ایک کہانی ایک جوانی
=======================
10-11-2014 از: راشد ادریس رانا
=======================
ٹانگ میں لگی گولی اور پانی کے طرح بہتے خون کے باوجود اسے ہوش تھا، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک وہ نوجوان بلکہ ایک خوبرو نوجوان اپنی ٹانگوں پر ٹھیک ٹھاک تھا۔
لیکن چند لمحوں نے اس کی زندگی کو موت کے دھانے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ میں نے جلدی سے اس سے بیان لینے کی کوشش کی تو حیرت ہوئی وہ مسکرا پڑا ، ایک عجیب کرب سے بھرپور مسکراہٹ ، اس نے جذبات سے بھرپور آواز میں کہا یہ مت پوچھو کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟؟
میں حیرت انگیز انداز میں ہکا بکا اس کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ریسکیو کی گاڑی آ گئی اور اس کو طبی امداد دی جانے لگی۔ اس کے بعد وہی کاغذی کاروائی اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک ڈکیٹی کی واردات کی آنکھوں دیکھی کانوں سنی کہانی تھی۔
کچھ دن بعد اس نوجوان سے ہسپتال میں ملاقات ہوئی ایک ٹانگ پٹیوں سے لپٹی اور دوسری بیڑی سے جکڑی ہوئی ۔ مجھے جانے کیوں اس پر بہت ترس آیا۔
میں نے سلام دعا کے بعد اس کی خیریت پوچھی تو بہت سائشتہ لب و لہجہ میں مجھ سے بات کرنے لگا۔ پھر مجھے حیران کن خاموشی میں مبتلا دیکھ کر بولا اس سے پہلے کہ آپ پوچھیں میں آپ کو خود بتلا دیتا ہوں
میں ایک ایم ایس سی پاس نوجوان ہوں، چند ماہ پہلے تک میں ایک نارمل انسان تھا، میرے خواب تھے آرزوویں تھی خواب تھے ۔
ایک شام ہر روز کی طرح نوکری یا کام کی تلاش کے بعد تھکا ہارا اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا، کہ اپنی گلی کا موڑ مڑتے ہی چند نقاب پوش لڑکوں نے پستول کے زور پر مجھے روک لیا۔ میں ویسے ہی کئی دنوں سے روزگار نا ملنے پر پریشان تھا اور اوپر سے یہ مصیبت آن پڑی تھی ، انہوں نے بہت شرافت سے مجھ سے سارا کچھ نکالنے کا کہا، میں نے اپنا موبائل بٹوا ان کے حوالے کر دیا۔
موبائل کو دکھ کر ایک لڑکے نے بہت غصے سے میری طرف دیکھا پھر میرا پرس کھولا جس میں صرف 35 روپے تھے وہ بھی ابا جی سے صبح پیسے لیئے تھے کرائے کے لیئے تو باقی بچ گئے تھے، خیر ان کومایوسی تو ہوئی لیکن شاید مایوسی سے زیادہ غصہ تھا، کیوں کہ انہوں نے ملکر مجھے خوب مارا اور اتنا مارا کہ بس شکر ہے گولی نہیں ماری اور جاتے جاتے کہہ گئے
بے شرم اور بے غیرت ہو تم ، کس بات کے جوان ہو لعنت ہو تمہاری جوانی پر کہ تمہارے پاس صرف 35 روپے اور وہ بھی تمہارے باپ کے دیئے ہوئے۔ بے غیرت اگر کوئی کام نہیں تو ڈکیتیاں کرنے لگ جاو۔
کافی دن تک گھر پر پڑا رہا اور سوچتا رہا، پہلے ہی میں ماں باپ اور گھر کے ساتھ ساتھ ایک دھرتی کا بوجھ تھا اور اوپر سے ان کی کہی ہوئی بات نے دماغ پر دل پر ایسا اثر کیا کہ جس دن میں ٹھیک ہوا اور اپنے قدموں پر چلنے پھرنے لگا
اسی دن میں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔
مجھے پتا تھا ایک نا ایک دن ایسا ہی انجام ہو گا، اور شاید اس دن مجھے یقین تھا کہ میرا آخری وقت ہے اسی لیئے میں نے تمہیں کہا تھا
یہ مت پوچھو
کہ کیا کِیا کیسے کِیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پوچھو کیوں کیا؟؟؟
میں اس کی بات سن کرگم صم بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ ہماری نوجوان نسل ہے جس کو آج ہمارے سسٹم ، ہمارے لوگوں ، ہماری سرکار اور ہمارے اعمال نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔