Wednesday 29 January 2014

سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ

 
سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس زکوة کا مال آتا ہے
فرمانے لگے : غریبوں میں تقسیم کردو

بتلایا گیا اسلامی سلطنت میں کوئی بھی فقیر نہیں رہا (اللہ اکبر)
...

فرمایا : اسلامی لشکر تیار کرو
بتلایا گیا اسلامی لشکر ساری دنیا میں گھوم رہے ہیں

فرمایا : نوجوانوں کی شادیاں کر دو
بتلایا گیا کہ شادی کے خواہش مندوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے

فرمایا : اگر کسی کے ذمہ قرض ہے تو ادا کر دو ، قرض ادا کرنے
کے بعد بھی مال بچ جاتا ہے

فرمایا : دیکھو ( یہودی اور عیسائیوں ) میں سے کسی پر قرض ہے تو ادا کردو
یہ کام بھی کر دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے

فرمایا : اھل علم کو مال دیا جائے ، اُن کو دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے

فرمایا : اس کی گندم خرید کر پہاڑوں کے اوپر ڈال دو

کہ مسلم سلطنت میں کوئی پرندہ بھی بھوکا نہ رہے

سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تم کہاں ہو
آج مسلمانوں کے ملکوں میں انسان بھوکے ہیں
 
::::::منتخب تحریر::::::

Saturday 25 January 2014

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ.

 
 
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھ...ی کرنٹ اکاونٹ ہے۔یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے ۔آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے ؟؟ تفصیل جاننا چاہیں گے ؟؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کا نام "بئر رومہ" یعنی رومہ کنواں تھا۔۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے ۔ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا " حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو، آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ھو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔یہودی لالچ میں آ گیا ۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فرخت کریں گے ،اس طرح زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا ۔۔ حضرت عثمان نے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔۔ لوگ حضرت عثمان کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہیں جاتا۔۔یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گزارش کی۔ اس پر حضرت عثمان راضی ھو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔۔ اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمان کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی۔حضرت عثمان نے فرمایا کہ مجھ اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے۔اس نے کہا میں تین گنا دوں گا۔حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیش کش ہے۔اس نے کہا میں چار گنا دوں گا۔حضرت عثمان نے فرمایا مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے۔اس طرح وہ آدمی رقم بڑھاتا گیا اور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہاہے؟۔حضرت عثمان نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے ۔۔ وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا۔عثمانی سلطنت کے دور میں اس باغ کی دیکھ بال ہوئی۔بعد از سعودی کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد پندرہ سو پچاس ہو گئی ۔۔ یہ باغ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔۔وزارتِ زراعت یہاں کے کھجور،بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا ۔۔ اس ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے۔جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم ہو گا باقی آدھا حضرت عثمان کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔ اندازہ کیجیئے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انفاق کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطاء کی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بن گیا ۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی ۔جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ،اچھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا -----------------------------------------------------------

ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ہے ہم کو۔

شکریہ جناب محترم مصطفٰی ملک
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻤﺤﮧ ﮨﻮ ﺗِﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ
ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺴﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭘﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺭﺍﺕ ﮨﻮ ﺩﻥ ﮨﻮ ﺗﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﻣﯿﮞﮩﻢ
ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍَﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻏﻢ ﺁﺋﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺳﮩﺎ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﯾﮏ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ ﮨﻢ ﻣﻞ ﮐﮯ ﺭﮨﺎ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺏ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮨﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺘﻢ ﺳﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ
ﺑﭽﮭﺎﺋﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻻﮐﮯ
ﺳﺠﺎﺋﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ
ﺯﺧﻢ ﺍﺱ ﺩِﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺩ
ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺍﮎ ﭼﯿﺰﺣﺴﯿﮟ
ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺭﻭﮎ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ


Friday 24 January 2014

نواب بہاولپور اور رولز رائس کار (تاریخ کے آئنے میں)

 
One day during his visit to London, Nawab of Bahawalpur was walking in casual dress in Bond Street. He saw a Rolls Royce showroom and went inside to inquire about the Price and Features etc of their cars.
Considering him a just another Poor Indian citizen, showroom salesmen insulted him and almost showed him the way out of the showroom. After this insult, Nawab of Bahawalpur came back to his Hotel room and asked his servants to call the showroom that Nawab of Bahawalpur city is interested in purchasing their few Cars.
After few hours King reached the Rolls Royce showroom again but with his full astonishing royal manner and in his royal costume. Until he reached the showroom there was already red carpet on the floor and all the salesmen were bent with respect. The King purchased all the six cars that they had at showroom at that time and paid full amount with delivery costs.
After reaching Pakistan, Nawab of Bahawalpur ordered municipal department to use all those six Rolls Royce cars for cleaning and transporting city’s waste. World’s number one Rolls Royce cars were being used for transportation of City’s waste, the news spread all over the world rapidly and the reputation of Rolls Royce Company was in drains.
Whenever someone used to boast in Europe or America that he owned a Rolls Royce, people used to laugh saying, “which one? The same that is used in Pakistan for carrying the waste of the City?”
Due to such reputation damages, sales of Rolls Royce dropped rapidly and revenue of company owners started falling down. Then they sent a Telegram to the Nawab of Bahawalpur for apologies and requested to stop transportation of waste in Rolls Royce cars. Not only this but they also offered Six new cars to Nawab of Bahawalpur free of cost.
When Nawab of Bahawalpur observed that Rolls Royce has learnt a lesson and they are sorry for their mistakes, He stopped using those cars for carrying wastes.
After some years Nawab of Bahawalpur Gifted the one of new Rolls Royce to King Saud's visit to Pakistan. That was first ever Rolls Royce in Saudi Arabia. One of new car was Gifted to to Quaid-e-Azam of Pakistan.

Noor ul Huda:

Thursday 23 January 2014

تحریک ظالمان پینٹاگان:::::TTP

اوہ !!!! تحریک ظالمان پینٹاگان !!!! اگر تم اتنے سچے ہوتے تو
 
 شراب خانے بند کراتے،
 جوا خانے بند کراتے،
 رنڈی بازی بند کراتے،
 رشوت کا بازار بند کراتے،
ناانصافی ختم کراتے،
چوربازاری ختم کراتے،
نشے اور زہر کے کاروبار بند کراتے،
ناجائز ہتھیار رکواتے،
مساجد کی تعمیر کراتے
تبلیغ اسلام، اور اشاعت اسلام کے لیئے کچھ کرتے،
مسلمان ممالک سے تعلقات اچھے کرنے کی بات کرتے،
یہود وکفار اور رافضیوں کو راہ راست پرلانے کی بات کرتے،
دعوت اسلام کی بات کرتے،
 
 
لیکن تم نے کیا کیا؟

تم نے آکھیں بند کیں اور قتل و خون کی وہ تاریخ رقم کی جس کی شاید ہی کوئی مثال ہو، تم نے حرمت کے مہینوں کا خیال کیا نا معصوم اور بے گناہوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نا نہتوں کو دیکھا نا لاچاروں کو!!!!! یہ اسلام کا کونسا راستہ ہے کونسا جہاد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے ؟؟؟؟؟

چادر چڑھی مزار پر

"چادر چڑھی مزار پر
ننگا رہا فقیر"

حرام کھائے کلرک
بدنام صرف وزیر...


امیر کے کتے زندہ
مرتا فقط غریب

کرپٹ شریف اعلٰی
ایماندار ہے حقیر

چور بازاری، حرام کاری
مجبوری کی زنجیر

بگٹی، گیلانی، شریف
زرداری، بے نظیر

کتوں کو راس آئی نا
پکی ہوئی کھیر

اسلامی جمہوریہ نام تھا
بگڑتی گئی تصویر

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
از راشد ادریس رانا: 20-اکتوبر-2013
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ

Wednesday 15 January 2014

آللّهُمَّ صّلِ وسَلّمْ عَلئِ سَيّدنَآ مُحَمد ﷺ ---- سنہری باتیں



ایک دن حضور اقدس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق و حضرت سیدنا عمر فاروق و حضرت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے دولت خانہ پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر خاطر و مدارت کا اہتمام کیا، اور ایک روشن طشت میں نہایت نفیس شہد بھر کر پیش کیا، اتفاق سے اس شہد میں ایک بال پڑا ہوا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ...... وسلم نے اسے دیکھا اور صحابہ کی طرف مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: یہ طشت و شہد جس میں ایک بال بھی نظر آرہا ہے بعض حقائق و معارف کی تشریح چاہتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اپنے زور طبع سے اس کے متعلق بیان کرے۔
یہ سُن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین دار آدمی اس طشت سے زیادہ روشن، اور ایمان اس کے دل میں شہد سے زیادہ شیریں اور ایمان کا آخر تک ساتھ لے جانا اس بال سے زیادہ باریک ہے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہی اس طشت سے زیادہ روشن، اور حکمرانی شہد سے زیادہ شیریں ہے‘ لیکن حکومت میں عدل و انصاف کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمِ دین اس طشت سے زیادہ روشن، اور علمِ دین کا پڑھنا شہد سے زیادہ شیریں اور علم پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان اس طشت سے زیادہ روشن، خدمتِ مہمان شہد سے زیادہ شیریں ہے‘ لیکن مہمان کی دلنوازی اور خوشنودی حاصل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بیانات سماعت فرمانے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدہ فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کی طرف پردہ میں متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا بیٹی تم بھی کچھ کہو! حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے حق میں حیا اس طشت سے زیادہ روشن، اور چادر عورتوں کے منہ پر شہد سے زیادہ شیریں، اور خود کو نگاہ غیر محرم سے بچانا بال سے زیادہ باریک ہے۔
اس کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں بھی اس بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں سنو! معرفتِ الٰہی اس طشت سے زیادہ روشن، اور معرفت سے آگاہ ہونا شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس کو اپنے دل میں محفوظ رکھنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
ابھی یہ گفتگو ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دروازہ پر ایک اعرابی نے آواز دی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہونا چاہتا ہوں! اجازت ملی اور نووارد شخص حاضر ہوا‘ یہ جبرئیل تھے‘ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راہِ خدا اس طشت سے زیادہ روشن ہے، اور اس راہ میں چلنا شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن آخر تک اس راہ پر قائم رہنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور حق سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بہشت اس طشت سے زیادہ روشن ہے، اور بہشت کی نعمتیں اس شہد سے زیادہ شیریں ہیں، لیکن اس کا رستہ بال سے زیادہ باریک ہے_____

لیکن وہ ایک ماں تھی..!! "اشفاق احمد.. زاویہ 2"


بچپن میں ایک بار باد و باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ھو گیا.. ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رھا تھا.. میری ماں نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا تو محسوس ھوا جیسے میں امان میں آ گیا ھوں..

میں نے کہا.. " اماں ! اتنی بارش کیوں ھو رھی ھے..؟ "

اس نے کہا.. " بیٹا ! پودے پیاسے ھیں اللہ نے انہیں پانی پلانا ھے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ھو رھی ھے.. "

میں نے کہا.. " ٹھیک ھے پانی تو پلانا ھے مگر یہ بجلی بار بار کیوں چمکتی ھے..؟ "

وہ کہنے لگیں.. " روشنی کرکے پودوں کو پانی پلایا جائے گا.. اندھیرے میں تو کسی کی منہ میں ' کسی کی ناک میں پانی چلا جائے گا.. اس لیے بجلی کی کڑک چمک ضروری ھے.. "

میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا.. پھر مجھے پتہ نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رھی یا نہیں..

یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ھے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ھے.. یہ ماں کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لیے جو خوفزدہ ھو گیا ھے ' اسے خوف سے بچانے کے لیے پودوں کو پانی پلانے کی مثال دیتی ھے.. یہ اس کی ایک اپروچ تھی.. گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھی.. دولت مند ' بہت عالم فاضل ' کچھ بھی ایسا نہیں تھا لیکن وہ ایک ماں تھی..!!
اشفاق احمد.. زاویہ 2.. " خوشی کا راز "

ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ.......!

ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
کسی ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ
ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﻨﺎ
ﮐﮧ ﻧﯿﻨﺪﯾﮟ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﻨﺎ 
ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﮦ ﻟﮕﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺫﺭﺍﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺱ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ.......!

Friday 3 January 2014

بنـــــــــدر اور ڈگڈگــــــــــــی----- خوش آمدید 2014


 
 ایک دفعہ ایک جگہ ایک بندر والا مداری تماشا دکھا رہا تھا، اور جیسا کہ یہ تماشے دلچسپی کی وجہ ہوتے ہیں سو میں بھی باقی لوگوں کی طرح وہ دیکھنے لگا۔ ڈگڈگی والا ایک ہاتھ سے ڈگڈگی بجاتا اور دوسرے سے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو مختلف طریقوں سے کبھی زمین پر مارتا اور کبھی ہلکا پھلکا بندر کو مارتا جس سے بندر عجیب و غریب حرکتیں کرتا اور ادھر ادھر کودتا پھاندتا اور اس کود پھاند کو مدرای  والا اپنی گھڑی ہوئی کہانیوں اور ہنسا دینے والے ڈراموں سے منصوب کرتا جس سے یہی محسوس ہوتا کہ یہ الٹی سیدھی عجیب و غریب حرکتیں دراصل یہ کہانیاں ہیں جو بندر کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی اس سے خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے، بڑی تعریف کرتے کہ بندر کتنا سیانا ہے۔
جب یہ سارا تماشا ختم ہو جاتا تو بندر ٹوپی لیے لوگوں کے آگے جاتا اور ان سے پیسے مانگتا کوئی روپیہ دیتا کوئی دو کوئی پانچ کوئی دس جسے بندر لیکر واپس مداری کے پاس آتا اور مداری آرام سے یہ سب کچھ کر اپنی جیب میں ڈال لیتا، دن بھر ادھر ادھر گھومتے رہنے مار کھا کھا کر پیسے اکھٹے کرنے کے بعد بلا آخر مداری بندر کو ایک ٹکڑہ روٹی دیتا یا کوئی گلا سڑا پھل کھانے کو دے دیتا۔

بندر مزے سے وہ کھاتا اور ایک طرف بیٹھ جاتا
سارا دن کودنے پھاندنے اور گھلے سڑے پھل یا سوکھی روٹی کھانے کے بعد بھی کبھی بندر کو اندازہ نا ہوا کہ جو پیسے وہ اکھٹے کرتا ہے اور جن کے لیئے وہ اتنی محنت مزدوری اور مشقت کرتا ہے ان کی کیا اہمیت ہے، بندر کو صرف اتنا معلوم ہے

کہ کن کن اشاروں پرکیا کیا کرنا ہے
ہر تماشے کے بعد ٹؤپی میں پیسے بھر کر لانے ہیں
گلا سڑا فروٹ یا پھرسوکھی روٹی کھانی ہے
مداری کی مار کھانی ہے اور ایک جانب پڑے رہنا ہے

کیوں کہ نسل در نسل اس کی رگوں میں یہ باتیں خون کے ساتھ ساتھ سرایت کر چکی ہیں اور عادت ثانیہ بن چکی ہیں

اس کو عزت ، ذلت سے کچھ لینا دینا نہیں
اس کو غیرت کا کوئی مطلب معلوم نہیں
محنت کا پھل سوکھی روٹی اس نے مقدر سمجھ لیا ہے
اور مداری کی غلامی اور اطاعت ہی اس کی زندگی ہے

بھائیو!!!!! کیا ایسا تو نہیں

کہ یہ کہانی کچھ سنی سنی اور اپنایت بھری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ ایسا تو لگ رہا جیسے کوئی ہمارے بارے میں بیان کر رہا ہو، ایسا تو نہیں کہ ہم ان مداریوں کے ہاتھ میں ناچنے والے بندر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مداری کبھی زورداری بن کر ہمیں نچاتے ہیں اور کبھی خان، کبھی شریف بن کر اور کبھی چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ننگے ہوکر اور کبھی وردی پہن کر

اور ہم ہیں کہ اپنے مقدر پر سر جھکائے
ڈنڈے کھاتے اچھلتے کودتے ہیں
پیسے کماتے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر  کہ اس محنت کی کمائی کی کیا اہمیت ہے کیا قدر ہے۔
اور آخر روکھی سوکھی ہمارا مقدر ہے۔

از: راشد ادریس رانا خوش آمدید 2014

وہ اور ہم --------- ایک سچائی

جارج میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور کچھ تشویش سے مشین کی ڈرائینگ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک طویل سانس لیتے ہوئے اس نے کچھ لکھنا شروع کیا۔ اسی دوران میں اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا وہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکا تھا اور شاید اگر وہ انگریز نا ہوتا تو اب تک موت کامنتظر ہوتا۔ لیکن رشک ہے ان لوگوں پر کہ آخری دم تک کام کرتے رہتے ہیں۔ انہی سوچوں میں گم مجھے اس کے آواز سنائی دی، جس میں بہت مایوسی اور پریشانی تھی۔ مجھے لگا شاید کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے میں نے گلہ صاف کیا اور اس سے گویا ہوا،
 
جارج لگتا ہے بہت پریشان ہو؟
 
اس نے اپنے مخصوص ، مہذب بھرے لہجے میں دو تین گالیاں دیں، اب پتا نہیں مجھے دیں یا کس کو دیں اور بولا۔
 
پریشان کیوں نا ہوں، کپمنی کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے، نا جانے کب بند ہوجائے۔
 
 مجھے حیرت ہوئی ، کیوں کہ اس کی کمپنی کی مشینری ہماری کپمنی میں استعمال ہو رہی تھی اور جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ یورپ سے آ جاتا اور اچھی خاصی کمائی بھی کر جاتا اور کمپنی کے خرچے پہ عیاشی بھی کرتا۔
 
مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے اس کو پوچھا کیوں بھئی کپمنی اتنی اچھی چل رہی ہے پھر بند کیسے ہوگی؟ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولا، لگتا ہے تمہیں پوری بات بتانی پڑے گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ کمپنی میں لیبر یعنی مزدور آئے دن ہڑتال کر دیتے ہیں اور کام بند کردیتے ہیں ایک تو پہلے ہی لیبر بہت مہنگی ہے اور اوپر سے کام بند کی وجہ سے کمپنی کی حالت کافی پتلی ہے۔ اس لیئے حالات کافی خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

میں نے کہا بھائی، تو اس میں کونسا بڑا مسئلہ ہے، تم لوگ لیبر پاکستان، انڈیا ، بنگلہ دیش سے لے لو، تمہیں بہت سستی پڑے گی اور لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری کمپنی میں آئیں گے۔

میری بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا لگتا ہے کہ تم زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں یہ قانون ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو چھوڑ کر باہر سے بندے نہیں لا سکتے۔ لیکن اپنے ملک میں یہ حال ہے کہ نوجوان نسل کام کرنے کو تیار نہیں اور پہلے لوگ کتنا اور کب تک سب کچھ چلائیں گے، زیادہ سے زیادہ پانچ دس سال میں ہم لوگوں کے پاس پراڈکشن بہت کم رہ جائے گی اور انڈسٹریاں گھاٹے میں جانے لگیں گیں۔

اب میرے دل میں پھر سوال اٹھا، کہ جارج یہ نوجوان کام کرنے کو کیوں تیار نہیں؟

اس نے آٹھ دس ننگی گالیاں دیتے ہوئے کہا۔ اصل میں تعلیمی اعتبار سے نوجوان ڈگریاں لیے ہوئے ہیں۔ اب وہ لیبر کے کام میں تو آتے نہیں، تو پھر سٹاف یعنی وائٹ کالر کام میں کتنے لوگ رکھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پہ نوجوانوں نے ایک اور کام پکڑا ہوا ہے۔ وہ پڑھائی کے بعد کہیں نا کہیں جاب کر لیتے ہیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ وہاں پر کوئی ایسا کام کرتے ہیں یا اپنے باس وغیرہ سے لڑائی کرتے ہیں اور مجبوراَ کپمنی ان کو ٹرمینیٹ کردیتی ہے، اس کاغذ کو لیکر وہ سرکار کے پاس جاتے ہیں اور سرکار ان کو بے روزگاری الاونس دینا شروع کردیتی ہے جب تک کہ ان کو کوئی موزوں نوکری نا مل جائے۔ اور نوکری انہوں نے کرنی نہیں ہوتی۔ اس بےروزگاری الاونس کو وہ اپنے مہینے کے اخراجات اور عیاشیوں کے لیئے وقف کر کے ، کچھ کئے بغیر مزے کرتے ہیں۔

جس جگہ نوجوانوں کی حالت ایسی ہو وہاں کوئی کام کیسے اور کب تک چلے گا۔

میں اس کی باتیں سنتا اور دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ میں شیخوپورہ کے ایک کالج کا منظر تھا۔

بے اے پارٹ ٹو کی کلاس اور سب طالب علم انگلش کے پیریڈ میں اکتاہٹ کا شکار بیٹھے ہوئے تھے آج ان کے پروفیسر کی آخری کلاس تھی ویسے تو ان کو اس پروفیسر کا پڑھایا ہوا سمجھ نہیں آتا تھا لیکن آج تو وہ دعائیں کر رہے تھے کہ جلدی جان چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ پروفیسر صاحب کو چھٹیاں جانا تھا۔

جیسے ہی کلاس ختم ہوئی سب سٹوڈنٹ اکھٹے ہو کر پرنسپل کے کمرے میں چلے گئے تاکہ ان سے انگریزی کے عارضی پروفیسر کے بارے میں پوچھ سکیں، پرنسپل صاحب نے مایوسی سے بتایا کہ ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا، جس پر طالب علم کافی برہم ہوئے کیوں کہ امتحانات ہونے والے تھے اور انگریزی ایک اہم مضمون تھا۔

یہی بحث جاری تھی کہ پرنسپل کا چپڑاسی چائے لیکر ان کے کمرے میں داخل ہوا، اور پرنسپل صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے ایک طرف مودب کھڑا ہوگیا، سب نے اس کی طرف ایک عارضی سی نظر ڈالی اور بحث کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، سب اسی بحث میں تھے کہ اس نوجوان چپڑاسی نے مودب انداز میں پرنسپل سے مخاطب ہو کر کہا، سر اگر بہت زیادہ پرابلم ہے اور کوئی انتظام نہیں ہو رہا تو کیا میں ان کی انگریزی کی کلاس لے لیا کروں۔

پرسنپل سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے پتا نہیں کتنی ساعتیں کمرےمیں خاموشی طاری رہی پھر اس کے بعد پرنسپل صاحب نے قدرے برہمی سے کہا دیکھو عبید الرحمٰن (فرضی نام) ہم مذاق نہیں ایک بہت اہم بات پر بحث کر رہے ہیں، اور یہ سب بی اے فائنل ائیر کے طالب علم ہیں کوئی نرسری کے نہیں۔

لیکن عبید الرحمٰن نے زور دیتے ہوئے کہا سر ایسی بات نہیں آپ مجھے ایک چانس دیں میں کچھ دن ان کو پڑھاتا ہوں اگر ان کو میری سمجھ آ گئی تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کوئی اور انتظام کر لیجے گا۔ پرنسپل نے غصے سے کہا تم ایک چپڑاسی ہو اور اگر اتنے قابل تھے تو اس نوکری پر کیا کر رہے ہو۔

یہ بات سن کر عبید الرحمٰن تھوڑا سا آبدیدہ سا ہو گا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔  سر میں ڈبل ایم اے ہوں اور ایک مدت سے روزگار نا ہونے کی وجہ سے ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا۔ جب کچھ نا سوجھا تو یہ چپڑاسی کی جگہ خالی دیکھ کر ادھر نوکری کر لی، محنت میں عظمت ہے اور ویسے بھی کچھ نا کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ ابھی ایک موقع ہے جہاں میں اپنے علم کو استعمال کرسکتا ہوں سو میں نے آپ ک بتلا دیا، آگے جیسے آپ بہتر سمجھیں۔

یہ بات سن کر پرنسپل صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کار انہوں نے اپنے طلبہ اور طالبات کی طرف دیکھا اور کہا اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نا ہو تو فوری طور پر عبید کو موقع دیا جا سکتا ہے۔۔

کچھ نے بے توجعی سے اور کچھ نے ناگواری سے ان کی طرف دیکھا اور نیم رضامندی سے اٹھ کر جانے لگے۔ ان کے جانے کے بعد پرنسپل صاحب نے تسلی کے لیئے عبید الرحمٰن سے اس کے کاغذات منگوائے ، دیکھے اور سر ہلاتے ہوئے تعریفی نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اجازت دے دی۔
اگلے دن جب عبید تیار ہو کر کالج پہنچا تو کوئی پہچان نا پایا کہ یہ وہی چپڑاسی ہے۔ اس نے پرنسپل صاحب کے پاس جا کر اجازت چاہی اور کلاس لینے چلا گیا۔ جب ایک گھنٹے کے لیکچر کے بعد وہ کلاس سے نکلا تو تمام طلبہ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات لئے پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوئے۔ جہاں پر انہوں نے پرنسپل صآحب سے پر زور اصرار کیا کہ عبید الرحمٰن کو مستقل پڑھانے دیا جائے کیوں کہ اس کا طریقہ روایتی اور پرانے طریقوں سے کہیں بہتر اور طرز تخاطب بہت ہی زبردست تھا۔

وہ دن اور آج کا دن عبید الرحمٰن کو باقاعدہ نوکری مل چکی ہے اور اب وہ چپڑاسی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ایک پروفیسر ہے اور پڑھا رہا ہے۔

یہ ہیں ہمارے نوجوان جن کا جذبہ اتنا سچا اور لگن اتنی پختہ ہے۔ پھر بھی!!!!!! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ اور ہم ، ایک دوسرے سے اسقدرمختلف ہیں پھر بھی وہ ہم سے زیادہ کیسے ترقی کر گئے اور ہم ابھی تک ترقی پزیر ہیں؟

دوسچے واقعات سے ماخوذ کی گئی تحریر 
از: راشد ادریس رانا ــــــــــــــــ دسمبر 2013
 
 

Wednesday 1 January 2014

خلیفہ اور حکمران

دیکھنے سے ہی محسوس ہوتا ہے، کہ یہ خلیفہ ہیں
 
 
 
 
اور انکو دیکھ کر کیا محسوس ہوتا ہے؟
 
 
بس جو محسوس ہوتا ہے ، اسی سے اندازہ لگا لیں۔ کہ وہ 50 سال میں کہاں ہیں اور ہم 70 سال میں کہاں