ثمامہ بن اثال، یمامہ کے علاقے کا حکمران تھا، ثمامہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ اس نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ الله قتل کرنے کا چیلنج دے رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الله سے اس پر قابو پانے کی دعا فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ ثمامہ عمرہ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ اس کی خوش قسمتی کہ وہ راستہ بھول کر مدینہ طیبہ کے قریب آ نکلا اور مسلمان سواروں کی گرفت میں آ گیا۔ چونکہ یہ شخص اپنے کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے، اس لیے اسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستوں سے باندھ دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اے ثمامہ کیا خبر ہے؟
اس نے عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) خیر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے ۔آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔
اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (اسے بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا)
اس نے عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) خیر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے ۔آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔
اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (اسے بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا)
ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کا اسیر ہوگیا۔ وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے، اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مشورہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے۔
جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا کیا تم بے دین ہو گئے اس نے کہا نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت نہ فرما دیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب الجہاد:حدیث نمبر 71
صحیح بخاری:جلد دوم:باب غزوات کا بیان:حدیث نمبر 383
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب الجہاد: حدیث نمبر201
صحیح بخاری:جلد دوم:باب غزوات کا بیان:حدیث نمبر 383
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب الجہاد: حدیث نمبر201
اپنے وطن پہنچ کے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات پر عمل کیا اور مکہ مکرمہ کو اناج کی سپلائی بند کر دی ۔ مکہ میں قحط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اہل مکہ نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا، جس میں اپنی قرابت داری کا واسطہ دیا اور درخواست کی کہ ثمامہ کے نام گندم کی ترسیل کے لیے حکم جاری فرمائیں۔
غور کیجیے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عالی ظرف اور اعلیٰ اخلاق والے تھے کہ باوجود اہل مکہ کے زبردست مظالم کے آپ نے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھجوایا کہ اہل مکہ کے لیے گندم کی سپلائی بحال کر دیں۔ کیا ایسے نادر اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا میں کوئی اور مثال نظر آتی ہے؟