Saturday, 22 November 2014

حیدر آباد دکن کا شیر


حیدر آباد دکن کا شیر
میری معلومات شاید ان کے بارے میں زیادہ نا ہوں لیکن جب پہلی بار جناب محترم بیریسٹر اسد الدین اویسی کو انڈین پارلیمنٹ میں بولتے سنا تو میں جیسے کچھ لمحوں کے لیئے حیران اور کنگ و ششدر رہ گیا، کیا آواز کیا رعب کیا دبدبہ اور بات کرنے میں زرا برابر بھی جھجھک یا گھبراہٹ یا پریشانی نا تھی۔
اور بولنے کا انداز ایسا کہ جیسے کوئی شیر دھاڑ رہا ہو۔ واہ کیا بات ہے دل شاد ہو گیا
تو ان سے ملتے ہیں یہ ہمارے بہت ہی محترم جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب جن کو میں حیدر آباد دکن کا شیر کہتا ہوں۔ یہ وہ آواز ہے جو مسلمانوں کے حقوق کے لیئے اکثر آپ کو صرف بلند ہوتی نہیں بلکہ دھاڑتی ہوئی سنائی دئے گی۔
کچھ ابتدائی تعارف یوں ہے
اسدالدین اویسی صاحب حیدرآباد، آندھراپردیش کے دارالحکومت میں ۱۹۶۹ میں پیدا ہوئے۔ اسد صاحب ہندوستان کی قومی سیا سی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ہیں۔اسد صاحب کو نقیب ملت کا لقب دیا گیا ہے۔ نقیب ملت جناب اسدالدین اویسی حیدرآباد کے مسلسل 3 مرتبہ ممبر پارلمینٹ رہ چکے جناب سالارِ ملت جناب الحاج سلطان صلاح الدین اویسی کے فرزند ہیں اور جناب اکبرالدین اویسی کے بڑے بھائی ہیں۔
اور آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک اسد الدین اویسی جیسے دلیر ، باہمت اور شیر دل انسان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے لمبی عمر عطاء فرمائے اور حق گوئی پر ہمیشہ قائم رکھے۔
آمین ثم آمین۔
از: راشد ادریس رانا ـ22 نومبر، 2014
فیس بک: میں بھی پاکستان ہوں

Monday, 10 November 2014

اب شہر سے مجھ کو نفرت ہے


ایک کہانی ایک جوانی

ایک کہانی ایک جوانی
=======================
10-11-2014 از: راشد ادریس رانا
=======================

ٹانگ میں لگی گولی اور پانی کے طرح بہتے خون کے باوجود اسے ہوش تھا، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک وہ نوجوان بلکہ ایک خوبرو نوجوان اپنی ٹانگوں پر ٹھیک ٹھاک تھا۔
لیکن چند لمحوں نے اس کی زندگی کو موت کے دھانے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ میں نے جلدی سے اس سے بیان لینے کی کوشش کی تو حیرت ہوئی وہ مسکرا پڑا ، ایک عجیب کرب سے بھرپور  مسکراہٹ ، اس نے جذبات سے بھرپور آواز میں کہا یہ مت پوچھو کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟؟
میں حیرت انگیز انداز میں ہکا بکا اس کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ریسکیو کی گاڑی آ گئی اور اس کو طبی امداد دی جانے لگی۔ اس کے بعد وہی کاغذی کاروائی اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک ڈکیٹی کی واردات کی آنکھوں دیکھی کانوں سنی کہانی تھی۔
کچھ دن بعد اس نوجوان سے ہسپتال میں ملاقات ہوئی ایک ٹانگ پٹیوں سے لپٹی اور دوسری بیڑی سے جکڑی ہوئی ۔ مجھے جانے کیوں اس پر بہت ترس آیا۔

میں نے سلام دعا کے بعد اس کی خیریت پوچھی تو بہت سائشتہ لب و لہجہ میں مجھ سے بات کرنے لگا۔ پھر مجھے حیران کن خاموشی میں مبتلا دیکھ کر بولا اس سے پہلے کہ آپ پوچھیں میں آپ کو خود بتلا دیتا ہوں

میں ایک ایم ایس سی پاس نوجوان ہوں، چند ماہ پہلے تک میں ایک نارمل انسان تھا، میرے خواب تھے آرزوویں تھی خواب تھے ۔

ایک شام ہر روز کی طرح نوکری یا کام کی تلاش کے بعد تھکا ہارا اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا، کہ اپنی گلی کا موڑ مڑتے ہی چند نقاب پوش لڑکوں نے پستول کے زور پر مجھے روک لیا۔ میں ویسے ہی کئی دنوں سے روزگار نا ملنے پر پریشان تھا اور اوپر سے یہ مصیبت آن پڑی تھی ، انہوں نے بہت شرافت سے مجھ سے سارا کچھ نکالنے کا کہا، میں نے اپنا موبائل بٹوا ان کے حوالے کر دیا۔

موبائل کو دکھ کر ایک لڑکے نے بہت غصے سے میری طرف دیکھا پھر میرا پرس کھولا جس میں صرف 35 روپے تھے وہ بھی ابا جی سے صبح پیسے لیئے تھے کرائے کے لیئے تو باقی بچ گئے تھے، خیر ان کومایوسی تو ہوئی لیکن شاید مایوسی سے زیادہ غصہ تھا، کیوں کہ انہوں نے ملکر مجھے خوب مارا اور اتنا مارا کہ بس شکر ہے گولی نہیں ماری اور جاتے جاتے کہہ گئے 

بے شرم اور بے غیرت ہو تم ، کس بات کے جوان ہو لعنت ہو تمہاری جوانی پر کہ تمہارے پاس صرف 35 روپے اور وہ بھی تمہارے باپ کے دیئے ہوئے۔ بے غیرت اگر کوئی کام نہیں تو ڈکیتیاں کرنے لگ جاو۔

کافی دن تک گھر پر پڑا رہا اور سوچتا رہا، پہلے ہی میں ماں باپ اور گھر کے ساتھ ساتھ ایک دھرتی کا بوجھ تھا اور اوپر سے ان کی کہی ہوئی  بات نے دماغ پر دل پر ایسا اثر کیا کہ جس دن میں ٹھیک ہوا اور اپنے قدموں پر چلنے پھرنے لگا
اسی دن میں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔

مجھے پتا تھا ایک نا ایک دن ایسا ہی انجام ہو گا، اور شاید اس دن مجھے یقین تھا کہ میرا آخری وقت ہے اسی لیئے میں نے تمہیں کہا تھا 
یہ مت پوچھو 
کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟

میں اس کی بات سن کرگم صم بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ ہماری نوجوان نسل ہے جس کو آج ہمارے سسٹم ، ہمارے لوگوں ، ہماری سرکار اور ہمارے اعمال نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔

Saturday, 8 November 2014

لاٹ صاحب............ منتخب تحریر

لاٹ صاحب.......................ظفر جی کے قلم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے نام کیا تھا...لیکن "لاٹ صاحب" کہلاتے تھے- انگریز تھے...وہ بھی برطانوی نژاد- خوشاب اس وقت تحصیل تھی اور یہ اس کے لاٹ صاحب بن کر آئے.....علاقے بھر میں خوب دبدبا تھا....اور خوشامدی سدا انکی نگاہ التفات کے منتظر رہتے-
ایک سال وادی میں اتنا سوکھا پڑا کہ یہاں کی گہری جھیل بھی سوکھ گئ...اور اسکی گہرائ کے بارے میں مشہور سارے افسانے طشت از بام ہو گئے- جانور مرنے لگے اور لوگ بھی-
پتا نہیں کسی مولوی صاحب نے مشورہ دیا یا لاٹ صاحب کا اپنا فیصلہ تھا....... ایک دن آس پاس کی بستیوں میں اعلان کروایا دیا کہ آج بارش کے واسطے قران خوانی لاٹ صاحب کے بنگلے پر ہو گی- آس پاس گاؤں سے لوگ سیپارے اٹھائے دوڑے چلے آئے .... بنگلے کے باہر تمبو قناطیں لگادی گئیں....چناچہ...شربت کی سبیلوں......اور دیگ ہائے بریانی کی کھڑکھڑاہٹ میں......لوگ لہک لہک کر تلاوت کرنے لگے.....لاٹ صاحب بار بار باہر نکلتے......پریشانی میں آسمان کی طرف دیکھتے....اور ....still no chance کہتے اندر چلے جاتے....شام تک لوگ کھا پی کر چلے گئے...لیکن بارش کے آثار تک نمودار نہ ہوئے- اگلے دو دن تک یہی حال رہا.......لوگ پہلے سے زیادہ آنے لگے.....تلاوت کرتے....بریانی اڑاتے...اور گھر کی راہ لیتے-
تیسرے یا چوتھے دن جب لوگ آئے تو تمبو قناط دیگیں غائب تھیں.....لوگ واپس مڑنے لگے تو بتایا گیا کہ قران خوانی ہوگی...لیکن دھوپ میں بیٹھ کر.....چنانچہ اکثر تو واپس لوٹ گئے اور محدودے چند چاروناچار بیٹھ گئے- لاٹ صاحب باہر تشریف لائے اور کہا کہ جب تک بارش نہیں ہو گی......نہ تو پانی دیا جائے گا....نہ کھانا....اور نہ ہی کوئ اٹھ کے جائے گا- جو واپس جانا چاہتا ہے ابھی چلا جائے...کوئ زبردستی نہیں ہے.....چناچہ کچھ اور لوگ کپڑے جھاڑتے اٹھ کے واپس چل دیے اور آٹھ دس آدمی میدان کارزار میں...جم کر بیٹھ گئے.....چناچہ تلاوت شروع ہوئ...آسمان پر بادل کا نام و نشان نہیں تھا....پیاس سے پپڑیاں جمنی شروع ہوئیں...لوگ نہ تو اس پیاس میں واپس جا سکتے تھے اور نہ ہی آج لاٹ صاحب سے کچھ امید .تھی.....ہمت و حوصلہ جواب دے رہا تھا...آج آسمان کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے کا فریضہ لاٹ صاحب کی بجائے یہی لوگ سرانجام دے رہے تھے....نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتیں اور پھر تلاوت و دعا میں مستغرق ہو جاتیں...دعاؤں کے لیے بار بار ہاتھ اٹھتے...انکھوں سے آنسو..رواں تھے......تب جا کر کہیں سے ایک ٹکڑا بادل کا نمودار ہوا.... باد نسیم چلی.....اور وہ مونسلادھار بارش ہوئ کہ چہار سو جل تھل ہو گیا...............!!!
لاٹ صاحب بھیگتے ہوئے بنگلہ سے نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے....." ام جانتا تھا....گاڈ......کے لیے...بارش....کوئ......پرابلم نہیں....پرابلم.... ٹم...لوگ ..ہو جو گاڈ سے دو ڈراپ واٹر کے لیے بی دو منٹ "سیریس" ہو کر بات نئیں کر سکتا........!!!!
لاٹ صاحب قیام پاکستان کے بعد یہیں بس گئے اور واپس برطانیہ نہیں گئے یا شاید "میم صاحب" کی قبر چھوڑ کر جانا گوارا نہ ہوا- اور 56 میں فوت ہوئے- اُن کی قبر ادھر ہی سرکی موڑ کے پاس ہے-