Friday 23 May 2014

حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ

ثمامہ بن اثال، یمامہ کے علاقے کا حکمران تھا، ثمامہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ اس نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ الله قتل کرنے کا چیلنج دے رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الله سے اس پر قابو پانے کی دعا فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ ثمامہ عمرہ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ اس کی خوش قسمتی کہ وہ راستہ بھول کر مدینہ طیبہ کے قریب آ نکلا اور مسلمان سواروں کی گرفت میں آ گیا۔ چونکہ یہ شخص اپنے کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے، اس لیے اسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستوں سے باندھ دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اے ثمامہ کیا خبر ہے؟
اس نے عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) خیر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے ۔آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔
اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (اسے بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا)
ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کا اسیر ہوگیا۔ وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے، اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مشورہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے۔
جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا کیا تم بے دین ہو گئے اس نے کہا نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت نہ فرما دیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب الجہاد:حدیث نمبر 71
صحیح بخاری:جلد دوم:باب غزوات کا بیان:حدیث نمبر 383
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب الجہاد: حدیث نمبر201
اپنے وطن پہنچ کے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات پر عمل کیا اور مکہ مکرمہ کو اناج کی سپلائی بند کر دی ۔ مکہ میں قحط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اہل مکہ نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا، جس میں اپنی قرابت داری کا واسطہ دیا اور درخواست کی کہ ثمامہ کے نام گندم کی ترسیل کے لیے حکم جاری فرمائیں۔
 غور کیجیے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عالی ظرف اور اعلیٰ اخلاق والے تھے کہ باوجود اہل مکہ کے زبردست مظالم کے آپ نے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھجوایا کہ اہل مکہ کے لیے گندم کی سپلائی بحال کر دیں۔ کیا ایسے نادر اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا میں کوئی اور مثال نظر آتی ہے؟

Sunday 11 May 2014

یوم ماں کے حوالہ سے اشعار_شکریہ ڈاکٹر ارشد محمود (بھائی جان)

Happy Mother's day
یوم ماں کے حوالہ سے اشعار
 
 
میری انگلی پکڑلینا، مجھے تنہا نہیں کرنا
یہ دنیا ایک میلہ ہے، تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں
شاعر نامعلوم
 
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی...

شاعر نامعلوم
 
ماں کا مفلوج بدن اور معیشت کی گھٹن
کتنی مشکل تھی مری زیست جواں ہوتے ہوئے ۔
عاکف محمود
 
بتاوں کیوں دمکتا ہے یہ چہرہ ؟
مری ماں نے اسے بوسہ دیا تھا
طارق ہاشمی
 
وقت کی دھوپ میں جلنے نہیں دیتی مجھے ماں
تان رکھتی ہے مرے سر پہ دعاؤں کے سحاب
سلمان باسط
 
ہر اک قدم پہ ہم قدم باپ کا حوصلہ رہا
سر پر ردا کے روپ میں ماں کی دعا تنی رہی
افتخار حیدر
 
بولنا کس نے سکھایا تھا اسے بچپن میں
اب جواں ہو کے جو کہتا ہے کہ ماں بولتی ہے
احمد ادریس
 
تُو کہ مٹی کے منوں بوجھ میں مدفون ہے ، ماں
اب بھی لگتا ہے ترا دستِ دعا جاگتا ہے
مجید اختر
 
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اسلم کولسری
 
مِری ماں، عالمِ بالا سے اک رخصت پہ آ جاؤ
عجب مشکل میں ہوں، مجھ کو دعاؤں کی ضرورت ہے
قیصر مسعود
 
گر مجھے ماں کی دعا کا نہ سہارا ہوتا
میں بھی اس وقت کوئی وقت کا مارا ہوتا
جبار واصف
 
اور عباس تابش صاحب کے شہرہ افاق شعر کے بغیر تو ماں کے حوالہ سے بات مکمل ہی نہیں ہوتی۔
 
ایک مُدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
 
ماں
------------
ایک بچہ
اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے
اس میلے میں...

اب کیا ہوگا؟
کون اسے گھر لے جائے گا؟
حیراں حیراں دیکھ رہا ہے
چاروں طرف چہرے ہی چہرے
دھندلے چہرے
کیا یہ ، اُس کو پہچانیں گے
کیا یہ ، اُسے گھر تک پہنچا دیں گے؟
کوئی نہیں
سب اَن دیکھے ، اَن جانے ہیں
سہما سہما چیخ رہا ہے
ماں
ماں
ماں
(ابن صفی نے اپنی والدہ کے انتقال پر درج ذیل آزاد نظم لکھی تھی اور اپنی والدہ کے انتقال کے چودہ ماہ بعد خود بھی انتقال کر گئے !)
 
خدا کچھ اس طرح آساں بناتا ہے غم محشر
جنت ماں کے قدموں میں اٹھا کر ڈال دیتا ہے
شکریہ جناب !!! افسر زمان
 
’’ماں‘‘
جب سے تُو نے الگ سُلایا
تب سے اب تک سو نہیں پایا