Wednesday 26 June 2013

::::میں بڑا کیوں ہوا ماں:::::

::::میں بڑا کیوں ہوا ماں:::::راشد ادریس رانا کی کتاب "بچپن کی بھول بھلیاں".
 
 
جانے یہ بچپن کیوں گزر جاتا ہے اور ہم کیوں بڑے ہو جاتے ہیں. ماں مجھے بڑا نہیں ہونا،
 
ہمیشہ مجھے چھوٹا رہنا ہے ہمیشہ تیری آغوش میں چھپ کر ماں.
ہمیشہ گرجتے بادلوں اور چمکتی بجلی سے ڈرتے رہنا ہے ماں.
تیرے ہاتھوں سے روٹی کھانی ہے ماں.
تیرے ہاتھوں سے اپنا پسینہ صاف کرانا ہے ماں.
تیرے لبوں سے اپنے ماتھے پر بوسا لینا ہے ماں.
ہمیشہ تیری گود میں سونا ہے ماں.
ہمیشہ رات کو ڈر کر تجھ سے لپٹنا ہے ماں.
 
مجھے خود سے جرابیں نہیں پہننی.
مجھے خود سے پانی نہیں پینا.
مجھے خود سے بال کنگھی نہیں کرنے.
مجھے اپنے کپڑے گندے کر کے تیرے پاس آنا ہے
مجھے اپنا منہ ہاتھ مٹی سے گندا کرکے آنا ہے
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
تیری مار کا جو پیار ہے ، وہی میری کل کائنات کا خزانہ ہے
یہ سہولتوں کے انبار ، یہ آشائسوں کے پہاڑ ماں
سب کچھ دیتے ہیں ، پر نہیں دیتے تیرا پیار ماں

ماں مجھے بڑا نہیں ہونا، پلیز ماں مجھے چھوٹا رہنا ہے.
اے کاش میں‌کبھی بڑا نا ہوتا ، اے کاش میں ہمیشہ اپنی ماں کے دامن میں چھپا رہتا.
..............اے کاش..............

Sunday 23 June 2013

ایک دن دئے گا

ایک دن دئے گا. مجھے پورا یقین ہے  وہ دے گا. یہی یقین مجھے پہاڑ جیسی مصیبتوں سے بھی ٹکرائے دیتا ہے.
 کہتے ہیں کہ "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا". سو میں بھی پر امید ہوں. ایک دن وہ دینے والا (واحد لاشریک) میری مانگی ہوئی دعا قبول کرئے گا. وہی تو میرا داتا ہے وہی میرا سب کچھ ہے میں اسی کے در کا فقیر ہوں، میں خاک در خاک ہوں، میں زرہ ناچیز ہوں.
دعا کرتا ہوں، کہ مر کرزمیں دار تو ہو ہی جاوںگا... جیسے شاعر نے خوب کہا:
 
دو گز زمین
مل ہی گئی مجھ غریب کو
مرنے کے بعد میں بھی
زمیں دار ہوگیا
 
لیکن مرنے سے پہلے مجھے بھی زمین چائیے ، میں بہت تنگ ہوگیا ہوں اس شور ھنگامے سے، اس دھول مٹی ، آلودگی سے........
 
ایک آواز!!!!!‌ "ارے کون کہتا ہے کہ گاوں دیہات میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟"
 
جواب!!!! "تو بھائی میں اس دھول مٹی کی تو بات بھی نہیں کر رہا"
 
میں تنگ ہوں شر زدہ، شرم زدہ، شیطان زدہ ماحول سے جس نے میری روح تک کو چھلنی کر دیاہے. صبح اخبار کا صفحہ کھلتے ہی.... خون نظر آنے لگتا ہے. دھماکے میں بہتاخون، بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون،بیٹے کے ہاتھوں پہ باپ کا خون، عصمت لٹاتی بنت حوا کا خون، بکتا خون، گرتا خون، گاڑھا خون، پتلا خون، بستر پر بکھرا خون، گلیوں میں بہتا خون، نالیوں میں کیچڑ اور گٹر کی گندگی کے ساتھ مل کر بہتا خون...... مجھے صاف پانی دیکھنا ہے، مجھے اپنا عکس دیکھنا ہے پانی میں....یہ مجھے پور پور مارے جا رہا ہے یہ ماحول میری روح تک کو زخم دے رہا ہے.
گھر کا دروازہ کھلتا ہےاور مکروہ دھول جس میں انسانیت چلتی پھرتی لاش ہے ہر سو پھیلی نظر آتی ہے...اس دھول میں سب ایک دوسرے کو کھائے جارہے ہیں اور ایک الٹاایک دوسرے پر الزام لگائے جارہے ہیں......
کوئی غریب ہے تو اس کو بھی کھاناہے کوئی امیر ہے تو اسکو بھی کھاناہے. دونوں کی مجبوری بن گئی ہے کھانا...... ایک کو پیٹ بھرنا ہے سو کھانا ہے دوسرے کو نیت بھرنی ہے سو کھانا ہے... نا اس کا پیٹ بھرتا ہے نا اس کی نیت..... کھاو کھاو کھاو.... ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھاو...... ایک سبزی والے نے دو روپے کے عوض ایک بیوہ کو کھا لیا، شام کو بیٹی کی دوا لینے گیا توڈاکٹر نے اس کی بیٹی کو سو روپے کے عوض کھا لیا. ڈاکٹر کی بیوی جب اس کی توجہ نا لے سکی تو اس نے ایک سیاہ ست دان کے بیٹے کو کھا لیا..... سیاہ ست دان نے اپنے علاقے کے ایک یتیم گھر کو دس لاکھ میں کھا لیا. کسی نے مجھے کھا لیا، کسی کو میں نے کھا لیا.... اور الزام دوسرے پر لگا دیا
.....
 
مجھے بھی کچھ کھانا کے ، خدارا!!! میں کچھ سادہ کھانا چاہتا ہوں. جس میں کسی کی آرزووں ،سسکیوں اور محرومیوں کا خون نا ہو..... جس میں کسی کا حق شامل نا ہو.... مجھے کچھ سادا کھانا ہے کہیں دور جا کر....
اے رب کل جہاں!!!!‌مجھے کچھ زمین دے دے،،،، کہ جس میں خاک ہونے سے پہلے میں اپنی بھوک مٹا سکوں
آمین ثم آمین

Saturday 22 June 2013

ون ویلنگ کرنے والا نوجوان زندہ لاش بن گیا ۔ ایک ماں کی دکھی کہانی

خدا کے لئے اپنے ہاتھوں سے اپنے والدین کو لاش کا تحفہ مت دیں ، ایک دکھ بھری ماں کی کہانی جو آپ کو رلا دے گی ۔ خود بھی دیکھیں اور زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ باقیوں کو بھی نصیحت ہو ۔


اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔۔۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے

اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔۔۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے
جس دیس سے ماؤں بہنوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اغیار اٹھاکر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو ۔ ۔ ۔۔ ۔ اشرار چھڑاکر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی ۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر ۔ ۔ ۔؛۔ ۔ ۔ پولس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں ۔ ۔ ۔۔۔۔ ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے ۔۔۔ خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس حاکم ظالم ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں ۔ ۔۔ ۔ آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ چادر داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت ماؤں سے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اپنے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفا سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے ۔ ۔ عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں ۔ ۔ وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے رہنے والوں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہتھیار اٹھانے واجب ہیں
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے

کراچی کی ایک بہت پرانی انمول ویڈیو----1942

کراچی کی ایک بہت پرانی انمول ویڈیو-----1942


Thursday 20 June 2013

زندہ قوم ہونے کامنہ بولتا ثبوت

زندہ قوم ہونے کامنہ بولتا ثبوت
لو بس اب اسی بات کی کمی تھی
 




زیارت…قائداعظم ریزیڈینسی حملوں کے بعد آگ لگنے کے باعث مکمل طورپر جل گئی ہے،ایک اہلکار جاں بحق، آتشزدگی کے باعث پوری تاریخی عمارت اور فرنیچر جل گیا۔ ڈپٹی کمشنر زیارت کے مطابق قائداعظم ریزیڈینسی کا تاریخی حیثیت کا فرنیچر بھی جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔ آگ پر 4 گھنٹے بعد قابو پالیا گیا ہے اور کولنگ کا عمل جاری ہے۔ریزیڈینسی سے ملنے والے بم ڈھائی سے 3 کلو وزنی تھے،گر یہ بم پھٹ جاتے تو بڑے پیمانے پر تباہی آسکتی تھی،بی ڈی ایس کی ٹیم نے بموں کو ناکارہ بنایا۔عمارت کے ارد گرد پولیس ، ایف سی اور لیویز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ڈپٹی کمشنر طاہر ندیم کا کہنا ہے کہحملہ آورں نے رات ڈیڑھ بجے قائداعظم ریزیڈینسی پر حملہ کیا،حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک اہلکار جبکہ جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔ لیویز کی گاڑیاں ملزمان کی تلاش کررہی ہیں۔ڈی پی او کے مطابق عمارت کے ارد گرد 6 بم ملے ہیں جن کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔عمارت کابیرونی حصہ کلیئر قرار ، اندر کے حصے کا معائنہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریزیڈینسی پر ایک ریموٹ کنٹرول اور 3 ٹائم ڈیوائسز سے حملہ کیا گیا۔ڈی پی او کے مطابق عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 4 سے 5 تھی۔ انہوں نے کہا کہ زیارت میں فائر بریگیڈ کی سہولت موجود نہیں اس لیے آگ بجھانے میں تاخیر ہوئی۔

کہ جب میں ٹوٹ