Sunday, 8 May 2016

نامکمل خواہشیں

صبح صادق کی روپہلی کرنوں کے ساتھ ہی کچے صحن میں مرغے کی بانگ سے میری آنکھ کھل گئی، باہر نکل کر دیکھاتو بلند و بالا پہاڑ کی اوٹ سے نکلتا سورج اپنی نارنجی کرنوں سے وادی میں نور پھیلائے  میرا منتظر تھا۔ دھیمے قدموں سے جنگلی کیکر کی شاخ سے بنی تازہ مسواک کرتے میں ندی کی طرف چل پڑا۔ ندی جو نا جانے کتنی صدیوں سے ہونہی بلا روک ٹوک اپنی ہی لے میں مگن بہتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ نا جانے کب سے ہلکی ہلکی چھینٹیں اڑاتی اور گنگناتی یہ ندی۔ واپس آتے ہوئے خوبانی کے درخت جو اس موسم کی خوبانیوں کے بوجھ سے جھکے کھڑے تھے بہت بھلے لگے۔

اسی لمحے نا جانے کیوں مجھے ہوں لگا جیسے میں ایک بادشاہ ہوں اور میرے درباری راستے میں سر جھکائے میرے ادب میں کھڑئے ہوے ہیں، یکایک ساری وادی مجھے اپنی راجدھانی لگنے لگی۔

بس اسی ایک لمحے نے ساری زندگی کو تشنگی بنا دیا،گلے میں ایک نامکمل سانس اٹک گئی، دو نمکین آنسو آنکھوں کے اندر ہی ابھرئے اور پھر وہیں کہیں ڈوب کے بے نشان ہو گئے۔

میں نے ناشتہ کیا کپڑے بدلے اور قریبی سڑک پہ آکے کھڑا ہو گیا، جس پہ سے اس واحد بس نے گزرنا تھا جس کو پکڑ کے مجھے قریبی شہر کی سبزی منڈی میں جانا اور اپنی واحد ذریعہ آمدن ریڑھی کو کھولنا تھا۔
از خود
راشد ادریس رانا
قلم نا تواں

No comments:

Post a Comment