Wednesday 29 June 2011

مجھے اک نظم لکھنی ہے

اُسے کہنا
کسی بھی خوبصورت شام میں
ملنے چلا آئے


مجھے اک نظم لکھنی ہے

سنہری دھوپ کے جیسا
ترا رنگ روپ اجلا سا

دھلے بارش سے دیکھو تو
حسیں پیارے نظارے ہیں

فلک کے استعارے ہیں
یہ تیری آنکھ جیسے ہیں
سو ان سب پر

مجھے اک نظم لکھنی ہے

اُسے کہنا مری کی
جھومتی چنچل ہواؤں سی

تری اِن شوخ زلفوں پر
مجھے کچھ شعر کہنے ہیں
نشیلی آنکھ میں تیری
شرابوں کی سی مستی ہے

تری ان نرم پلکوں پر
یہ جتنے بھی ستارے ہیں

مجھے ان سب کو چھونا ہے
ترے ان بند ہونٹوں میں
چھپی جو مسکراہٹ ہے

یہی تو شاعری ہے بس

مجھے اک نظم لکھنی ہے

اُسے کہنا
تری آنکھیں بہت کچھ بولتی ہیں
تری باتیں شہد سا گھولتی ہیں
یہ پھولوں پر گری شبنم
ترے گالوں کے جیسی ہے

چمکتی چاندنی جیسی
تری روشن جبیں پر بھی


مجھے اک نظم لکھنی ہے

گھنی شاخوں کے پتوں میں
چھپا وہ چاند پیارا سا

ترے چہرے کے جیسا ہے
ترے اس چاند چہرے پر
مجھے کچھ شعر کہنے ہیں

اُسے کہنا

مجھے اک نظم لکھنی ہے


کسی بھی خوبصورت
شام میں ملنے چلا آئے

مجھے اک نظم لکھنی ہے

No comments:

Post a Comment