Tuesday 29 January 2013

....:::::امید:::::....

ایک دفعہ ایک جوہڑ کے کنارے دو گدھے اکھٹے ہو گئے-
ایک کا مالک دھوبی تھا اور دوسرے کا مالک کمہار، ، ، ، ، ، ، ،
یونہی کمہار کے گدھے نے دھوبی کے گدھے سے پوچھا سناو یار کیسی چل رہی ہے زندگانی-
دھوبی کے گدھے نے خرمستی سے جھوم کر کہا:
بس یار مزے ہی مزے ہیں، صبح صبح دھوبی کپڑے مجھ پر رکھ کر ندی کنارے لے جاتا ہے مجھے ہری ہری گھاس کھانے کے لیئے چھوڑ دیتا ہے ، مزے دار ہوا ، سبز گھاس اور ندی کا ٹھنڈا میٹھا پانی- شام ہوتی ہے تو اجلے اجلے سوکھے دھلے کپڑے مجھ پر رکھ کر گھر لے آتا ہے اور شام کو مزے دار دانا دیتا ہے خوب خدمت کرتا ہے. بس زندگی عیش کی گزر رہی ہے. تم سناو تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟
کمہار کے گدھے نے روتی شکل بنا کر کہا یار کیا بتاوں، بہت مشکل میں جان ہے،،،،،، کمبخت کمہار صبح سویرے ہی اٹھ کر کچھ کھانے پینے بھی نہیں دیتا اور مٹی لانے کو چل پڑتا ہے، پہلے مجھی پر مٹی لاد کر لاتا ہے پھر اس کے برتن بنا کر مجھی پر لادتا ہے اور گلی گلی بیچتا ہے، سارا سارا دن بھوک پیاس میں گزرتا ہے، بس برا حال ہے.
اس کی حالت پر دھوبی کے گدھے نے حیرانگی سے کہا: " یار تو تم کمہار کے گھر کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے"
کمہار کے گدھے نے کہا یار چھوڑ تو دوں لیکن میں ایک امید پر ہوں، دھوبی کے گدھے نے حیرانگی سے پوچھا کیسی امید؟
اس نے جواب دیا:::::::::: یار کمہار کی ایک خوبصورت جوان بیٹی ہے جو اس کو بہت ستاتی ہے، جب بھی وہ اس پر غصہ ہوتا ہے اس کو ڈانٹ کر کہتا ہے!!! باز آ جا باز، ورنہ تیری شادی گدھے سے کر دوں گا!!!!!!!!
بس یار اسی امید پر ہوں کہ کس دن کمہار اپنی بات پوری کرتا ہے........................
 

Monday 28 January 2013

گورا راج کا واقعہ...

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان ، ہندوستان اکھٹے ہوا کرتے تھے، اور گورا راج یعنی انگریز حکمران برصغیر پاک و ہند پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا.انہی دنوں کی بات ہے کہ پنجاب کے ایک گاوں میں اچانک سے بلوا شروع ہوگیا، اس دنگا فساد میں مسلمان ایک طرف اور ہندو ایک طرف تھے. جب بات حد سے بڑھ گئی تو گورا پولیس کو مداخلت کرنی پڑی،
اس وقت میں پولیس متاثرہ علاقے میں ہی ایک کھلی کچہری لگا کر معاملہ سلجھانے کی کوشش کیا کرتی تھی پھر بھی اگر معاملہ رفعہ دفع نا ہوتا تو مزید کاروائی کی جاتی.
ایک گورے انسپکٹر نے فریقین کو اکھٹا کیا اور کہا کہ باری باری اپنا معاملہ پیش کریں. سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے امام مسجد نے کہا جناب! جب بھی ہم مسجد میں پانچ وقت آذان دیتے ہیں اسی وقت میں ہندو اپنے مندر میں بغل اور گھنٹیاں بجانا شروع کردیتے ہیں جس سے ہماری آذان کی بے حرمتی ہوتی ہے.
اب باری آئی ہندووں کی تو پنڈت نے کہا کہ جی ہم تو اپنے دیوی دیوتاوں کی سیوا کے لیئے اور خوش کرنے کے لیئے یہ سب کچھ کرتے ہیں، یہ مسلمان ویسے ہی لڑائی جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں.
انگریز بڑا پریشان ہوا کہ ایسا کیا عمل ہے جس پر لڑائی ہوجاتی ہے اور وقت کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، اس نے مسلمانوں کو کہا کہ آپ جو بھی پڑھتے ہو مجھے با آواز بلند پڑھ کر سناو......... جس کے جواب میں مولوی صاحب نے ادب سے کہا جناب!!! ہماری آذان کا مقرر وقت ہے اور ہم پانچ وقت ہی آذان پڑھتے ہیں نا پہلے نا بعد میں اس لیئے اگر آپ کو آذان سننی ہو تو مقررہ وقت پر تشریف لائیں. . . . اب انگریز سٹپٹا گیا...... اس  نے ہندووں سے کہا کہ جو کچھ تم کرتے ہو کر کے دکھاو، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ہندووں نے فوراً سے مل کر الاپ شلاپ گانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ بِغل بجانے اور گھنٹیاں بجانی شروع کر دیں........ انگریز پولیس افسر بہت تلملایا اور اس نے حکم دیا،،،،،،
کہ ہندو جو بھی کرتے ہیں وہ کسی وقت بھی کر سکتے ہیں اس لیئے وہ یہ سب کچھ اس وقت کریں گے جب مسلمانوں کی آذان اور نماز کا وقت نہیں ہوگا
جبکہ مسلمانوں کے پانچ اوقات دن میں مقرر ہیں اس لیئے وہ اپنے مقررہ وقت پر آذان دیا کریں گے

.....:::::تری یادوں سے چھن::::....


 
تری یادوں سے چھن کر جب تری آواز آتی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے، تری تصویر گاتی ہے
 
بچھڑ کر شاخ سے پتا ہَوا کے ہاتھ آیا ہے
کبھی اس کو گراتی ہے کبھی اس کو اٹھاتی ہے
 
یہی کافی نہیں، وہ مجھ سے دُکھ سُکھ بانٹ لیتی ہے
وگرنہ کوئی تتلی کاغذی پھولوں پہ آتی ہے
 
کوئی آواز اُٹھتی ہے مرئے اندر سے راتوں کو
سناتی ہے مجھے پریوں کے قصے اور سُلاتی ہے
 
مرا کوئی حوالہ موسوں کے پاس کیسے ہو
یہ دھرتی مجھ کو سوکھے گھاس کی صورت اُگاتی ہے
 
میں اپنے آپ کوچاروں طرف سے بند رکھتا ہوں
ہَوا آتی ہے تو پھر میرا ہر پٹ کھول جاتی ہے
 
وہ بھولی ہے، وضاحت چاہتی ہے ہر اشارئے کی!
عجب لڑکی ہے رہ کر شہر میں بلکل دیہاتی ہے
 
مجھے ویران کر دینا بڑا آسان ہے یوسف
جبھی تو وہ مجھے آواز دے کر بھول جاتی ہے!

Saturday 26 January 2013

فرانس کا مالی پر حملہ::: ایک سوال :::


مغربی افریقہ کا زمین بند یہ ملک دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔ موسم گرم و خشک ہے اور سطح زمین زیادہ تر ہموار ہے جو شمال کی طرف قدرے بلند ہوتی جاتی ہے۔ زیادہ تر ملک صحارہ میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں گرم جھکڑ اور ریتلے طوفان چلتے ہیں اور خوشکسالی رہتی ہے۔ جنوبی علاقہ جہاں دریائے نائیجر کے اطراف قدرے سرسبز سوانا  ہے۔ اڈرار دس عفوغاس

(Adrar des Ifoghas)(savanna)
مالی دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ لگ بھگ 65 فیصد علاقہ صحرائی یا نیم صحرائی ہے جہاں گزشتہ صدی میں کئی خشکسالیاں آ چکی ہیں۔ زیادہ تر معاشی سرگرمیاں دریائے نائیجر کے سیراب کردہ علاقہ تک محدود ہیں۔ 10 فیصد آبادی نوماڈک ہے اور لگ بھگ 80 فیصد افرادی قوت فارمنگ اور ماہی گیری سے منسلک ہے۔ صنعتی سرگرمیاں فارمی پیداواروں کی سربندی سے متعلقہ ہیں۔ برتن سازی اہم گھریلو صنعت ہے جو زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں اور عورتوں کے تیار کردہ یہ برتن تاجروں اور آڑتیوں کے ذریعے منڈیوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ برتن سازی کے لیے مستعمل روائتی طریقے سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں۔ مالی کا غیر ملکی امداد پر کافی انحصار کرتا ہے اور بین الاقوامی منڈی میں اپنی اہم برآمد کپاس کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ 1997ء میں حکومت نے آئي ایم ایف کی تجویز کردہ انتظامی تبدیلیوں کو اپنایا ہے۔ اور کئي بین الاقوامی اداروں نے سونے کی کانوں سے سونا نکالنے کے لیے 1996ء تا 1998ء کام کیا ہے، اور حکومت کی کوشش ہے کہ مالی دنیا میں سونے کی ترسیل کا اہم مرکز بن سکے۔

 
یہ تو تھا مالی کا مختصر تعارف جو مجھے نیٹ سے ملا ، اب آپ اس تصویر میں زرا فاصلہ دیکھیں اور اوپر بیان کیئے ہوئے وسائل دیکھیں
 
 
 
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس قدر کم وسائل اور معیشیت والا ملک دھشتگردی کا کینسر اپنے اندر پال سکتا ہے جہاں زندگی پہلے ہی ای وقت کی روٹی اور ایک گھونٹ پانی کو ترستی ہو؟؟؟؟؟؟؟
 
آئیں اب دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر دھشتگردی کا بہانہ بنا کر مالی پر حملہ کیا  جا رہا ہے.
 
فیصد ۔ مسلمان 90
9 فیصد ۔ متفرق
1 فیصد ۔ عیسائی
 
شمال مشرق میں واقع کئی چھوٹی چھوٹی وادیاں اور گرینائٹ کی پہاڑیاں بکھری ہیں۔ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جہاں سونا، یورینیم، فاسفورس کے مرکبات، کالونائٹ، نمک اور چونا کی کانیں بکثرت ہیں۔
No you can Understand Why France Attack on Mali.
 


Thursday 24 January 2013

چور مینا

چور مینا
 
 
مہاراجا رنجیت سنگھ پنجاب کا راجا تھا۔ ایک دفعہ اس کے زمانے میں لاہور میں اس بات کا بڑا شور مچا کہ عورتوں کے زیور خود بخود غائب ہوجاتے ہیں۔ کوئی عورت کان سے بالی اتار کر ادھرادھر ہوئی اور بالی غائب۔ کسی نے منہ دھوتے وقت ناک سے لونگ اتار کر رکھی تو لونگ ندارد۔ کسی نے ناک سے کیل اتاری اور خود گھڑی بھر کے لیے اندر گئی تو کیل ہی گم۔ بڑھتے بڑھتے یہ حالت یہاں تک پہنچی کہ ہر روز کسی نہ کسی محلے میں عورتوں کے زیور چوری ہونے لگے۔
 
چند ہی دنوں میں ایسا طوفان اٹھا کہ لوگ کوتوالی میں حاضر ہو کر چیخ و پکار کرنے لگے کہ دن دہاڑے چیزیں اڑ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں چلتا، مزے کی بات یہ تھی کہ جہاں چوری ہوتی وہاں کسی غیر آدمی کا آنا ثابت نہیں ہوتا تھا، اندر سے اگر مکان کو قفل لگا رکھا ہے یا سیڑھیوں کو بند کیا ہوا ہے تو وہ بھی بدستور بند رہتی تھیں۔ لیکن زیور غائب ہوجاتا تھا۔
 
یہ حالت چھ ماہ تک رہی۔ شہر میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ عورتوں کے چھوٹے چھوٹے زیور پراسرار طریقے سے چوری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی بے پروا اور سیدھی سادی عورتوں لونگ، کیل، انگوٹھی، چھلا اتار کر گھر میںرکھ دیتی تھیں اور وہ فوراً غائب ہوجاتا تھا، کہا جانے لگا کہ کوئی جادو کے زور سے چوری کرتاہے۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ جن بھوت چرا کر لے جاتے ہیں۔
 
ان دنوں لاہور میں شہباز خاں کوتوال تھا، یہ شخص قصور کا رہنے والا تھا، اس کے ماتحت ارجن سنگھ جمعدار تھا جو بہت قابل اور ذہین تھا۔ عام طور پر پیچیدہ مقدمات جن کا سراغ لگانا مشکل ہوتا، تفتیش کے لیے ارجن سنگھ کے سپرد کیے جاتے تھے، ایک دن بیٹھے بیٹھے کوتوال صاحب ارجن سنگھ سے کہنے لگے۔
 
دیکھ لی آپ کی لیاقت۔ آپ اس چور کا سراغ نہیں لگاسکتے۔
 
یہ سن کر جمعدار نے کہا۔ حکم کی دیر ہے۔ دیکھیے کس طرح گرفتار کرکے لاتا ہوں۔
 
اس پر کوتوال نے ارجن سنگھ کو اس عجیب و غریب چور کی گرفتاری پر مامور کیا۔ عقل مند جمعدار نے سب سے پہلے ان مکانوں کا معائنہ کیا، جہاں سے زیور چوری ہوئے تھے، سب زیور ہلکے وزن کے تھے۔ جمعدار سوچنے لگا کہ چور انسان نہیں ہے، یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے، اسی فکر غرق وہ بازار میں گزر رہا تھا کہ ایک شخص کو دیکھا کہ دونی چھت پر سے گراتا ہے اور مینا اسے گرنے سے پہلے پکڑ لیتی ہے اور اپنے مالک کے پاس لے آتی ہے۔ ارجن سنگھ کے ذہن میں پہلے ہی یہ خیال تھا کہ اس قسم کی چوری انسان نہیں کرتا، بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ فوراً دماغ اس طرف متوجہ ہوا کہ ہو نہ ہو کوئی جانور چور ہے جس کو یہ سکھایا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے زیور جہاں پڑے ہوں اٹھا کر مالک کے پاس لے آئے۔
 
یہ گتھی حل ہوتے ہی وہ ہر شخص کی بڑے غور سے نگرانی کرتا رہا، ایک دن ایک شخص کو پنجرا ہاتھ میں لیے ہوئے دیکھا، جس پر غلاف پڑا ہوا تھا اور وہ شخص ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔
 
ارجن سنگھ کو شک ہوا وہ اس کے پیچھے لگ کر نگرانی کرنے لگا۔ دوسرے ہی دن اس نے دیکھا کہ چونا منڈی کی ایک گلی میں جا کر اس شخص نے ادھر ادھر تاکا اور جب وہاں کسی کو موجود نہ پایا تو پنجرے کا غلاف تھوڑا سا اٹھادیا اور ایک پرندہ اڑا کر باہر چلا گیا۔ یہ شخص گلی میں ٹہلنے لگا۔ ارجن بھی تاک میں تھا، کوئی دس پندرہ منٹ کا عرصہ گزرا ہوگا کہ وہیں پرندہ چونچ میں انگوٹھی پکڑے ہوئے جھٹ اس شص کے ہاتھ پر آبیٹھا اور اس نے انگوٹھی جیب میں ڈال کر جانور کو پھر پنجرے میں بند کردیا اور کوئی کھانے کی چیز اس کو دے دی۔
 
ارجن سنگھ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوا، اس کو جس چیز کی تلاش تھی، وہ مل گئی، جب یہ مجرم موتی بازار میں سے گزر رہا تھا تو ارجن نے اسے پکڑ لیا، اور اس کی تلاشی لی تو دو لونگیں، تین انگوٹھیاں اور دو چھلے برآمد ہوئے، اس وہ کو کوتوالی لے گیا اور پنجرا کوتوال کے سامنے رکھ کر کہا.... جناب! اس پنجرے میں آپ کا چور ہے، جس نے کئی مہینوں سے شہر میں آفت مچارکھی ہے اور یہ شخص جو پاس کھڑا ہے، اس کا مالک ہے۔
 
کوتوال نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس نے اپنے مکان کا پتا بتایا جہاں سے ایک گھڑا انگوٹھیوں، چھلوں اور سونے کی کیلوں وغیرہ کا برآمد ہوا، مجرم نے بتایا کہ میں نے اس مینا کو سکھا پڑھا کر چور بنایا تھا، جہاں یہ سونے کی کوئی کم وزن ہلکی سی چیز پڑی دیکھتی، اٹھا لاتی،
 
اس گرفتاری سے کوتوال صاحب اور شہر کے لوگ بہت خوش ہوئے اور ارجن سنگھ کو معقول انعام ملا۔ مجرم کے دونوں ہاتھ کٹوادیے گئے اور مینا کو شاہی چڑیا خانے میں بھیج دیا گیا اور اس کے پنجرے پر لکھ دیا گیا چور مینا جو بھی اسے دیکھتا، چور اور سراغ رساں کی چالاکی پرحیران ہوتا۔
 

:::::: سکھوں کے برتن ناپاک ::::::

رنجیت سنگھ کے زمانے میں ، پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی، رنجیت سنگھ جنگجو طبعیت کا مالک تھا، ایک آنکھ سے دیکھنے والا بہادر شخص تھا۔ یہ واقعہ رنجیت سنگھ کے زمانے کا ہے۔
سکھ اکٹھے ہوکر رنجیت سنگھ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مسلمان جو صبح کو آذان دیتے ہیں، اس سے ہمارے برتن ناپاک ہوتے ہیں، مسلمانوں کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔
رنجیت سنگھ نے ایک انوکھا تاریخی حکم دیا کہ مسلمانوں کو ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے اور جتنے سکھ یہ شکایت لے کر آئے ہیں ان کی ڈیوٹی لگائ جاتی ہے کہ وہ صبح جس وقت آذان ہوتی ہے، اس سے پہلے ہر مسلمان کے گھر جائیں اور اسے بتائیں کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
سکھوں پہ تو جیسے قیامٹ ٹوٹ پڑی روزانہ ان کو مشقت کرنی پڑتی، نمازیوں کی تعداد مساجد میں بہت زیادہ ہوگئ۔ کچھ دنوں بعد ان سکھوں نے ہاتھ جوڑ لیے، رنجیت سنگھ سے کہا کہ آپ اپنا حکم واپس لیں، مسلمانوں کو آذان دینے دیں، اب برتن ناپاک نہیں ہونگے۔

Monday 21 January 2013

::::یہ دنیا کارہائے عمل ہے:::::

ایک خبر پڑھی کہ "خفیہ ادارے متفق ہیں،کہ لاپتہ افراد دہشتگردی میں ملوث ہیں"

بے اختیار خون خول اٹھا ہے:::::::::
 
     کہ تمہارے پاس طاقت ہے قانون ہے اس لیئے تم نے آرام سے کہہ دیا کہ دھشت گردی میں ملوث ہیں. لیکن ایک رخ اور بھی ہے اس بھیانک تصویر کا. اور وہ یہ ہے کہ جب ایجنسیوں کو ڈنڈا یعنی پریشر ملتا ہے کہ ہر حالت میں دہشتگردوں کو پکڑ کر لاو تو وہ اپنی لاپرواہی ، کوتاہیوں، ہڈ حرامیوں اور حرام کاریوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر میرے اور آپ جیسے ایسے لوگوں کو بھی اٹھا لیتے ہیں جن کے پیچھے رونے والے چند معصوم چہروں کے سوا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا. ایسے کئ بکرئے بلی چڑھانے کو پہلے سے ہی ان کی ہٹ ٹارگٹ لسٹ پر ہوتے ہیں.
 
     آرام سے ایسے لاوارث کو اٹھا لو، جس کی فیملی بھی ہو، جو کام بھی کرتا ہو اور جس پر آقاووں کو شک بھی نا پڑئے کہ یہ دہشت گرد تھا بھی یا نہیں. ثبوت دو  روپے فی کلو کے حساب سے لو اور ڈال دو...........
 
     ظاہر ہے نا تو کیس چلنا ہے اور نا ہی قاضی کی عدالت نا ہی کوئی وکیل صفائی ہو گا اور نا ہی کوئی تحقیق کرنے والا... آسانی سے "دھشت گرد" آم کے آم گٹھلیوں کے دام موجود اور اوپر والوں کی شاباشی کے ساتھ ساتھ " کتوں کے راتب " میں سے کچھ حصہ بھی...............
 
     لیکن یہ دنیا کارہائے عمل ہے، سب نہیں تو کچھ تو دے کر جانا ہے یہاں پر بھی. وہاں کا حساب تو اللہ جانے اور دینے والا جانے.

درختوں سے اتر آئے زمانے:::::::فرحت عباس شاہ

  
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پتے خاک کا زیور نہیں تھے
یہ سارے ہی بلندی پر کہیں تھے
جو مارے مارے پھرتے ہیں دیوانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
ہیں اپنے درد کے ہمراز پتے
ہر اک موسم سے ہیں ناراض پتے
انھیں اب کون آئے گا منانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پیلے دل ہوا کے آسرے پر
پڑے ہیں بس خدا کے آسرے پر
کوئی آیا نہیں ان کو اٹھانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کبھی شاخوں سے تھے پھوٹے پرندے
یہ ہرجائی بڑے جھوٹے پرندے
یہ پتے یہ خزاؤں کے فسانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے

Sunday 20 January 2013

میں نے اس سے یہ کہا..:::::..حبیب جالب


میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا

تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا

میں نے اس سے یہ کہا

جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں

میں نے اس سے یہ کہا

آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا

میں نے اس سے یہ کہا

جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو 'یقین'ہے یہ 'گماں'
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا

حبیب جالب

Sunday 13 January 2013

ریل کی سیٹی:::منتخب تحریر::

ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔

فوٹو -- مہیر ناتھ --.
فوٹو — مہیر ناتھ –.
بستی تو لگ بھگ تین صدیاں پرانی ہے مگر ریل یہاں ایک سو سال سے کچھ اوپر ہی پہنچی تھی۔ اس جگہ کا پرانا نام سیدپور تھا۔ ایمن آباد کا نام، شہنشاہ کے جاہ و جلال اور بھٹیارن کی معصوم خواہش کی کہانی ہے۔ کہتے ہیں شاہجہاں، ہر مہم سے واپسی پہ سید پور ضرور رکتا اور ایمن نامی اس بھٹیارن کے بھنے ہوئے چنوں کا میزبان ہوتا۔
 
کسی ترنگ میں ایک بار ظل الہیٰ نے بھٹیارن سے دریافت کیا، “مانگ کیا مانگتی ہے؟” آگ سے رزق کا سبب کرنے والی بولی، مہاراج، دیس پرگنہ کیا دو گے بس اس جگہ کا نام میرے نام پہ کردو۔ بادشاہ چونکہ اپنی ہی ذات میں حاکم بھی تھا اور قانون گو بھی سو حکم کی تعمیل ہوئی اور ایمن کے نام پہ یہ قصبہ آباد ہو گیا۔
پرانے لوگوں کی کثرت شہر کی تاریخ کا آغاز بابر سے کرتی ہے۔ مگر بابا نانک کی تاریخ بابر کے دور کی تشبیہ اجڑی ہوئی مانگوں اور ویران گودوں سے دیتی ہے اور ان عورتوں کا ماتم کرتی ہے جو جنگ کا رزق ہوئیں۔ شہر سے باہر بابر کی بابری مسجد ہے اور شہر کے اندر گرو کے تین دوارے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود ڈاٹوں کے بغیر قائم رہنے والے بابر کی شائد یہی مسجد ہے جو بچی ہے۔
جب بابر کی فوج نے حملہ کیا تو بابا گرو نانک بھی ایمن آباد میں تھے۔ یہیں ایک روڑی پہ بیٹھ کر بابا نانک نے شہر کی تباہی دیکھی، اس روڑی پہ اب گرودوارہ روڑی صاحب بن گیا ہے۔ فتح کے بعد ترک سپاہ، انہیں قیدی بنا کر لے گئی اور چکی پیسنے پہ لگا دیا۔ بابا نانک کے ہاتھ لگاتے ہی چکی کے پاٹ خودبخود گھومنے لگے ۔ لوگ معجزے پہ یقین کرتے تھے اس لئے ظل الہی کو بھی خبر کی گئی ۔ شہنشاہ نے خود آ کر یہ معجزہ دیکھا تو بابا سے معذرت کی اور دین اور دنیا پہ ایک خوبصورت مکالمہ کیا، جسے منشی تلوک چند محروم نے اپنی نظم میں بیان کیا ہے۔ مکالمہ فورٹ ولیم کالج نے چھپوا کر تقسیم کیا اور چکی کی جگہ اب گرودوارہ چکی صاحب بن گیا ہے۔ یہیں لالو ترکھان کا بھی وہ کنواں ہے جہاں بابا نانک آ کر رہا کرتے تھے ۔ اب اس جگہ گرودوارہ لالو کی کھوئی ہے۔
یہیں کہیں وہ جگہ ہے جہاں حضرت علی ہجویری نے 999 میں چلہ کاٹا۔ دو بھائی انہیں روزانہ دیکھتے اور چالیسویں دن ان میں سے ایک مسلمان ہو گیا۔ جو مسلمان ہو گئے ان کی اولاد اب بھی گوجرانوالہ میں ہے اور جو اپنے مذہب پہ قائم رہے وہ نام کے ساتھ کپور لگاتے تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے۔ شہر کی تاریخ بتانے والے ان کا تعلق پرتھوی راج کپور کے خاندان سے جوڑتے ہیں۔
مگر یہ شہر کی مذہبی شناخت تھی۔ گرودوارے، مسجد اور مندر سے الگ بستی کا ایک رنگ اور بھی ہے۔ شہر کی پرانی عمارتوں میں ایک کالی کوٹھی بھی ہے جو کرتار سنگھ منچندا نے بڑے شوق سے بنوائی تھی، کوٹھی کی رنگت اس کے سایوں کی سبب سیاہ ٹھہری۔ مسافر، البتہ کچھ اور ڈھونڈ رہا تھا۔ چلتے چلتے آواز آئی، گوجرانوالہ پہلواناں دا، ایمن آباد دیواناں دا.
وقت کی راکھ سے چند ایک ستارے لے کر میں ان دیوانوں کی تلاش میں نکل پڑا جو اصل میں فرزانے تھے۔ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کشمیر میں کام کرنے والے پنجاب کی طرف کچھ نہ کچھ سبب رکھتے تھے۔ امر ناتھ بھی پنجاب کی طرف سے کشمیر کے وزیر تھے۔ جو پرانے خط ملے ہیں، ان کے مطابق دیوان صاحب کا دفتر انار کلی کے پاس تھا اور رہائش گمٹی کے قریب تھی۔ دیوان ان کو وزارت کے سبب کہا جاتا تھا۔
فوٹو -- مہیر ناتھ --.
فوٹو — مہیر ناتھ –.
ایمن آباد میں انہوں نے تین حویلیاں تعمیر کیں، جنہیں حویلی دیواناں کہا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک حویلی اب باقی بچی ہے۔ تعمیر کے وقت حویلی کی سات منزلیں، چونسٹھ کمرے اور بیحساب یادداشتیں تھیں۔ بنانے والے نے عمارت اس چاؤ سے بنائی تھی کہ شائد ہمیش یہیں رہنا ہو۔ اندرون شہر تعمیر اس حویلی میں کشمیری لکڑی کا کام کثرت سے ہوا تھا۔ بل کھاتی سیڑھیاں، آرائشی جھروکے، گہرے کنوئیں ان دیوانوں کی فرزانگی کی نشانیاں تھیں، مگر پھر تقسیم ہو گئی۔ امرناتھ کا انتقال ہو چکا تھا اور گھر کی سربراہی اب بشن ناتھ کے حصے میں آئی تھی۔ راتوں رات سب سامان لپیٹ ریل کے زریعے اور لاہور کے راستے سے یہ خاندان ہندوستان روانہ ہوا۔ بشن ناتھ کی بیوی نے آدھے رستے سے اپنے نو سال کے لڑکے اور دس سال کی لڑکی کو بھیجا کہ گھر سے زیور لے آؤ۔ چلتے چلتے آواز دی کہ اگر رستہ نہ ملے تو مسجد جا کر پوچھ لینا۔ وہ بچے ابھی تک واپس گھر نہیں پہنچ پائے۔
بشن ناتھ چوپڑا کا خاندا ن ہندوستان چلا گیا اور اسندھ گاؤں، ضلع کیٹھل، صوبہ کرنال سے شفقت علی شاہ یہاں آن بسے۔ زمیندار ہونے کے ساتھ شاہ صاحب امام مسجد کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ لٹے پٹے سادات ایمن آباد پہنچے تو حویلی پہ قیام کیا مگر مملکت خداداد آزاد ہوتے ہی کلیموں کی زنجیروں میں بندھ گئی۔ کلیم داخل کرواتے کرواتے اور رشوت کی رقم جمع کرتے کرتے 1955 ہو گیا تب کہیں جا کر شاہ صاحب نے بھائیوں کے ساتھ مل کر یہ کوٹھی اٹھارہ ہزار میں خریدی۔ تب تک دیواروں میں دراڑیں پڑی تھیں، دل البتہ ثابت تھے۔
فوٹو -- مہیر ناتھ --.
فوٹو — مہیر ناتھ –.
ادھ مٹے نقوش کھوجتے کھوجتے مسافر اقرار حسین شاہ تک پہنچا جو اب اس حویلی کے مالک ہیں۔ ان کے ہوش میں پانچ منزلوں کی اس حویلی میں 64(چونسٹھ) کمرے تھے۔ اوپر کی دو منزلیں زلزلوں اور بارشوں کی نذر ہو گئیں۔ بچے بڑھے تو جگہ تنگ پڑ گئی سو کمرے گن کر حویلی تقسیم ہو گئی، یادوں کو کون گنے۔ ایک بھائی کے حصے میں تئیس کمرے اور دس مرلے آئے اور دوسرے کے حصے میں حویلی کا مشرقی حصہ۔ مشرقی حصے والے نے ملبہ کنواں میں ڈال دیا اور لکڑی بیچ دی۔ اب اس دالان میں نیلے پیلے گھر اگ آئے ہیں ۔ پہلے بھائی نے البتہ اب بھی وقت کو گلے لگا رکھا ہے۔
کئی سال گزرے، دیوان بشن ناتھ کا پوتا مہیر، اپنا کیمرا اٹھائے اپنی اصل کے تعاقب میں یہاں پہنچا۔ حویلی دیکھتے وقت اس کے ایک ہاتھ میں کیمرا اور دوسرے میں فون تھا۔ سرحد پار جوگندر صاحب بولتے جاتے تھے اور مہیر چلتا جاتا تھا۔ جوگندر صاحب گنے ہوئے قدم بتاتے پھر سمت بتاتے اور مہیر ان کا کل اپنے آج میں تصویر کی صورت محفوظ کر لیتا۔ سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر جوگندر صاحب کی آواز ڈوب گئی۔ یہاں ہم چھپا کرتے تھے۔ میرے بھائی مجھے ڈھونڈھنے آتے تھے۔ مہیر جھکا تو نیچے جوتوں کے پرانے ڈبوں میں چوزوں کا جوڑا اب بھی ویسا ہی دبکا بیٹھا تھا۔
فوٹو -- مہیر ناتھ --.
فوٹو — مہیر ناتھ –.
یادداشت کی دبدھا بھی کوئی کوئی بوجھ پاتا ہے۔ انسان لاکھ خواہش کے باوجود اپنے دل کی نظر کے سوا نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہیں سے اختلاف جنم لیتا ہے۔ آنگن کے ایک ہی پیڑ سے ایک بھائی کے وصل کی خوشبو پھوٹتی ہے اور ایک بھائی کے فراق کے آنسو ملتے ہیں۔ گھر کے کئی کمرے گھر والوں کی نظروں سے بھی چھپے تھے۔ اندر، بہت ہی اندر، کہیں ایک کمرا تھا، جس میں اس وقت نقدی اور زیور مٹکوں میں چھپا کر دیوار کی چنائی کے بیچ بنائی گئی جگہ پہ رکھا جاتا تھا۔ حفاظت کے لئے ان کمروں میں ایک سانپ چھوڑا جاتا جس کو روزانہ دودھ پلایا جاتا۔ جونہی کوئی اجنبی کمرے میں داخل ہوتا، سانپ اس کو ڈس لیتا ۔ مہیر نے حویلی کے کھنڈر اور مقامی سکول پہ لگی اپنے پر دادا کے نام کی تختی دیکھی اور واپس لوٹ گیا۔ دن جب پیلے سے نارنجی ہوا اور ٹٹیریاں بولنے لگیں تو ٹیکسی والے نے ہارن بجایا اور واپسی کا اشارہ کیا۔ تب، مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہو رہا تھا، حضرات ایک ضروری اعلان سنئے، ایک بچی اور ایک بچہ جن کی عمریں نو دس سال ہیں، اپنے ماں باپ سے بچھڑ کر مسجد آ گئے ہیں۔ جس کسی کو ان کی تلاش ہے، خبر دے کر ثواب حاصل کریں۔ مہیر مسجد جانے کو مڑا پھر آپ ہی آپ سر جھٹک کر چل دیا، دادی کی کہانی میں کتنا اثر تھا۔
فوٹو -- مہیر ناتھ --.
فوٹو — مہیر ناتھ –.
وہ ہندوستان لوٹا تو دل میں ایمن آباد کی یادیں، کیمرے میں تصویریں، ٹیپ ریکارڈر میں گفتگو اور ڈائری میں ڈھیروں نمبر تھے۔ گھر آ کر ایک چیز کے سوا اس نے سب کا سب باپ کے آگے ڈھیر کر دیا۔ جوگندر ناتھ چوپڑا پرانے فوجی تھے اور 71 کی جنگ میں محاذ کے زخمی تھے۔ کھلنا میں لگی دو گولیوں سے انہوں نے زندگی کے دو ہزار سبق سیکھے تھے سو چپ چاپ تصویریں دیکھتے رہے۔ مگر کہاوتیں بتاتی ہیں کہ دن کے کچھ حصوں میں پرچھائیاں وجود سے بڑی ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی لمحوں میں بچے بھی والدین کو زیادہ جان لیتے ہیں۔ جب جوگندر ناتھ سب کچھ دیکھ چکے تو مہیر نے اپنے سوٹ کیس سے حویلی سے لائی ہوئی دو نانک چندی اینٹیں نکال کہ باہر رکھ دیں۔ فوجی بھی آخر کو انسان ہوتے ہیں۔ اس رات کیپٹن جوگندر ناتھ دیر تک روتے رہے۔
گئے وقتوں میں شہر میں میلے لگا کرتے تھے، جن میں بیساکھی کا میلہ بہت مشہور تھا۔ پھر وہ لوگ آ گئے جنہیں تبدیلی سے نفرت ہے اور خوشی کے معنی نہیں جانتے۔ خودکش حملوں کے خطرات کے پیش نظر اب کئی سال سے نہ میلہ لگتا ہے نہ لوگ آتے ہیں۔
مندر کے پیچھے یا تالاب کے پاس کہیں چندراوتی کا گھر بھی تھا۔ اس صندل جیسی لڑکی کو ملنے اپنے وقت کا درویش سایکل سے لاہور آ یا کرتا تھا۔ جب چندراوتی مرگئی تو استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ وہ سنہری لڑکی کہاں ہے، گورنمنٹ کالج کی روپہلی دھوپ میں قدرت اللہ شہاب نے جواب دیا، سنہری لڑکی سونے کی کان کو لوٹ گئی ہے۔

کیایہ میرادیس ہے یا وہ میرا دیس تھا(منتخب تحریر)


ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔
کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔
مدعی نے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“
مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “
سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔
”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“
”ہاں ہے!“
پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“
”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔
”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“

اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“
”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“
سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“
شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟
شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:
ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“
”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“
”جی ہاں کیوں نہیں؟“
”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“
”بالکل!“
”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“
”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“
”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔

Tuesday 8 January 2013

تنقید اور خود احتسابی

كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔
شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا۔

كسان كے جانے بعد دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے۔ وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے، مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900 گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا۔

كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا:
“ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں؟
آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں۔

اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ 
کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہم پہلے اپنے گریبان چیک نہ کرلیں۔ کہیں یہ خرابی ہمارے اندر تو نہیں ؟ شکریہ

کیونکہ اپنی اصلاح کرنا مشکل ترین کام ہے
--------------------------------------
مزید اچھے اچھے مراسلات کے لیے اپنی زبان اردو کے صفحے میں شامل ہوں
 
كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت
كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔

 شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا۔

كسان كے جانے بعد دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے۔ وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے، مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔
 
اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900 گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا۔

كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا:
“ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں؟
آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں۔

اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہم پہلے اپنے گریبان چیک نہ کرلیں۔ کہیں یہ خرابی ہمارے اندر تو نہیں ؟ شکریہ

کیونکہ اپنی اصلاح کرنا مشکل ترین کام ہے

------------------------------------------------------------------

تلخ نوائی : جناب اظہار الحق



Monday 7 January 2013

لکڑی کی “نصف ہٹ” میں بسیرا ہے آج کل

لکڑی کی “نصف ہٹ” میں بسیرا ہے آج کل
فدوی بشیر نہیں ہے “بیٹرا” ہے آج کل
 
دو”کمریاں ” کہ عرض ہے جن میں نہ طول ہے
جینا اگر یہی ہے تو مرنا فضول ہے
 
جو چیز جس جگہ تھی ضروری وہیں نہیں
چھت بے تکلفی میں کہیں ہے کہیں نہیں
 
آواز جو بلند ہوئی پار ہو گئی
اب گھر میں بات چیت بھی دشوار ہو گئی
 
پنکھے کے ساتھ ساتھ ہے چھت بھی چلی ہوئی
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
 
دیوار اس طرف ہے تو شہیتر اس طرف
جلسہ ادھر ہے نعرئہ تکبیر اس طرف
 
”اسٹور” اس طرف تو ” کچن ” دوسری طرف
”بلب اس طرف ٹنگے ہیں ” بٹن” دوسری طرف
 
شاعر ادھر ہے، مشق سخن دوسری طرف
رن اس طرف بپا ہے ”بزن” دوسری طرف
 
صحنِ چمن کی نہر لِبن دوسری طرف
نلکے کا دھڑ ادھر ہے تو پھن دوسری طرف
 
بیلیں اگی ہوئی ہیں ترے در کے سامنے
کدو اچھل رہے ہیں مرے گھر کے سامنے
 
مرغوں کا شوق ہے جو ادھر کے مکین کو
اچھی سزا ملی ہے ادھر کی زمین کی
 
گھبرا کے پی گئے، کبھی کلغا کے پی گئے
پانی نیاز مند کے گھر آکے پی گئے
 
کچھ بے وقوف مرغ جو خوددار ہو گئے
وہ شام ہی سے فتنہ ء بیدار ہو گئے
 
گائے جو پال رکھی ہے اطفال کے لئے
فی الحال کام آتی ہے،بھونچال کے لئے
 
روئے سخن ادھر تو سخن دوسری طرف
گھنٹی کا تن ادھر ہے تو ٹن، دوسری طرف
 
مہمان محترم جو کوئی آکے رہ گیا
کچھ ایسی شرم آئی کہ شرما کے رہ گئے
 
کھانا جہاں دیا وہیں نہلا دیا گیا
ہم اس سے اور وہ جان سے بیزار ہو گیا
 
رشتہ تعلقات کا ہموار ہو گیا
نہلا دیا گیا کبھی لٹکا دیا گیا
 
بستر ہے رہ گزار بستر کے سامنے
دارا پڑا ہوا ہے سکندر کے سامنے
 
آندھی میں رات کرتہ اور بنیان تو گیا
اب خود بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
 
فرزند خیر سے جو جہاں چند ہو گئے
پیدا ہوئے ادھر کہ ادھر بند ہو گئے
:::سید ضمیر جعفری:::

Saturday 5 January 2013

اخلاص _اخلاص

 
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا - وہ اس وقت مکہ معظمہ میں کسی رئیس شخص کے بال بنارہا تھا میرے مالی حالات نہایت شکستہ تھے میں نے حجام سے کہا
" میں اجرت کے طور پر تمھیں ایک پیسا نہیں دے سکتا بس تم الله کے لئے میرے بال بنا دو "
میری بات سنتے ہی اس حجام نے رئیس کو چھوڑ دیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا - تم بیٹھ جاؤ ! مکے کے رئیس نے حجام کے طرز عمل پر اعتراض کیا تو وہ معذرت کرتے ہوئے بولا -
" جب الله کا نام اور واسطہ درمیان میں آجاتا ہے ، تومیں پھر سارے کام چھوڑ دیتا ہوں "
حجام کا جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا اور پھر قریب آ کر اس نے میرے سر پر بوسہ دیا اور بال بنانے لگا اپنے کام سے فارغ ہو کے حجام نے مجھے ایک پڑیا دی جس میں کچھ رقم تھی -
" اسے بھی اپنے استمعال میں لائیے " حجام کے لہجے میں بڑا خلوص تھا - میں نے رقم قبول کر لی اور اس کے ساتھ نیت کی کہ مجھے جو پہلی آمدنی ہوگی وہ حجام کی نظر کروں گا - پھر چند روز بعد جب میرے پاس کچھ روپیہ آیا تو میں سیدھا اس حجام کے پاس پہنچا اور وہ رقم اسے پیش کر دی -
یہ کیا ہے ؟ حجام نے حیران ہو کر پوچھا میں نے اس کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا میری نیت کا حال سن کر حجام کے چہرے پر ناگواری کا رنگابھر آیا -
" اے شخص ! تجھے شرم نہیں آتی ! تو نے الله کی راہ میں بال بنانے کو کہا تھا اور اب کہتا ہے کہ یہ اس کا معاوضہ ہے - تو نے کسی بھی مسلمان کو دیکھا ہے الله کی راہ میں کام کرے اور پھر اس کی مزدوری لے "
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرماتے تھے ، میں نے اخلاص کا مفہوم اسی حجام سے سیکھا ہے

Friday 4 January 2013

قصص الانبیاء سے ماخوذ______حضرت سلیما ن عليه السلام اورچیونٹی

 
ایک مرتبہ حضرت سلیمان عليه السلام نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر نہر کی طرف جارہی تھی ، حضرت سلیما ن عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے ، جب چیونٹی پانی کے قریب پہنچی تواچانک ایک مینڈ ک نے اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا منہ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منہ میں چلی گئی، میڈک پانی میں داخل ہو گیا اور پانی ہی میں بہت دیر تک رہا ،
سلیمان عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھتے رہے ،ذرا ہی دیر میں مینڈک پانی سے نکلا اور اپنا منہ کھولا تو چیونٹی باہر نکلی البتہ اس کے ساتھ دانہ نہ تھا۔
حضرت سلیمان عليه السلام نے ا س کو بلا کر معلوم کیا کہ ”ماجرہ کیاتھا اور وہ کہاں گئی تھی“ اس نے بتایا کہ اے اللہ کے نبی آپ جو نہر کی تہہ میں ایک بڑا کھوکھلا پتھر دیکھ رہے ہیں ، اس کے اندر بہت سے اندھے کیڑے مکوڑے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو وہاں پر پیدا کیا ہے، وہ وہا ں سے روزی تلاش کرنے کے لیے نہیں نکل سکتے‘ اللہ تعالی نے مجھے اس کی روزی کا وکیل بنایا ہے ، میں اس کی روزی کو اٹھا کر لے جاتی ہو ں اور اللہ نے اس مینڈک کو میرے لیے مسخر کیا ہے تاکہ وہ مجھے لے کر جائے ، اس کے منہ میں ہونے کی وجہ سے پانی مجھے نقصان نہیں پہنچاتا، وہ اپنا منھ بند پتھر کے سوراخ کے سامنے کھول دیتا ہے ، میں اس میں داخل ہو جاتی ہوں ، جب میں اس کی روزی اس تک پہنچا کر پتھر کے سوراخ سے اس کے منہ تک آتی ہوں تو مینڈک مجھے منہ سے باہر نکال دیتا ہے ۔
 
 حضرت سلیما ن عليه السلام نے کہا: ”کیا تو نے ان کیڑوں کی کسی تسبیح کو سنا “ چیونٹی نے بتایا : ہاں! وہ سب کہتے ہیں :
 یا من لاینسانی فی جوف ہذہ اللجۃ
 ”اے وہ ذات جو مجھے اس گہرے پانی کے اندر بھی نہیں بھولتا“ ۔قصص الانبیاء سے ماخوذ