سیاہ دلی نا چھپی سیاہ لباس میں
یزیدیت نے دکھلایا ہے مکروہ چہرہ
افسوس ناک واقعہ اور دل دھلا دینے والی حقیقت۔ اندر کی سیاہی کو سیاہ لباس بھی نا چھپا سکا۔ یہ حادثہ اتنا حادثاتی تھا کہ اس کے لیئے اسلحہ اور پیٹرول کے کین پہلے سے تیار کیئے ہوئے تھے۔ مسجد ومدرسہ اور بازار کی دکانیں پہلے سے لسٹ میں شامل تھیں۔ میڈیا کو بھی بریفنگ تھی کہ خاموشی کے ساتھ اپنے باپ ٹنڈولکر کے ساتھ اپنی والدہ اور بہنوں کے سکینڈل چلاتے رہنا تاکہ بے ضمیر سوئی ہوئی عوام کو جاگنے کا کوئی موقع نا ملے۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ سب کچھ کرنے والے یہ مت سوچیں کے ان کو فتح ہوئی اور کوئی معر کہ جیت کر وہ فاتح بن گئے۔ نہیں یہ میدان جنگ نہیں جہاں لوگ لاشیں سمیٹ کر اپنے شہدا کو لیکر رخصت ہوگئے۔ آگ تو لگی ہے ابھی چنگاریاں اٹھی ہیں۔ ساری عوام مر گئی بے ضمیر ہوگئی، لیکن جن کے شہید ہوئے ہیں ، جن کو بے قصور چھریوں اور تلواروں کی نظر کیا گیا وہ ابھی زندہ ہیں۔
لوگ کہتے ہیں خود کش کیسے بنتے ہیں، کیسے کوئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک بٹن دبا کر اس کے ہزاروں ٹکڑئے ہو جائیں گے۔ پھر بھی وہ اس آگ میں کود جاتا ہے۔
تو ان کو جواب سمجھ آ جانا چاہیئے۔
ڈرون اٹیک ہو یا دھشت گردی کے نام پر پاک آرمی کا آپریشن یا پھر سیاہ لباس میں دھشت گرد جو مظلومین کے غم کے بہانے، بھیڑ کی کھال پہنے بھیڑیے ہوں۔ جب ظلم اپنی حدوں کو چھوتا ہے تو مرنے والے کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے بھی مر جاتے ہیں۔
اور جو پہلے ہی مرا ہوا ہو اس کو مزید مرنے سے کون روک سکتا ہے۔
اگر انصاف نا ہوا، اگر انصاف نا ہوا
تو یاد رکھیں کہ خود کشوں کی ایک نئی کھیپ جلد مارکیٹ میں آنے والی ہے ۔ جو ہاتھ کے بدلے ہاتھ، ، بازو کے بدلے بازو، خون کے بدلے خون والا معاملہ ہوگا۔
اینٹ سے اینٹ بجے گی اور پھر کچھ نام نہاد معصومین اور مظلومین چاہے وہ اس واقعہ میں شامل تھے یا نا تھے۔ سب ایک ہی چکی میں پسیں گے۔ پھر نا سنی بچیں گے نا شیعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ بم کی کوئی آنکھیں نہیں ہوتیں اور کوئی معیار مقرر ہوتا ہے کہ کس کو مرنا ہے اور کس کو نہیں۔
ایسی ہی ناانصافیاں اور نظام کی بے قاعدگیاں معاشرے میں ایسے لوگ پیدا کرتی ہیں جن کو دھشت گرد کہہ کر بہت آرام سے بری الزمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ اور جس کا خمیازہ ساری قوم ادا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماتم جب تک اپنے گھر میں نہ ہو کبھی اس کی شدت کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ میری جنم بھومی ، ان راستوں کے چپے چپے سے واقفیت، پھران دیکھے چہروں سے شناسائی اور اب وقفے وقفے سے آنے والی اندر کی خبروں نےکہیں بھی کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا سوائے انتظار کے شاید کسی ایک کا ضمیر ہی سب کے سامنے سچ اگل دے۔ اور ہر سانحے کو ذہن میں رکھتے ہوئے تکلیف دہ ضرور ہے کہنا لیکن سچ یہی ہے کہ ہم بے حس قوم تو ہیں لیکن برادشت بھی انتہا کی ہے۔ چند دن پہلے کسی کی پوسٹ پر میں نے لکھا تھا " تم کتنے ڈرون ماروگے پھر بھی ہر گھر سے زندہ نکلیں گے" ہم تو جسم کو دیکھتے ہیں زندہ لاشیں صرف ان کو دکھتی ہیں جن کا ضمیر زندہ ہو۔
ReplyDelete