Monday 29 April 2013

عجیب انسان ہے.... یا انسان عجیب ہے........

 
عجیب انسان ہے.... یا انسان عجیب ہے........

کبھی کچھ بھی سمجھ نہیں آتا اور کبھی لگتا ہے سب سمجھ آ گیا. کبھی فیصلہ ہو نہیں پاتا اور وقت گزرجاتا ہے اور کبھی فیصلے ہوتے جاتے ہیں پر وقت تھم سا جاتاہے. خواہشیں بے تکی اور کبھی بے لگام ہو جاتی ہیں.....
کبھی زندگی میں اتنی فرصت ہوتی ہے سمجھ نہیں آتا کہ وقت کیسے گزرئے.. .. اور کبھی وقت ہی نہیں ملتا کچھ سوچنے کو اور زندگی گزر جاتی ہے......
کبھی بھی ہم اپنے حال میں خوش نہیں ہوتے لیکن جب یہی حال گزر کر ماضی بن جاتا ہے تو اس کو یاد کر کر کے روتے رہتے ہیں......
آنیوالا وقت ہمیشہ پریشان کرتا ہے اور گزرا ہوا وقت ہمیشہ یاد آتا رہتا ہے.....
انسان ہر حال میں پریشان ہی رہتا ہے.... جانے کیوں
زندگی میں سکون کے لیئے بھی تو بہت کچھ ہوتا ہے...........

شاید آپ یہ پڑھ کر وہی کہیں:
عجیب انسان ہےـ یا انسان عجیب ہے.

Thursday 18 April 2013

اِک بستی بسنے والی ہے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔
اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔
اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔
اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔
اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔
اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔
اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔
اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُ
نصف سے انصاف ملے ۔
دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔
یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔
اک بستی بسنے والی ہے

Friday 12 April 2013

وہ اپنی ناکامی سے کامیاب ہوتے ہیں اور ہم؟

 
 
وہ اپنی ناکامی سے کامیاب ہوتے ہیں اور ہم؟
 
یہ کامیابی کی ایک سچی کہانی ہے جو ابھی حال ہی میں ہونے والی میری ایک ٹریننگ کی کلاس میں میرے استاد محترم نے بیان کی جو کہ دل پہ بہت اثر چھوڑ گئی. اسی لیئے میں نے اس کا عنوان بھی اپنی مرضی سے چنا ہے کیوں کہ مجھے یہی موزوں لگا.
گزشتہ کچھ سالوں سے میں خلیجی ملک میں برسر روزگار ہوں، ابھی حال ہی میں کمپنی کی طرف سے ایک ہیومن ریسورس ٹریننگ کے دوران ہمارے استاد کامیابی اور کوشش کے بارے بیان کرتے ہوئے کچھ یوں یہ کہانی بیان کی:

برطانیہ میں ایک مشہور کمپنی ہے جو بہت ساری استعمال ہونے والی اشیاء خصوصی طورپر دفاتر میں استعمال ہونے والی اشیاء بناتی ہے. اصل کہانی کی طرف آنے سےپہلے کمپنی کے بارے میں تھوڑی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کمپنی کوئی عام کپمنی نہیں ہے اس کے کام کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ یہ اپنے ملازمین کو نئے نئے تخلیقی خیالات اور آئیڈیاز لانے کا پورا موقع فراہم کرتی ہے اور ان تخلیقی کاموں پر عمل بھی کیا جاتا ہے. اسی مقصد کے لیئے اس کمپنی نے اپنے دفتر کی اوپری منزل پر ایک پورا فلور تیار کیا ہوا ہے جو بہت خوبصورت ہوا دار اور روشن ہے. جہاں پر ایک پورا دن ہر ملازم جا کر بیٹھ جاتا ہے اور سوچتارہتا ہے تا کہ کوئی ایسا تخلیقی آئیڈیا دریافت کر سکے جس سے کپمنی اپنا کوئی نیا پراڈکٹ لانچ کر سکے.
اسی کپمنی میں ایک فلاپ یعنی فیل شدہ پراڈکٹ جو کسی اور کمپنی کا فلاپ آئیڈیا تھی اس پر تحقیق کی جارہی تھی کہ اس کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے . لیکن کافی سوچ بچار کے بعد بھی کچھ سمجھ نا آئی.
یہ پراڈکٹ پیپر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑئے تھے جن کی گڈیاں بنی ہوتی ہیں اور عام طور پر ہم لوگ دفاتر میں استعمال کرتے ہیں کسی بھی یادہانی کے لیے یا کچھ فوری لکھنے کے لیئے "جسے عرف عام اور موجودہ شکل کوسٹکی نوٹس کہا جاتا ہے"  یہ ایک کمپنی نے مارکیٹ میں دفتر استعمال کے لیئے متعارف کرائے لیکن ڈیمانڈ نا ہونے پر بری طرح فلاپ پراڈکٹ ثابت ہوئے.
 
سوچنے اور اس کا کچھ نیا بنانے والا انجینئیر کافی سوچ بچار کے بعد بھی کسی فیصلہ پر نا پہنچا تو اپنے گھر چلا گیا، اگلے دن اس کو چرچ جانا تھا. چرچ میں پادری سامنے کھڑا ہو کر بائیبل میں سے کچھ پڑھ رہا تھا ، لیکن کھڑکی میں سے آنیوالی تیز ہوا بار بار بائیبل کے صفات کو پلٹ دیتی اور اس کو دوبارہ موضوع تلاش کرنے میں کافی دقعت ہوتی...
اچانک ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے انجینیئر کے دماغ میں آیا. وہ چرچ سے سیدھا اپنے گھر گیا اور بیٹھ کر اس فلاپ پراڈکٹ کا کامیاب فارمولا لکھنے لگا. . . .
اگلے ہی دن اس نے اس ساری تحقیق اور اسے متعلق تحریر رپورٹ اپنے افسران اعلٰی کو پیش کر دی. . . . وہ بہت خوش تھا کیوں کہ کامیابی یقینی تھی لیکن افسران کی کمیٹی نے کچھ اعتراضات لگا کر اس کو کاغذات واپس کر دیئے. . . اس نے دوبارہ اس پر کام کیا اور یوں یہ سلسلہ کافی دن چلتا رہا. آخر کا کمیٹی اس سے متفق ہو گئی اور تجرباتی بنیادوں پر اس پراڈکٹ کو جیسے اس نے ری-ڈیزائین کیا تھا اس طرح مارکیٹ میں پیش کر دیا گیا.
اس نے دوسری کپمنی کے فلاپ کاغذ کے ٹکڑوں میں گلو/گم یعنی چپکنے والا محلول لگا کر ایک ایسی "سٹکی نوٹ"Sticky Notes تیار کی جسے آپ جب چاہیں جہاں چاہیں چپکا دیں اور اتار لیں. اور یہ آئیڈیا اس کے دماغ میں چرچ میں دوران پادری کے بار بار صفحہ گم ہوجانے پر‌ آیا تھا.
اس کے بعد یہ پراڈکٹ اتنی زیادہ مشہور ہوئی کہ اب پوری دنیا میں "سٹکی نوٹس" Sticky Notes کے نام سے جانی جاتی ہے اور ہر جگہ پر استعمال ہو رہی ہے ، اور یہ اس کمپنی کی سب سے زیادہ منافع دینے والی پراڈکٹ ثابت ہوئی.

آخر میں پھر وہی بات کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ناکامی سے کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اللہ رب العزت نے کامیابیاں ہمارے مقدر میں لکھ دیں کیوں کہ ہم اہل دین، اہل اسلام اورمسلمان ہیں لیکن ہم کامیاب ہو کر بھی ہر چیز میں ناکامی کی طرف بھاگتے ہیں. . .  . . . . .
شکریہ: راشد ادریس رانا (یو اے ای) 2013-04-12 ، 11:30 PM

 

Tuesday 2 April 2013

ِ۔۔۔۔۔۔بابا جانی۔۔۔۔۔۔ِ

ِ۔۔۔۔۔۔بابا جانی۔۔۔۔۔۔ِ

I love my Baba Jani tooooo Much 

 بستر پہ بیمار پڑے تھے
بابا جانی کروٹ لے کر
۔۔ہلکی سی آواز میں بولے
۔۔بیٹا کل کیا منگل ہو گا
۔۔گردن موڑے بِن میں بولا۔۔۔
بابا کل تو بُدھ کا دِن ہے
۔۔۔بابا جانی سُن نہ پائے
۔۔۔پھر سے پوچھا کل کیا دِن ہے
۔۔۔تھوڑی گردن موڑ کے میں نے۔۔۔۔
لہجے میں کُچھ زہر مِلا کے
۔۔۔منہ کو کان کی سِیدھ میں لا کے
۔۔۔دھاڑ کے بولا بُدھ ہے بابا
۔۔۔بُدھ ہے بابا۔۔بُدھ ہے بابا۔۔۔
آنکھوں میں دو موتی چمکے
۔۔۔سُوکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
۔۔لہجے میں کُچھ شہد مِلا کے
۔۔۔بابا بولے بیٹھو بیٹا۔۔۔
...
چھوڑو دِن کو دِن ہیں پُورے۔
۔۔تُم میں میرا حصہ سُن لو۔
۔۔بچپن کا اِک قِصّہ سُن لو۔
۔۔یہی جگہ تھی میں تھا تُم تھے۔۔۔۔
تُو نے پُوچھا رنگ برنگی۔
۔۔پھولوں پر یہ اُڑنے والی۔۔
۔اِس کا نام بتاؤ بابا۔
۔۔گال پہ بوسہ دے کر میں نے۔۔۔۔۔
پیار سے بولا تِتلی بیٹا۔
۔۔تُو نے پُوچھا کیا ہے بابا۔
۔۔پِھر میں بولا تِتلی بیٹا۔
۔۔تِتلی تِتلی کہتے سُنتے۔۔۔
ایک مہینہ پُورا گُزرا۔
۔۔ایک مہینہ پُوچھ کے بیٹا۔
۔۔تِتلی کہنا تُو نے سِیکھا۔۔
۔ہر اِک نام جو سِیکھا تُو نے۔۔۔۔
کِتنی بار وہ پُوچھا تُو نے۔۔۔
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے۔۔
۔میرے بھی اَب دانت نہیں ہیں۔
۔۔تیرے پاس تو بابا تھے نا۔۔
باتیں کرتے کرتے تُو تو۔
۔۔تھک کے گود میں سو جاتا تھا۔
۔۔تیرے پاس تو بابا تھے نا۔
۔۔میرے پاس تو بیٹا ہے نا۔۔۔
بُوڑھے سے اِس بَچے کی بھی۔
۔۔بابا ہوتے سُن بھی لیتے۔۔
۔تیرے پاس تو بابا تھے نا۔۔
۔میرے پاس تو بیٹا ہے نا۔۔
میرے پاس تو بیٹا ہے نا۔۔

۔۔عابی مکھنویؔ