Saturday 29 August 2015

سو کر نہیں دیکھا

مدت ہوئی ہے پلکوں کو
بھگو کر نہیں دیکھا
اس دل نے تیری یاد میں
رو کر نہیں دیکھا
کیا جان کر کرو گے
جدائی کے غم کو تم
آنکھوں میں میری قید
سمندر نہیں دیکھا
کہتا تھا اک پل میں
بھلا دے گا وہ مجھے
برسوں اسی شخص
نے سو کر نہیں دیکھا

ازخود، راشد ادریس رانا 24-اگست-2015

میرا بچپن


کاغذ کی اک
کشتی تھی وہ
بارش کا تھا
وہ گندہ پانی
چھپن چھپائی
وہ کھیل تماشے
کچے گھروندے
گھوگھو گھوڑے
جامن ، آم
اور پتاشے
سب سے منہ
میں موڑا آیا ہوں
سب کچھ تو
میں توڑ آیا ہوں
جانے راشد
اپنا بچپن
دور کہیں پہ
چھوڑ آیا ہوں
از خود: راشد ادریس رانا

Tuesday 11 August 2015

میرے وجود کا کھنڈر

مدتوں کھینچی لکیریں
اک عکس بناتے بناتے 

بہتے دریا کے
بے ہنگم پانی پہ

مدتوں ڈھونڈا راشد
خود اپنی ذات کو

اپنے  ہی کھنڈر سے
وجود کی ویرانی میں

از راشد ادریس رانا: 11آگست2015