریں مجبوری ہے، سب چور ہیں، لٹیرے ہیں، غاصب ہیں، قاتل ہیں، ظالم ہیں لیکن اور کوئی آپشن جو نہیں۔

فوج: ہمیشہ سے زندہ باد ہے اور رہے گی، کوئی مجبوری تو نہیں لیکن ڈر ضرور ہے کہ اگر فوج کی چھیڑا یا احتساب کیا تو ناراض نا ہو جایئں اس لیئے جو کر رہے ہیں کرنے دو، آخر کو سرحدوں کی حفاظت تو کر ہی رہے ہیں (کونسی سرحدوں کی یہ آج تک ہمیں خود بھی نہیں پتہ)

معاشرتی برائیاں: کیا کریں مجبوری ہے، ساری دنیا کا دستور ہے اب ہم نے کر لیا تو کیا ہوا سبھی کرتے ہیں۔ مثلا سگنل کی خلاف ورزی، کوڑا کرکٹ گھر سے نکال کر گلی یا سڑک پر پھینکنا، بجلی چوری کرنا، گیس چوری کرنا، پانی چوری کرنا، ٹیکس چوری کرنا۔ کوئی مرتا ہے تو مرنے دو کون اس جھنجٹ میں پڑے گورنمنٹ کا کام ہے۔

سو ٹھگ بھی حیران ہیں کہ وہ ہمیں لوٹتے جاتے ہیں، پر ہم پھر بھی زندہ ہیں ٹھیک ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم دو چار دن بین کرتے ہیں روتے ہیں اور پھر اسی روش پر چل پڑتے ہیں۔ یعنی کہ ہم بھی ٹھگ ہیں_________________________

اوپر والے ہمیں ٹھگتے ہیں اور ہم!!!!!!
اپنی زمین کو
اپنے ضمیر کو
اپنی اخلاقیات کو
اپنی مذہبی معاشرتی اقدار کو
اپنے آپ کو

ٹھگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کر رہا ہے اوپر والا کر رہا ہے!!!!!

Monday, 19 December 2011

+_+_ نا بھلا پاو گے _+_+

تم میری آنکھ کے تیور نا بھلا پاو گے
انکہی بات کو سمجھو گے تو یاد آوں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آوں گا
اس جدایی میں تم اندر سے بکھر جاو گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آوں گا
اسی انداز میںہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آوں گا
میری خوشبو تمہیںآے گی گلابوں کی طرح
اگر خود سے نا بولوگے تو یاد آوں گا
آج تم محفل یاراں پے ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھروگے تو یاد آوں گا
سرد راتوں کے مہکتے ہوےسناٹوں میں
جب کسی پھول کو چوموگے تو یاد آوں گا
اب تو یہ اشک میں ہونٹوں سے چر لیتا ہوں
ہاتھ سے خود انہیں پونچھوگے تو یاد آوں گا
حادثے آییں گے جیون میں تو ہوگے نڈھال
کسی دیوارکو تھامو گے تو یاد آوں گا
شال پہناے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگوگے تو یاد آوں گا
اس میں شامل مرےبخت کی تاریکی بھی
تم سیہ رنگ جوپہنوگے تو یاد آوں گا

+_+_کوئی شام گھر بھی رہا کرو_+_+

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

__بنے تو سہی__

مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی
کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی
پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے
کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی
کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی
وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی
جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں
برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی
کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے
کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی
دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کیلیے
کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی
جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی

.::::میری زندگی تو فراق ہے::::.

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی
تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

Thursday, 15 December 2011

باپ کی شان

اپنے باپ سے منہ نا پھیرو، جس نے اپنے باپ سے منہ پھیرا اس نے کفر کیا
صیحح بخاری شریف: کتاب الفرائض: حدیث: 6768 صفحہ نمبر 565

1- باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرئے۔
2- باپ کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نا سننی پڑیں۔
3- باپ کے سامنے اونچا نا بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گا۔
4- باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو تا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دنیا میں بلند کرے۔
5- باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہو سکو۔
6- باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نا گریں ورنہ، اللہ تعالٰی تمہیں جنت سے گرا دیں گے۔

Monday, 12 December 2011

پرانا زخم پھر تازہ ہوا



درد پھر جاگا، پرانا زخم پھر تازہ ہوا

فصلِ گُل کتنے قریب آئی ہے، اندازہ ہوا

صبح یوں نکلی، سنور کے جس طرح کوئی دُلہن
شبنم آویزہ ہوئی، رنگِ شفق غازہ ہوا

ہاتھ میرے بُھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مُجھ پر جب سے اُس کے گھر کا دروازہ ہوا

ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اُس کو رُخصت کرکے گھر لَوٹے تو اندازہ ہوا

Sunday, 11 December 2011

زرا سا ٹہر اے دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کوئی کندھا نہیں دیتا

محبت کے سفر میں
کوئی بھی رستہ نہیں دیتا

زمیں واقف نہیں بنتی
فلک سایہ نہیں دیتا

خوشی اور دکھ کے موسم
سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں

کسی کو اپنے حصے کا
کوئی لمحہ نہیں دیتا

اداسی جس کے دل میں ہو
اسی کی نیند اڑتی ہے

کسی کو اپنی آنکھوں سے
کوئی سپنتا نہیں دیتا

اٹھاناخود ہی پڑتا ہے
تھکا ٹوٹا بدن اپنا

کہ جب تک سانس چلتی ہے
کوئی کندھا نہیں دیتا

Saturday, 10 December 2011

...::::Beauty of Math::::...



Absolutely amazing!
Beauty of Math!

1 x 8 + 1 = 9
12 x 8 + 2 = 98
123 x 8 + 3 = 987
1234 x 8 + 4 = 9876
12345 x 8 + 5 = 98765
123456 x 8 + 6 = 987654
1234567 x 8 + 7 = 9876543
12345678 x 8 + 8 = 98765432
123456789 x 8 + 9 = 987654321

1 x 9 + 2 = 11
12 x 9 + 3 = 111
123 x 9 + 4 = 1111
1234 x 9 + 5 = 11111
12345 x 9 + 6 = 111111
123456 x 9 + 7 = 1111111
1234567 x 9 + 8 = 11111111
12345678 x 9 + 9 = 111111111
123456789 x 9 +10= 1111111111

9 x 9 + 7 = 88
98 x 9 + 6 = 888
987 x 9 + 5 = 8888
9876 x 9 + 4 = 88888
98765 x 9 + 3 = 888888
987654 x 9 + 2 = 8888888
9876543 x 9 + 1 = 88888888
98765432 x 9 + 0 = 888888888

Brilliant, isn't it?

And look at this symmetry:

1 x 1 = 1
11 x 11 = 121
111 x 111 = 12321
1111 x 1111 = 1234321
11111 x 11111 = 123454321
111111 x 111111 = 12345654321
1111111 x 1111111 = 1234567654321
11111111 x 11111111 = 123456787654321
111111111 x 111111111=12345678987654321





Now, take a look at this...





From a strictly mathematical viewpoint,

What Equals to 100%?
What does it mean to give MORE than 100%?


Ever wonder about those people who say they are giving more than 100%...

We have all been in situations where someone wants you to

GIVE OVER 100%.
How about ACHIEVING 101%?

What equals to 100% in life?


Here's a little mathematical formula that might help answering these questions:


If:

A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T U V W X Y Z

Is represented as:

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26


It is
H-A-R-D-W-O-R- K

8+1+18+4+2 3+15+18+11 = 98%

And

K-N-O-W-L-E-D-G-E

11+14+15+23+12+5+4+7+5 = 96%

But
A-T-T-I-T-U-D-E
1+20+20+9+20+21+4+5 = 100%

AND
L-O-V-E-O-F-G-O-D

12+15+22+5+15+6+7+15+4 = 101%


Therefore, one can conclude with mathematical certainty that:

While Hard Work and Knowledge will get you close and Attitude will get you there...
It's the Love of God that will put you over the top!!!

Tuesday, 6 December 2011

چالیس ہزار روپے میں پاکستانی گھر سولر انرجی پر منتقل ہو سکتا ہے



موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔پاکستان میں اس شعبے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ عام افراد اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اس موضوع پر گفتگو کے لیے امریکی ادارے نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ، جس میں ٹیلی فون کے ذریعے اسلام آباد سے پاکستان آلٹر نیٹ انرجی بورڈ کے چیئر مین عارف علاؤالدین صاحب ، کراچی سے یو این ڈی پی کے پاکستان میں جاری سمال گرانٹس پروگرام کے نیشنل کوآرڈی نیٹر مسعود لوہار، لاس اینجلس کیلی فورنیا سے سولر انرجی کے ماہر اور دنیا بھر میں ایل ای ڈی لائٹنگ سے متعلق صف اول کی ایک کمپنی لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او، جناب پرویز لودھی ، اور کراچی سے پاکستان میں سولر پینل بنانے والی ایک ممتاز کمپنی شان ٹکنالوجیز کے سولر ایکسپرٹ شاہد صدیقی شریک ہوئے۔

لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او پرویز لودھی نے کہا کہ شمسی توانائی کا استعمال گزشتہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے بارے میں عام لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور وہ کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سولر پینلز سورج سے بہت سی روشنی کو لے کرقلیل مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اس کا استعمال احتیا ط سے کرنا چاہیے اور روشنی کے لیے ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے چاہیں۔
اسد محمود نے کہا کہ صرف ایل ای ڈی بلب ہی نہیں بلکہ گھر کی دوسری چیزیں بھی سولر انرجی سے مطابقت رکھنے والی ہونی چاہیں ۔ سولر انرجی ڈی سی کرنٹ پیدا کرتی ہے اس لیے اس پر وہی مشینیں چلانی چاہییں جو ڈی سی کرنٹ پر چلیں اور سولر سسٹم کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے ساتھ منسلک دوسرے آلات بھی انرجی ایفیشنٹ ہونے چاہییں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سولر سسٹم کی موجودہ لاگت کے پیش نظر پریکٹیکل یہ ہے کہ گھر کا پورا سسٹم سولر پر نہ کریں بلکہ صرف اسے بیک اپ کے طور پر استعمال کریں۔بالکل اسی طرح جیسے بجلی چلے جانے کی صورت میں جنریٹر کو بیک اپ کے طور پر رکھا جاتاہے ۔
شاہد صدیقی صاحب نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں لوگ سولر سسٹم لگانے کے لیے موجود ہیں لیکن یہ سولر پینل الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص انسٹال کر سکتا ہے ۔

متبادل توانائی کے بورڈ کے چئیر مین عارف علاؤالدین نے جنریٹر اور سولر انرجی کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سولر سسٹم زیادہ سستا پڑے گا لیکن اس وقت سسٹم میں استعمال ہونےوالی بیٹری مہنگی ہے ۔ سولر پینل 21سے 25 سینٹ فی گھنٹہ کی بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔عارف علاؤالدین نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر انرجی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے حکومت بجلی خرید سکتی ہے اور ایک کلو واٹس یااس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات درا ٓمد کرنے کے لیے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی ہے ۔ا نہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سولر پینل کے ساتھ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ کے پاس زائد بجلی ہے اور آپ کسی وجہ سے اس بجلی کو استعمال نہیں کر رہے اور اسے گرڈ میں ڈال دیں تو حکومت وہ اضافی سولر بجلی خرید سکتی ہے ۔

عارف علاؤالدین نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز سولر بجلی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا ادارہ بھی مختلف مقامات پر اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن اس کا سب سے بڑاپراجیکٹ وہ تھا جس کے تحت مٹھی میں پچاس دیہاتوں میں تیس ہزار گھروں کو سولر انرجی فراہم کی گئی اور ہر گھر کو کو دو دو لائٹس اور ایک ایک پنکھا چلانے کے لیے سولر سسٹم لگا کر دیا تو اس پورے سسٹم پر ایک گھر میں چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اب جب کہ پینلز اور دوسرے متعلقہ آلات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اس لاگت میں اور کمی ہو سکتی ہے

شرک کی انتہا۔

Monday, 5 December 2011

اک چھوٹا سا لڑکا

اک چھوٹا سا لڑکا تھا
میں جن دنوں
اک میلے میں
پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا
ہر اک شے مول لوں
جیب خالی تھی
کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیئے حسرتیں سینکڑوں

اور آج میلہ لگا ہے
اسی شان سے
آج چاہوں تو
سارا جہاں مول لوں
آج چاہوں تو
اک اک دوکان مول لوں
نارسائی کا اب
دل میں دھڑکا کہاں
پر وہ الہڑ سااب
چھوٹا لڑکا کہاں

شاعر ابن انشاء!!!!!

Thursday, 1 December 2011

الّلہ سے ڈرنے والے

دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو الّلہ کے ڈر سے خالی ہوں۔ ایسے لوگ خواہ زبان سے الّلہ کا نام لیتے ہوں، مگر ان کے سینہ میں الّلہ کے ڈر کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ وہ اس طرح رہتے ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہیں جو چاہیں کریں ۔ ان کے سامنے سارا سوال بس دنیا کےنفع نقصان کا ہوتا ہے۔ جس کام میں نفع نظر آئے اس کی طرف دوڑنا اور جس کام میں نقصان کا اندیشہ ہو اس سے رک جانا، یہ ان کا مذہب ہوتا ہے۔ کسی چیز کا اصولی طور پربر حق ثابت ہو جانا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ ہمیشہ‘‘ دلیل’’ کے بجائے ‘‘مفاد’’ کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔ کوئی کام کرتے ہوئے وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس معاملہ میں الّلہ کی مرضی کیا ہے یا یہ کہ وہ الّلہ کے سامنے کیوں کر بری الزمہ ہو سکتے ہیں وہ وہاں جھک جاتے ہیں جہاں ان کا نفس جھکنے کے لئے کہے۔ اور وہاں اکڑ جاتے ہیں جہاں ان کا نفس اکڑنے کی ترغیب دے۔ وہ الّلہ سے بے خوف زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تا کہ الّلہ کی عدالت میں حساب دینے کے لئے کھڑے کر دیے جائیں۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں حرام و حلال کا لحاظ رہتا ہے۔ ان کو یہ خیال آتا رہتا ہے کہ مرنے کے بعد الّلہ کے یہاں حساب کتاب کے لئے حاضر ہونا ہے۔ عام حالات مین وہ الّلہ سے ڈر کر زندگی گزارتے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں کسی کو ان سے حق تلفی اور بےاخلاقی کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تاہم وہ اپنئ نفسیاتی پیچیدگیوں سے اٹھے ہوئے نہین ہوتے۔ ان کا خوف خدا اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ وہ ان کے نفس کےاندر چھپے ہوئے جزبات کا احاطہ کرلے۔ عام حالات میںوہ خدا ترس زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیش آئے تو اچانک وہ دوسری قسم کے انسان بن جاتے ہیں۔ کبھی کسی کی محبت کا لحاظ، کبھی کسی کے خلاف نفرت کا جزبہ،کبھی اپنی عزت کا سوال ان کے اوپر اس طرح غالب آتا ہے کہ ان کا خوف خدا اس کے نیچےدب کر رہ جاتاہے۔ یہ عمل چونکہ اکثر غیر شعوری طور پر ہوتا ہے اس لئے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپراپنے نفس کے اس حملہ سے آگاہ ہوں اوراپنے آپ کو تھامتے ہوئے اپنے کو متقیانہ روش پر قائم رکھیں ، معمول کے حالات میں خدا ترسی کی زندگی گزار نے والا غیر معمولی حالات میں وہی کچھ کر گزرتا ہے جو پہلی قسم کے لوگ اپنے عام زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا انسان وہ ہے جو پورے معنوں ہیں الّلہ سے ڈرنے والا ہے، جو الّلہ کو پہچاننے کے ساتھ خود اپنے آپ کو بھی پوری طرح پہچان چکا ہو۔ ایسا شخص صرف عام حالات ہی میں الّلہ سے نہین ڈرتا بلکہ غیر معمولی حالات میں بھی الّلہ کا خوف اس کا نگراں بنا رہتا ہے۔ کسی کی محبت جب اس کو بے خوفی کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے تو وہ فوراً اس کو دیکھ لیتا ہے۔ کسی سے چھپی ہوئی نفرت جب اس کے نفس میں تیرتی ہے اور اس کو بے انصافی پر اکساتی ہے تو وہ چونک پڑتاہے اور اس سے باخبر ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ ذاتی عزت و وقار کا سوال جب اس کے اندر داخل ہوکر اس کو کسی حق کےاعتراف سے روکتا ہے تو وہ بلا تاخیر اس کو جان لیتا ہے۔ اس طوح وہ اپنی تمام خامیوں سے آگاہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے۔ اس کا مسلسل احتساب اس کو ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو انتہائی بے لاگ نظر سے دیکھ سکے۔ بالفاظ دیگر، وہ اپنے آپ کو اس حقیقی نظر سے دیکھنے لگتا ہے جس نظر سے اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

دعا

‘‘ میرے لئے بائیسکل خرید دیجئے’’ ایک غریب خاندان کے لڑکے نے اپنے باپ سے کہا۔ باپ کے لئے بائیسکل خریدنا مشکل تھا۔ اس نے ٹال دیا ۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ آخر کار ایک روز باپ نے ڈانت کر کہا‘‘ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا۔’’ یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔ وہ کچھ دیر تک چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا‘‘ آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں پھر آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں’’ اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا ۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا ‘‘ اچھا بیٹے ، اطمینان رکھو۔ میں تم کو ضرور بائیسکل دوں گا۔’’ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگلے دن اس نے پیسہ کر کے بیٹے کے لئے نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی۔جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہو گئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطہ پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لئے بھی اتنا بڑا مسئلہ بن گئی جتنا وہ خود اس کے اپنے لئے تھی۔
یہ انسانی واقعہ خدائی واقعہ کی تمثیل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دعا ہےجو لوٹائی نہیں جاتی۔ یہ وہ دعا ہےجس میں بندہ اپنے پوری ہستی کو انڈہل دیتا ہے ۔ جب بندہ کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین و آسمان بھی نہ کر سکیں۔جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کرلیتا ہے کہ ‘‘ بیٹا’’ اور ‘‘ باپ’’ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہےجب کہ دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔
اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو جاتے ہیں۔ قادر مطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میںلےلیتا ہے۔