Sunday 29 June 2014

مصر کے آثار قدیمہ میں ابوالہول

مصر کے آثار قدیمہ میں ابوالہول (Sphinx) بہت مشہور اور قدیم ہے۔
ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ جیزہ (قاہرہ) کے عظیم الجثہ بت کا عربی نام، جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ ابوالہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ’’بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ ’’ابوالہول‘‘ کا اطلاق اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔
قدیم مصری دیو مالا میں اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔ جیزہ کا ابوالہول (سفنکس) ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابوالہول ایک پردار مادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ ابوالہول یونان کے شہر ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی۔
جو لوگ بھی اس کے سامنے سے گزرتے وہ انہیں ایک معمہ حل کرنے کو دیتی۔ جو اس کا صحیح حل نہ بتا سکتا اس کو ہڑپ کر جاتی۔ بالآخر ایک تھبیس ہیرو اوڈی پس نے اس معمہ کا صحیح حل پیش کیا اور یوں اس کی موت کا سبب بنا۔ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ دوپہر کو دو ٹانگوں پر اور شام کو تین ٹانگوں پر۔ جو بھی اس معمہ کا حل نہ بوجھ سکتا اسے عفریت ہلاک کر ڈالتا۔ آخر اوڈی پس نے یہ معمہ حل کر لیا۔ اس پر سفنکس نے چٹان سے گر کر خودکشی کر لی اور اوڈی تھیبس شہر کا بادشاہ بن گیا۔
ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔ یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون (Khafre) کی شبیہہ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شبیہہ (Khafre) کے بجائے اس کے بھائی (Rededef) سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 60 میل دور جیزہ (غزہ) کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کیے گئے۔
ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہہ صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہہ کو قدیم مصری (Wadjet) کہتے ہیں اور سر کے رومال کو اپنے دیوتا (Horus) کے پھیلے ہوئے دونوں پروں سے تشبیہہ دیتے تھے۔ اس مجسمہ کی ناک اور داڑھی بھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔
ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ 820ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور داڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور داڑھی برطانیہ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں کے درمیان سنگ خارا (Granite) کا ایک کتبہ موجود ہے جس کے مطابق فرعون (Tothmusis iv) جس نے 1420 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔ اس کی جوانی کا ایک واقعہ درج ہے کہ ابوالہول کے سامنے ریگستان میں شکار کھیلتے ہوئے ایک بار وہ تھکن سے چور ہوکر اس مجسمے کے سائے میں سو گیا۔ اس زمانے میں یہ مجسمہ ریگستان کی ریت میں کندھے تک دھنس چکا تھا اور اگر کچھ عرصہ اور اسی طرح رہتا تو شاید یہ مکمل طور پر ریت میں دھنس جاتا۔
قدیم مصریوں کے مطابق ابوالہول ان کے سورج دیوتا ’’راحوراختے‘‘ (Rahor-Akhte) کا دنیاوی ظہور تھا۔ یہ دیوتا سوئے ہوئے شہزادے کے خواب میں آیا اور اسے مخاطب کرکے یہ ہدایت دی کہ اگر شہزادہ اسے ریت کے اندر سے پوری طرح باہر نکال دے تو جلد ہی شہزادہ تاج و تخت کا مالک ہوجائے گا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی شہزادے نے ایسا ہی کیا اور واقعی کچھ عرصے کے بعد وہ مصر کا شہنشاہ بن گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس فرعون نے یہ کتبہ ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں میں نصب کرایا۔
ابوالہول کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ فرعون خوفو کا درد تقریباً 2600 ق م تھا۔اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م فرعون مینیس (Menes) کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجود عراق (سمیری Sumer) کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم سمیرین (Sumeren) اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابوالہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے اور اس کی عمر کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ کب، کس نے اور کیوں بنایا؟
سورج دیوتا کی حیثیت سے اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ امتداد زمانہ سے اس کی صورت کافی بگڑگئی ہے اور اس کا وہ ’’پروقار تبسم‘‘ جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے ناپید ہو چکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ’’ابوالہول‘‘ (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔ حکومت مصر نے یہاں سیاحوں کے لیے موسیقی اور روشنی کے شو کا انتظام کیا ہے۔ صحرا کی بے پناہ پہنائی میں ابوالہول کی پرہیبت آواز ماضی کے مزاروں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔

Thursday 19 June 2014

ڈائــــــــــن: ہمارے موجودہ حالات سے ملتی جلتی منتخب تحریر

ڈائن
تحریر: پیغام آفاقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
 
میں نے اس مریض پر ہر ممکن دوا استعمال کر چکا تھا لیکن کسی دوا نے کام نہیں کیا۔ البتہ دوائیں دیتے دیتے میں اپنی گفتگو اور ہمدردی کی وجہ سے اس عرصہ میں اس مریض کے دل کے قریب ضرور ہو گیا تھا۔ اور آخر میں اچانک یہی بات مریض پر اثر کر گئی۔
، وہ لوگ فوج کے تھے، پولیس کے تھے یا قوم پرستوں کا کا کوئی دستہ تھا ؟ میں نے اس سے پوچھا۔
مریض کی گفتگو سے مجھے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مریض خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کی تم کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے تم کو ہر طرح کی دوا دے کر دیکھ لیا۔ لیکن تم ٹھیک نہیں ہو رہے ہو۔ میں پریشان ہو رہا ہوں۔ اب میرا اپنے آپ پر سے، اپنی صلاحیتوں پر سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ تم ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا۔ میں صرف تم کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ اور صرف ڈاکٹر ہوں۔ میں انٹیلیجنس کا کوئی آدمی نہیں ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔
اور پھر وہ ادھیڑ عمر کبڑے جیسا آدمی اچانک اتنی سلجھی ہوئی باتیں کرنے لگا کہ مجھے حیرت ہوئی۔
مریض اب اس منظر کو بیان کر رہا تھا جس کی پرچھائیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس نے اس علاقے کا نام بتایا۔
چلو آگے کی باتیں بتاؤ۔ جگہ تو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔
میرا گھر وہیں ایک چوڑی سڑک سے منسلک گھنی آبادیوں کے بیچ تھا۔ اس دن میں ایک دوسرے شہر اپنی دکان کے لئے کچھ مال خریدنے گیا ہوا تھا۔ کچھ دنوں سے میں بیمار بھی تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے مری طبیعت بہت ملول سی ہو رہی تھی پھر بھی مجبوراً جانا پڑا تھا۔ دن دو پہر سے کچھ پہلے اچانک تین چار بکتر بند گاڑیاں اور ایک ٹرک آکر میرے گھر کے سامنے رکے۔ گاڑیوں کے رکنے کا منظر دیکھتے ہی چاروں طرف سنسنی پھیل گئی، ایک سناٹا سا چھاگیا اور فضا میں موت کی آواز سنائی دینے لگی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ جب ایسی گاڑیاں آتی تھیں تو کیا ہوتا تھا۔ لوگ چھتوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنے لگے۔
گاڑیوں سے کچھ لوگ اترے اور سیدھے میرے گھر کے دروازے پر پہنچے اور دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ میرے گھر کے کسی فرد نے دروازہ کھولا تو وہ لوگ گھر کے اندر گھس آئے۔
پھر ایک ایک کر کے سب کو گھر سے باہر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑے بوڑھے سب کو باہر نکالا گیا۔ عورتیں دروازے تک آئیں تو ایک شخص نے جو گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ان کو بھی بلاکر قطار میں کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ چند لمحوں بعد دو تین نوجوان گھر کے تین چار چھوٹی عمر کے بچوں کو لے کر باہر آئے جس میں میرا ڈیڑھ سال کا وہ بیٹا بھی تھاجس نے ابھی چند ہے روز پہلے اپنے قدموں ہر ہلتے ڈولتے چلنا سیکھا تھا۔انہوں نے بچوں کو لے کر آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے شخص کے حکم کے لئے اس کی طرف دیکھا۔
ہاں، ہاں، انہیں بھی لاؤ۔ اس شخص نے نظر پڑتے ہی حکم دیا۔
ایک اشارے پر گھر کی دیوار کے پاس سب کو کھڑا کر دیا گیا۔
اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے سب کو ڈھیر کر دیا گیا۔
گاڑی میں آئے لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔
 
میں اسٹیشن سے اترا ہی تھا کہ اپنے محلے میں ہوئے اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں سنا۔ مجھے اپنے بھتیجے کی کارستانیوں کا خیال آیا اور دل میں خوف بھی پیدا ہو ا کہ ہو نہ ہو یہ میرے کنبے کے بارے میں نہ ہو۔ باہر نکلا تو تیز ہواؤں کے جھکڑ سے دھول سی اڑ رہی تھی۔ کو ئی رکشا دکھائی نہیں دیا تو پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ راستے میں یہ دیکھ کر میں اور بدحواس ہوا کہ وہی گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ سب کچھ کھا پی رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ گاڑی میں آگے بیٹھے آدمی سے پوچھا گیا کہ مجھے گاڑی میں ڈال لیا جائے کیونکہ وہاں دور تک کافی لوگ تھے اور سب کے سامنے مجھے ختم کرنا شاید انہیں مناسب نہیں لگا۔ لیکن اس آدمی نے ہنستے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔
نہیں اسے چھوڑ دو۔ بچ گیا تا بچ گیا۔ یہ کہانیاں ڈھوئے گا۔
گھر پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرے ہوش اڑ گئے تھے اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ میرے گھر کے سامنے پڑی میرے گھر والوں کی لاشوں پر محلے والوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ میں دوڑا قریب پہنچا۔ ایک چھوٹی سی ہلکی چادر میری نونہال بیٹے کے اوپر بھی پڑی تھی۔ ہوا کے چلنے سے اس کے اوپر کی چادر ایسے ہلی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی چادر ہٹائی تو جو دیکھا وہی میرے حافظے پر اب تک نقش ہے۔ اس کے جسم پر پیشانی، منھ، سینے اور ہاتھ پر گولیاں لگی تھیں۔ لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ اب میرے گھر کے افراد میں صرف ایک شخص زندہ بچ گیا تھا اور وہ تھا میرا بھتیجہ جو دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھا۔ اور گھر نہیں آتا تھا۔
لیکن انہیں تمہارے گھر کے اور لوگوں کو نہیں مارنا چاہئے تھا۔ میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔
جی ہاں۔ لیکن میں پوری بات بتاتا ہوں۔
اس نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس بار دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کالونی میں گھس کر گولیاں چلائی تھیں۔پولیس کالونی کی اس فائرنگ میں جو لوگ مرے تھے ان کی تصویریں بہت دلدوز تھیں۔ محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کے اہل کنبہ کو اس طرح سے گولیوں سے بھون ڈالنا۔ انتہائی درندگی تھی۔ نہیں۔ میں غلط کہ گیا۔ انتہائی انسانیت تھی۔ نہیں میں غلط کہ گیا۔ معاف کرنا ڈاکٹر مجھے لفظ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن میں لفظ کی تلاش میں ہوں اور میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔ میں تب آپ کو بتاؤں گا۔
جی ہاں۔ میرا بھتیجہ بھی ان میں شامل تھا۔
ہاں ڈاکٹر وہ لفظ مل گیا۔ انتہائی درجہ کی حب الوطنی تھی۔ نہیں، وہ جو پولیس والوں کے گھر کے افراد کو مارا تھا وہ حب الوطنی نہیں تھی۔ وہ جو میرے گھر والوں کو مارا تھا وہ حب الوطنی تھی۔ دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد میرا بھتیجہ کبھی گھر نہیں آیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوفزدہ تھے اور ہم سب کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا کیونکہ اب ہر طرف ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا۔ پولس کئی بار ہمارے گھر پر چھاپہ مار چکی تھی۔پولس ایک بار مجھے بھی لے گئی تھی۔ لیکن تب وہ دہشت گردی کے شروع کے دن تھے اور لڑائی دہشت گردوں اور پولیس و فوج کے درمیان ہوتی تھی۔
اس کے بعد پولیس کی گاڑیوں اور ٹھکانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور اس کے بعد پولس والوں کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملے ہونے لگے۔
اور اس طرح ہوا گرم تر ہونے لگی۔
اب کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی پیچیدہ لڑائیوں کا حل کیا ہوسکتا تھا۔ لوگ یہی سوچتے تھے کہ اگر وہ خود پولیس یا فوج میں ہوتے یا سرکار چلا رہے ہوتے تو کیا کرتے۔
یہ جنگ سنگین اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہوا تیز ہوتے ہوتے بگولوں کی شکل لینے لگی۔ اور ان بگولوں کے رقص میں ایک دن قانون کا دوپٹہ ایک جھونکے سے اڑ کر گرد و غبار میں تہس نہس ہو گیا۔
ہوا اتنی تیز ہوئی کہ یہ پہچاننا مشکل ہو گیا کی سڑک یا گلی میں چلتا ہوا کون سا شخص دہشت گر دتنظیموں سے وابستہ ہے اور کون پولیس کا آدمی ہے۔ کہ جا بجا دہشت گرد پولیس کے یونیفارم میں اور پولس کے لوگ دہشت گردوں کے حلیوں میں گھوم رہے تھے۔
 
میرے خاندان کے ساتھ ہوئے اس سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی انتقامی کاروائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔
سچ پوچھئے تو کافی دنوں تک میں تذبذب میں تھا۔
میں اپنی اسی ذہنی حالت میں ایک دن بھٹکتا بھٹکتا اپنے اس گھر کو دیکھنے چلا گیا تھا جو اب کھنڈر سا ویران ہو گیا تھا۔ میں وہاں دالان میں لکڑی کے تخت پر اپنے گھٹنوں پر سر ٹیکے اپنے پیاروں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے دو تین پڑوسی آئے اور انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ میں فورا وہاں سے غائب ہو جاؤں۔ انہوں نے بہت اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ
چونکہ میرے اندر انتقام کا زہر بھرا ہوا ہے اس لئے میں حقیقتاً ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا ہوں۔
 
 
جب واقعہ تازہ تھا تب مجھے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی اب اس واقعے کے زہر بن جانے کی وجہ سے ہے۔ وہاں تو سب کچھ برابر ہو گیا لیکن یہاں سب کچھ باقی ہے۔وہ قہر کا دن میری زندگی کے لمحوں میں تحلیل ہو گیا۔
ڈاکٹر، مجھے چلتے، پھرتے، بیٹھتے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین نہیں ہے۔
میں ڈر جاتا ہوں۔
میں نے کئی بار خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے زمین اچانک قہقہہ لگا کر مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔لیکن
میں ہوا میں پرواز کر کے بچ جاتا ہوں۔
کئی بار تو جب میں اڑتے اڑتے تھک گیا تو مجھے کسی پرندے نے بچالیا۔
ایک بار میں بادلوں پر جا بیٹھا۔
میں نے محسوس کیا کہ مریض پھر بے قابو ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر مجھے بار بار لگتا ہے کہ میری زمین مجھے پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے اور مجھے جان سے مار دے گی۔
مریض پھر ہوش میں آنے لگا تھا۔
اس پورے عرصے میں میں ٹھیک سے سو نہیں پایا ہوں۔ میں سوؤں کہاں ؟ زمین مجھے سوتے میں نگل لے گی۔ جھٹکے سے۔ اچانک۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نگل لے گی۔ وہ میری جان کی بھوکی ہے۔ ڈاکٹر، تم کو پتہ ہے۔ ڈائنیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہیں۔
میں شاید پاگل نہیں ہوں بلکہ نیند نہیں آنے کی وجہ سے میری یہ حالت ہو گئی ہے۔ تم کیسے میرا علاج کر پاؤ گے۔
اس نے مجھ سے ایسے بات کی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں ہو لیکن پھر فورا ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور وہ اس طرح بات کرنے لگا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ وہ رک رک کر وقفوں کے بعد مجھ سے تخاطب کے انداز میں ہی کہتا رہا۔
ایک دن میں نے اڑتے ہوئے اچانک دیکھا کہ میری ماں کا منھ کھلا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ہمت کر کے سیدھے اس کے منھ کے اندر پرواز کی اور اس کی زبان سے بچتا ہوا اس کے حلق کے راستے اس کے پیٹ میں گھس گیا۔ وہاں دیکھا میرے گھر والوں کے علاوہ اور بھی ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کی ہڈیاں سڑ رہی تھیں۔ میں پھڑ پھڑا کر باہر اتنی سرعت سے نکلا کہ اوپر بادلوں پر جا بیٹھا۔
نیچے سے میری ماں مجھے بلا رہی تھی۔ لیکن میں نیچے نہیں اترا۔ تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔
پھر وہ اچانک کانپنے لگا جیسے موت کے قریب آنے پر کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
دیکھو۔
اب وہ گھڑیال جیسا منھ کھولے بادلوں تک پہنچ رہی ہے۔
مجھے یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا۔
ڈاکٹر۔ اب میں اڑوں گا۔
اور یہ کہنے کے بعدبستر پر بیٹھے بیٹھے اس کے دونوں بازو بالکل چڑیا کے ڈینوں کی طرح تیز تیز حرکت کرنے لگے جیسے وہ پرواز کر رہا ہو۔
یہ اس سے میری آخری گفتگو تھی۔
 
-------------------------------------------------------------------------
ایسا نہیں لگتا جیسے یہ کہانی ہر روز ہمارے اردگرد دہرائی جاتی ہے، اور ہم ایسے ہی مناظر روزانہ دیکھتے ہیں۔

Tuesday 17 June 2014

اے مجھ کو مارنے والےــــ (وزیرستان بھی پاکستان ہے)

کبھی تم میری خاطر
جان اپنی وار دیتے تھے
کبھی تم میری خاطر
آ گ کا طوفان بنتے تھے
کبھی تم میری خاطر تھے
کبھی تم میری خاطر تھے
 
تمہاری اندھی گولیاں
اور شعلہ اگلتی بندوقیں
آج میرے آشانے کو
مٹائے جاتی ہیں
کبھی تم میری خاطر تھے
خون اپنا بہاتے تھے
جسم اپنا جلاتے تھے
 
ناجانے کیا ہوا تم کو
میرے بچوں کو مارا ہے
ان کا خون بہا کر تم
کہاں سکون پاو گے
اے مجھ کو مارنے والے
میرے محافط میرے رہبر
کبھی میں بھی تمہارا تھا
جو آج ٹوٹ کر بکھرا ہوں
میں اک استعارا تھا
اے مجھ کو مارنے والے
کبھی میں بھی تمہارا تھا