کہتے ہیں کہ "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا". سو میں بھی پر امید ہوں. ایک دن وہ دینے والا (واحد لاشریک) میری مانگی ہوئی دعا قبول کرئے گا. وہی تو میرا داتا ہے وہی میرا سب کچھ ہے میں اسی کے در کا فقیر ہوں، میں خاک در خاک ہوں، میں زرہ ناچیز ہوں.
دعا کرتا ہوں، کہ مر کرزمیں دار تو ہو ہی جاوںگا... جیسے شاعر نے خوب کہا:
دو گز زمین
مل ہی گئی مجھ غریب کو
مرنے کے بعد میں بھی
زمیں دار ہوگیا
مل ہی گئی مجھ غریب کو
مرنے کے بعد میں بھی
زمیں دار ہوگیا
لیکن مرنے سے پہلے مجھے بھی زمین چائیے ، میں بہت تنگ ہوگیا ہوں اس شور ھنگامے سے، اس دھول مٹی ، آلودگی سے........
ایک آواز!!!!! "ارے کون کہتا ہے کہ گاوں دیہات میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟"
جواب!!!! "تو بھائی میں اس دھول مٹی کی تو بات بھی نہیں کر رہا"
میں تنگ ہوں شر زدہ، شرم زدہ، شیطان زدہ ماحول سے جس نے میری روح تک کو چھلنی کر دیاہے. صبح اخبار کا صفحہ کھلتے ہی.... خون نظر آنے لگتا ہے. دھماکے میں بہتاخون، بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون،بیٹے کے ہاتھوں پہ باپ کا خون، عصمت لٹاتی بنت حوا کا خون، بکتا خون، گرتا خون، گاڑھا خون، پتلا خون، بستر پر بکھرا خون، گلیوں میں بہتا خون، نالیوں میں کیچڑ اور گٹر کی گندگی کے ساتھ مل کر بہتا خون...... مجھے صاف پانی دیکھنا ہے، مجھے اپنا عکس دیکھنا ہے پانی میں....یہ مجھے پور پور مارے جا رہا ہے یہ ماحول میری روح تک کو زخم دے رہا ہے.
گھر کا دروازہ کھلتا ہےاور مکروہ دھول جس میں انسانیت چلتی پھرتی لاش ہے ہر سو پھیلی نظر آتی ہے...اس دھول میں سب ایک دوسرے کو کھائے جارہے ہیں اور ایک الٹاایک دوسرے پر الزام لگائے جارہے ہیں......
کوئی غریب ہے تو اس کو بھی کھاناہے کوئی امیر ہے تو اسکو بھی کھاناہے. دونوں کی مجبوری بن گئی ہے کھانا...... ایک کو پیٹ بھرنا ہے سو کھانا ہے دوسرے کو نیت بھرنی ہے سو کھانا ہے... نا اس کا پیٹ بھرتا ہے نا اس کی نیت..... کھاو کھاو کھاو.... ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھاو...... ایک سبزی والے نے دو روپے کے عوض ایک بیوہ کو کھا لیا، شام کو بیٹی کی دوا لینے گیا توڈاکٹر نے اس کی بیٹی کو سو روپے کے عوض کھا لیا. ڈاکٹر کی بیوی جب اس کی توجہ نا لے سکی تو اس نے ایک سیاہ ست دان کے بیٹے کو کھا لیا..... سیاہ ست دان نے اپنے علاقے کے ایک یتیم گھر کو دس لاکھ میں کھا لیا. کسی نے مجھے کھا لیا، کسی کو میں نے کھا لیا.... اور الزام دوسرے پر لگا دیا
گھر کا دروازہ کھلتا ہےاور مکروہ دھول جس میں انسانیت چلتی پھرتی لاش ہے ہر سو پھیلی نظر آتی ہے...اس دھول میں سب ایک دوسرے کو کھائے جارہے ہیں اور ایک الٹاایک دوسرے پر الزام لگائے جارہے ہیں......
کوئی غریب ہے تو اس کو بھی کھاناہے کوئی امیر ہے تو اسکو بھی کھاناہے. دونوں کی مجبوری بن گئی ہے کھانا...... ایک کو پیٹ بھرنا ہے سو کھانا ہے دوسرے کو نیت بھرنی ہے سو کھانا ہے... نا اس کا پیٹ بھرتا ہے نا اس کی نیت..... کھاو کھاو کھاو.... ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھاو...... ایک سبزی والے نے دو روپے کے عوض ایک بیوہ کو کھا لیا، شام کو بیٹی کی دوا لینے گیا توڈاکٹر نے اس کی بیٹی کو سو روپے کے عوض کھا لیا. ڈاکٹر کی بیوی جب اس کی توجہ نا لے سکی تو اس نے ایک سیاہ ست دان کے بیٹے کو کھا لیا..... سیاہ ست دان نے اپنے علاقے کے ایک یتیم گھر کو دس لاکھ میں کھا لیا. کسی نے مجھے کھا لیا، کسی کو میں نے کھا لیا.... اور الزام دوسرے پر لگا دیا
.....
مجھے بھی کچھ کھانا کے ، خدارا!!! میں کچھ سادہ کھانا چاہتا ہوں. جس میں کسی کی آرزووں ،سسکیوں اور محرومیوں کا خون نا ہو..... جس میں کسی کا حق شامل نا ہو.... مجھے کچھ سادا کھانا ہے کہیں دور جا کر....
اے رب کل جہاں!!!!مجھے کچھ زمین دے دے،،،، کہ جس میں خاک ہونے سے پہلے میں اپنی بھوک مٹا سکوں
آمین ثم آمین
آپ آجکل بڑی غضبناک تحاریر لکھنا شروع کر دیں ہیں ۔ اللہ کرم فرمائے
ReplyDeleteسر جی، کیا کریں تھک ہی تو گئے ہیں حالات دیکھ دیکھ کر..... 5 سال پہلے روزگار کے سلسلے میں یو اے ای آیاتھا کہ کچھ معاشی حالات اچھے ہوں تو واپس جا کر کوئی کام کروںگا. اب لگتا ہے شاید کبھی واپسی نا ہو اور جب ہو گی تو لکڑی کے صندوق میں ہوگی. وہ بھی اگر مقدر میں وطن پاک کی مٹی نصیب ہوئی تو.
ReplyDeleteبہر کیف!!! خون روتے دل کی آواز ہے یہ. دعا کریں اللہ پاک ارض پاک کے حالات اچھے کرے، ہم بھی اپنی مٹی سے رزق حاصل کر سکیں جو دوسروں کے لیے سونا ہے اور ہمارے لیئے صرف دفن ہونے کی جگہ ہے.
اللہ پاک رحم فرمائے..ایسے مایوس نہ ہو دعا کریے اللہ دعا سے سب کچه بدلتا ہے .
ReplyDeleteبہت عمدہ تحریر ہے .. ...م