Wednesday 27 November 2013

دوسروں کی مدد کریں ------- پلیز

(میں نے یہ تحریر ایک پیج پر پڑھی، پڑھ کر آنکھوں مٰیں آنسو آگئے، مجھے بہت اچھی لگی، سوچا کیوں نہ آپ ک ساتھ بھی شیئر کی جاۓ۔ اگر اس کو پڑھ کر کسی ایک شخص کی سوچ بھی بدل گئی اور کسی ضرورت مند کی مدد کر دی گئی تو لکھنے والے کی محنت اور میرا شیئر کرنے کا مقصد پورا ہو جاۓ گا۔ )

ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﻮئے ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺳﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ ﻋﻤﺮ ﯾﮩﯽ ﮐﻮﺋﯽ ١٤ ﯾﺎ ١٥ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﮔﯽ ﭘﺮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺩیکھ ﭘﺎئے ،
ﻭﮦ بچہ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ہوئے ﺟﮭﺠﮏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻗﺪﻡ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ،
ﻣﯿﮟ سمجھ ﮔﯿﺎ کہ ﺍﺱ لڑکے ﮐو ضرور ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ درپیش ﮨﮯ۔
ﺧﯿﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ لڑکا ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ بیٹھ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮌﮬﯽ ﺗﺮﭼﮭﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺻﺒﺮﯼ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ کا ﺣﺎﻝ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﮐﺴﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﻮ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮨﯽ بیٹھ ﮔﯿﺎ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺩیکھ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍٹھ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﺎتھ
ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ’’ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﯿﺮﻭ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ؟’’
جواب ملا: "کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ"۔
ﯾﮧ ﮐﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﮨﺎتھ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ روکا ﺍﻭﺭ کہا کہ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﻮ ﮨﻮ ﮔﮯ؟
(ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ لڑکے ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺳﺐ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ)۔
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ۔ ﺩﯾﮑﮭﻮ! ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺣﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﭘﺮ ﯾﺎﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﮨﻮﺳﮑﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺐ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺑﺮﺳﻨﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﺎﻭﻥ ﮐﯽ ﺑﭙﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺮﺱ ﭘﮍﯾﮟ۔ ﯾﮧ ١٥ ، ١٤ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﭽﮧ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ، ﻣﺤﺴﻮﺳﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺩکھ ﯾﺎ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اسے بہت ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﭼﭗ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ پھر اﺳﮯ ﮐﺮﯾﺪﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺟﻮ کچھ ﺍس نے ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮں ﺳﮯ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔

* * *
ﻣﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ، اللہ ﻗﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ کچھ ﻋﺮصہ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﺍﺑﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ تو انہیں ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﯼ ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺘﮯ ہیں کہ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﮐﯽ "ﭨﺎﺭﮔﭧ ﮐﻠﻨﮓ" ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﺍﻣﯽ نے ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮنا شروع کردیا لیکن جب وہ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺎﻡ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻣﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﯿﮟ ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎتیں ، ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ کہا کہ امی اگر آپ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎئیں ﮔﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻣﯽ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ، کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ کہ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟ اب تو ﺩﮐﺎﻥ ﻭﺍﻻ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ عرصہ ہوا تمہارے چچا ، تایا وغیرہ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁئے۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﮦ ﭘﯿﺴﮯ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ آﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ لیکن ﺟﺐ میں نے مانگنے کی کوشش کی تو میں نہ تو ہاتھ پھیلا سکا اور نہ ہی میری آواز نکلی ، مجھے ابّو ﯾﺎﺩ ﺁﮔﮱ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ کچھ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺑﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭩﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ اب ﺍﮔﺮ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺑﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ، ﭘﺮ ﭘﯿﺴﮯ نہ ﮨﻮئے ﺗﻮ ﺍﻣﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎئیں ﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺮ ﺟﺎئیں ، پھر میرا کیا ہوگا؟ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ؟

۔
۔

ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ سننے کی ﮨﻤّﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اپنے آنسو روکے اور اسے ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ۔ جیب میں پاکٹ منی کی تھوڑی سی رقم تھی ، ﺳﻮ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ گیا ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍس کی ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﺷﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ لے کرگئے۔ اس کے بعد ایک طویل کہانی ہے کہ کس طرح میں نے اپنے والد صاحب کو قائل کیا کہ ان کی مستقل مدد کرنی چاہیے۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ نہ جاﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮐﻠﯿﺎﮞ
ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﮐﭽﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔

ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ اللہ تعالیٰ ﻧﮯ مناسب ﻣﺎﻝ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ کہ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ نہ ﻣﻠﮯ۔ ﯾﮧ ﺁﭘﮑﺎ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺷﺘﮯﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﻭﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺎﻟﺖ ﺧﻮﺩ ﺳﻤﺠﮭﺌﮯ۔ ڈھائی فی صد تو فرض ہے، اپنے ہاتھ کھولئے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کیجیے۔ میں دروازے پر مانگنے والوں کی بات نہیں کررہا ہوں ، باہر نکلیے اور مستحق لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کیجیے۔ یقین کیجیے سب کچھ یہیں رہ جائے گا ، سوائے اُس (الباقیات الصالحات) کے جو آپ نے آگے بھیجا۔ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﮐﮭﯽ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ نہ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﺁپ کو ﻭﮦ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﻮ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﺪﻟﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩکھ ﺑﺎﻧﭧ ﮐﺮ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﭽﭙﻦ ﺑﮩﺖ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﻣﭩﯽ ﺗﮏ نہ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﯾﮧ نمی مٹی تک پہنچنے سے پہلے بہت تیزی سے ﻋﺮﺵ ﺗﮏ جا پہنچتی ﮨﮯ۔ اس سے پہلے کہ
اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی وار کرے ، اٹھیں ﺍﻭﺭ دوسروں کی مدد کریں۔

٭واصف٭

Monday 25 November 2013

جب وہ (اللہ سبحان تعالٰی) سبب بناتا ہے۔

اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔

ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔

ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘

ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔

اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔

اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟

بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔

ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔

ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔

لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔

ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘

جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا کرنے میں لگا دیا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ

بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو.
سورة النمل - الآية 62
شکریہ
۔۔۔ مس نور۔۔۔

لڑکیوں کے لئے ایک اچھی بیوی بننے کا نسخہ-

 
 
لڑکیوں کے لئے ایک اچھی بیوی بننے کا نسخہ ...........!


یہ پوسٹ ایک طرف جہاں عورتوں کو اچھی بیوی بننے کا سبق دے گی وہاں مردوں کو بھی اپنے بلاوجہ کے غصے کو کنٹرول کرنا اور اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا سکھائے گی ان شاء الله
_______________________________________________

کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔

دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔

عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔

جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا

کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟

یا وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟

یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟

تو عورت نے یوں جواب دیا کہ

خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود

عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی

چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی

ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے۔

مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مالدار

عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب

سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔

اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔

تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی کا کیا راز ہے؟

اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
------------------------------------------------------
اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو بھانپ لیا کرتا ہے۔

اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
------------------------------------------------------
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔

تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
------------------------------------------------------
اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔

اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟
--------------------------------------
اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔

جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔

تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
--------------------------------------------------------------
ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔

کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُسکی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟

تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟
---------------------------------------------------
کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!

میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔

جی ہاں،
خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے

مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔

جس انسان کو اپنی زبان پر کنٹرول کرنا آ گیا سمجھو اس نے سکھی زندگی کا راز پا لیا —

Wednesday 20 November 2013

•••••• پہلی محبت ••••••

کچھ عمر کی
پہلی منزل تھی
••••••
کچھ رستے تھے
انجان بہت
••••••
کچھ ہم بھی
پاگل تھے لیکن
••••••
کچھ وہ بھی تھے
نادان بہت
••••••
کچھ اس نے بھی
نا سمجھایا
••••••
یہ پیار نہیں
آسان بہت
••••••
آخر ہم نے
بھی کھیل لیا
••••••
جس کھیل میں تھے
نقصان بہت

Sunday 17 November 2013

’’حملہ ہو چکا ہے‘‘

یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے ۔میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسرجمیل واسطی مرحوم تھے، جو پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر حیدرآباد آئے تھے۔ ہماری کلاس میں تقریباً بیس سٹوڈنٹ تھے۔ان میں چھ کے قریب طالبات تھیں۔ اس زمانہ میں طالبات انگریزی ادب فیشن کے طور پر پڑھا کرتی تھیں۔ ہماری کلاس نے پکنک کاایک پروگرام بنایا، لیکن اس پراختلاف ہوگیا کہ لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پکنک منانے جائیں یا الگ الگ؟ یہ معاملہ پروفیسر جمیل واسطی کے علم میں آیاتو انہوں نے رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ "مگریہاں تومخلوط تعلیم ہے۔ واسطی صاحب!" ایک لڑکی نے اٹھ کراحتجاج بھری آواز میں کہا۔ "میں نے کب کہا کہ میں مخلوط تعلیم کاحامی ہوں؟" واسطی مرحوم بولے۔ "سر! یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے۔" وہ بولی۔ واسطی صاحب نے گھوم کرلڑکی کی طرف دیکھا جو ایک معروف، متمول اور فیشن ایبل خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔پھرانہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا: غلام اکبر! تمہاری جیب میں ایک چونّی ہوگی؟ اس عجیب وغریب سوال پر میں چ...ونک پڑا اورجلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ واسطی صاحب فوراً ہی بولے: دروازے سے باہر جا کر چونی کاریڈار میں رکھ دو۔ پوری کلاس حیرت زدہ تھی۔ میں بھی حیران ہوکر دروازے کی طرف مڑا تو واسطی صاحب بولے: سمجھ لوکہ تم چونّی کلاس کے باہر رکھ چکے ہو،اب بیٹھ جاؤ۔ پھر واسطی صاحب اس لڑکی کی طرف مڑے اور بولے: جب ہم کلاس ختم کر کے باہر نکلیں گے تو کیا وہ چونی وہاں موجود ہو گی؟ لڑکی بدحواس سی ہو گئی۔ پھرسنبھل کر بولی: ہوسکتاہے کہ اگر کسی کی نظرپڑے تواٹھا لے۔ اس جواب پرواسطی صاحب مسکرائے اورسب سے مخاطب ہوکر بولے :دیکھ لیں کہ جن لوگوں پرایک چونّی کے معاملے پربھروسہ نہیں کیا جا سکتا، وہ لڑکیوں کے معاملے میں کس قدرشریف ہیں؟ حالانکہ چونّی بچاری تولپ سٹک بھی نہیں لگاتی!! واسطی صاحب کی اس بات پرپوری کلاس کو سانپ سا سونگھ گیا۔ میں آج تک وہ بات نہیں بھولا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دقیانوسی سوچ رکھتاہوں یا واسطی صاحب بہت زیادہ قدامت پسند سوچ کے حامل تھے۔ لیکن کیا اس بات میں کچھ سچ ایسے نہیں چھپے ہوئے جن کاتعلق براہ راست انسان کی فطرت اوران جبلتوں سے ہے جنہیں سدھایا اور سدھارا نہ جائے توان کی رو میں تہذیب وتمدن کے تمام تقاضے بہہ جایا کرتے ہیں؟
روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگارجناب غلام اکبرصاحب کا کالم’’حملہ ہو چکا ہے‘‘ ******************************************

سیاہ دلی نا چھپی سیاہ لباس میں۔ (10 محرم 2013 راولپنڈی)

سیاہ دلی نا چھپی سیاہ لباس میں
یزیدیت نے دکھلایا ہے مکروہ چہرہ
 
 
افسوس ناک واقعہ اور دل دھلا دینے والی حقیقت۔ اندر کی سیاہی کو سیاہ لباس بھی نا چھپا سکا۔  یہ حادثہ اتنا حادثاتی تھا کہ اس کے لیئے اسلحہ اور پیٹرول کے کین پہلے سے تیار کیئے ہوئے تھے۔ مسجد ومدرسہ اور بازار کی دکانیں پہلے سے لسٹ میں شامل تھیں۔ میڈیا کو بھی بریفنگ تھی کہ خاموشی کے ساتھ اپنے باپ ٹنڈولکر کے ساتھ اپنی والدہ اور بہنوں کے سکینڈل چلاتے رہنا  تاکہ بے ضمیر سوئی ہوئی عوام کو جاگنے کا کوئی موقع نا ملے۔
 
لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ سب کچھ کرنے والے یہ مت سوچیں کے ان کو فتح ہوئی اور کوئی معر کہ جیت کر وہ فاتح بن گئے۔ نہیں یہ میدان جنگ نہیں جہاں لوگ لاشیں سمیٹ کر اپنے شہدا کو لیکر رخصت ہوگئے۔ آگ تو لگی ہے ابھی چنگاریاں اٹھی ہیں۔ ساری عوام مر گئی بے ضمیر ہوگئی، لیکن جن کے شہید ہوئے ہیں ، جن کو بے قصور چھریوں اور تلواروں کی نظر کیا گیا وہ ابھی زندہ ہیں۔
 
لوگ کہتے ہیں خود کش کیسے بنتے ہیں، کیسے کوئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک بٹن دبا کر اس کے ہزاروں ٹکڑئے ہو جائیں گے۔ پھر بھی وہ اس آگ میں کود جاتا ہے۔
 
تو ان کو جواب سمجھ آ جانا چاہیئے۔
 
ڈرون اٹیک ہو یا دھشت گردی کے نام پر پاک آرمی کا آپریشن یا پھر سیاہ لباس میں دھشت گرد جو مظلومین کے غم کے بہانے، بھیڑ کی کھال پہنے بھیڑیے ہوں۔ جب ظلم اپنی حدوں کو چھوتا ہے تو مرنے والے کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے بھی مر جاتے ہیں۔
 
اور جو پہلے ہی مرا ہوا ہو اس کو مزید مرنے سے کون روک سکتا ہے۔
 
اگر انصاف نا ہوا، اگر انصاف نا ہوا
 
تو یاد رکھیں کہ خود کشوں کی ایک نئی کھیپ جلد مارکیٹ میں آنے والی ہے ۔ جو ہاتھ کے بدلے ہاتھ، ، بازو کے بدلے بازو، خون کے بدلے خون والا معاملہ ہوگا۔
 
اینٹ سے اینٹ بجے گی اور پھر کچھ نام نہاد معصومین اور مظلومین  چاہے وہ اس واقعہ میں شامل تھے یا نا تھے۔ سب ایک ہی چکی میں پسیں گے۔ پھر نا سنی بچیں گے نا شیعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ بم کی کوئی آنکھیں نہیں ہوتیں اور کوئی معیار مقرر ہوتا ہے کہ کس کو مرنا ہے اور کس کو نہیں۔
 
ایسی ہی ناانصافیاں اور نظام کی بے قاعدگیاں معاشرے میں ایسے لوگ پیدا کرتی ہیں جن کو دھشت گرد کہہ کر بہت آرام سے بری الزمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ اور جس کا خمیازہ ساری قوم ادا کرتی ہے۔
 
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday 10 November 2013

پردیس میں تمہاری یادیں:::::::: 10-11-2013

تہماری چوڑیاں مجھ کو
بہت بھاتی ہیں
کہ جب یہ چھن چھناتی ہیں
میرے دل کی دھڑکن کو
یہ بڑھاتی ہیں
گھر میں جب کبھی بھی تم
کوئی کام کرتی ہو
میں جاگتے ، سوتے
اس چھن چھناہٹ میں
تہمیں محسوس کرتا ہوں
پھر مسکراتا ہوں
تمہیں آواز دیتا ہوں
اور بلاتا ہوں
تہماری چوڑیا ں مجھ کو
بہت بھاتی ہیں!
 
تمہارے کان کی بالی
بہت گدگداتی ہے
کہ جب میرے سینے پہ
چہرہ رکھ کے سوتی ہو
تمہارے کان کی بالی
جو یوں سرسراتی ہے
چمکتی ہے محبت سے
دلوں کے گیت گاتی ہے
تہمارے کان کی بالی
بہت گد گداتی ہے
تمھارے ناک کا کوکا
بہت چمچماتا ہے
کہ جب اندھیرے کمرے میں
خامشی سانسیں لیتی ہے
سانسیں رقص کرتی ہیں
وہ بوسہ تمہارے گالوں کا
جو دل کو گدگدا تا ہے
اسی لمحے اندھیرے میں
تمہارے ناک کا کوکا
بہت چمچماتا ہے
تمھارے رخسار کی لالی
دل کو لبھاتی ہے
کہ جب تمہارے کانوں میں
میری آواز آتی ہے
یہ لالی شفق کے رنگوں  سے
بھر سی جاتی ہے
نا جانے کس قوس کے
رنگ لیکر آتی ہے
قزاح بن جاتی ہے
اور امڈ امڈ آتی ہے
تہمارے گالوں کی لالی
دل کو لبھاتی ہے
تہماری آنکھ کا کجلا
بہت ہی ستاتا ہے
کہ جب میں لوٹ آتا ہوں
وہ رخصت ہونے کا لمحہ
تمہارا سسکیاں لینا
چپکنا میرے سینے سے
میری بازو کو پکڑ کر
بے ساختہ رونا،
جدائی کے وہ آنسو
تہماری آنکھوں سے نکل کر
میرے دل میں بہتے ہیں
تہمارے کاجل کو جب بھی
بے ربط کرتے ہیں ،
آنکھوں سے بہاتے ہیں
مجھے ہر سانس میں میری
کرچی کرچی کرتے ہیں،
مجھے یوں توڑ جاتے ہیں،
تہماری آنکھ کا کجلا
بہت ہی ستاتا ہے
بہت ہی ستاتا ہے
قلم کار:::::::::: راشد ادریس رانا::::::
پردیس میں تمہاری یادیں::::::::::::::: 10-11-2013

Monday 4 November 2013

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ::::

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 
 
 
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد

نسخہ ۔۔۔۔۔ جاوید چودھری(روزنامہ ایکسپریس۔۔۔ ستمبر2013،22)

نسخہ ۔۔۔۔۔ جاوید چودھری
(روزنامہ ایکسپریس۔۔۔ ستمبر2013،22)
 
" لومیں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں۔ اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو،جو مل گیا اس  پر شکر کرو،جو چھن گیا اس پرافسوس نہ کرو،جو مانگ لے اس کو دے دو،جو بھول جائے اسے بھول جاؤ،دُنیا میں بے سامان آئے تھے،بے سامان واپس جاؤ گے،سامان جمع نہ کرو،ہجوم سے پرہیز کرو،تنہائی کو ساتھی بناؤ،"مفتی ہو تب بھی فتوی جاری نہ کرو"،جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کا کبھی احتساب نہ کرو،بلاضرورت سچ فساد ہوتا ہے،کوئی پوچھے تو سچ بولو،نہ پوچھے تو چپ رہو،لوگ لذت ہوتے ہیں اوردُنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے،زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جاؤ،تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اورخوشی بھی ،دینے میں خوشی ہے ،وصول کرنے میں غم ،دولت کو روکو گے تو خود بھی رُک جاؤ گے ،چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاؤ گے ،سادھوؤں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا ،اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا ،وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اُڑ جائے گی،تم جب عزیزوں،رشتے داروں،اولاد اور دوستوں سےچڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کے لیے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا " بابے نے ایک لمبی سانس لی ،اس نے میری چھتری کھولی ،میرے سر پر رکھی اور فرمایا "جاؤ تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی ،بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا،دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا،" یہ اللہ کی سنت ہے،اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا،مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا ،جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگر جو واپس آرہا ہو اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا،یہ بھی اللہ کی عادت ہے،اللہ واپس آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے،تم یہ کرتے رہنا،تمہارے دروازے پرمیلہ لگا رہے گا"۔