Monday 31 December 2012

تب تم بہت یاد آتے ہو

Poet:
Shaheen Mughal, Gujranwala

 

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آو سچ بولیں.

Stop Voice Feather Light
 

 
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آو سچ بولیں.
 
سترہ سالہ دانیال کے ایک انکار نے اسلام آباد کی اشرافیہ کو حیران نہیں بلکہ پریشان کر دیا۔ انکار کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈرامہ ہال میں پیش آیا جہاں وفاقی دارالحکومت کے ایک معروف انگریزی میڈیم اسکول کی تقریب تقسیم انعامات جاری تھی۔ رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبح دس بجے سے بارہ بجے کے درمیان منعقد کی گئی اور اتوار کا دن ہونے کے باعث ڈرامہ ہال طلبہ و طالبات کے والدین سے بھرا ہوا تھا۔ ان والدین میں شہر کے معروف لوگ شامل تھے۔ اس تقریب پر مغربی ماحول اور مغربی موسیقی غالب تھی جس میں حیرانگی کی کوئی بات نہ تھی۔ تقریب کی تمام کارروائی انگریزی میں ہو رہی تھی اور انگریزی زبان جہاں بھی جاتی ہے اپنی تہذیب کو ساتھ لے کر جاتی ہے۔ اس دوران اسکول کی طالبات نے جنید جمشید کے ایک پرانے گیت پر رقص پیش کیا۔ یہ گیت ایک سانولی سلونی محبوبہ کے بارے میں تھا جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہے۔ نو عمر طالبات نے اس گیت پر دیوانہ وار رقص کیا۔ حاضرین میں موجود کئی طلبہ نے اپنے والدین کی موجودگی کی پروا نہ کرتے ہوئے محو رقص طالبات کو چیخ چیخ کر داد دی۔

اس رقص کے بعد اسٹیج سے او لیول اور اے لیول کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے نام پکارے جانے لگے۔ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بعض طالبات اسکارف اور برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر نئی نئی داڑھی آئی تھی اور جب پرنسپل صاحبہ نے اس کے گلے میں گولڈ میڈل ڈال کر اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا تو دبلے پتلے طالب نے نظریں جھکا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے؟ طالب علم نے نفی میں سر ہلایا اور اسٹیج سے نیچے اتر آیا۔ پھر دانیال کا نام پکارا گیا جو اے لیول مکمل کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل حاصل کرنے اپنے پرانے اسکول کی تقریب میں بلایا گیا تھا۔ وہ گولڈ میڈل وصول کرنے کیلئے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پر جا کھڑا ہوا اور مائیک تھام کر کہنے لگا کہ وہ اپنے اسکول کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہے کہ اسے گولڈ میڈل کیلئے نامزد کیا گیا لیکن اسے افسوس ہے کہ مذکورہ تقریب میں اسکول کی طالبات نے رمضان المبارک کے تقدس کا خیال نہیں کیا اور واہیات گیت پر رقص پیش کیا۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے خلاف بطور احتجاج وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اتر آیا اور ہال میں ہڑبونگ مچ گئی۔ کچھ والدین اور طلبہ تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کر رہے تھے اور کچھ حاضرین غصے میں پاگل ہو کر اس نوجوان کو انگریزی زبان میں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ بوائے کٹ بالوں والی ایک خاتون اپنی نشست سے کھڑی ہو کر زور زور سے چیخیں”گیٹ آؤٹ طالبان، گیٹ آؤٹ طالبان “۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دانیال کے مخالفین حاوی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کر رہے تھے لیکن یہ ہڑبونگ وفاقی دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک واضح تقسیم کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تقسیم لبرل عناصر اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کے درمیان تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے خود مائیک سنبھال کر صورتحال پر قابو پایا اور تھوڑی دیر کے بعد ہوشیاری سے ایک خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلا لیا اور خاتون نے اپنی گرجدار آواز میں دانیال کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ بھی کیا وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کے خلاف تھا کیونکہ بانی پاکستان رواداری کے علمبردار تھے۔ پچھلی نشستوں پر براجمان ایک اسکارف والی طالبہ بولی کہ بانی پاکستان نے یہ کب کہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان المبارک میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی محبوبہ بن کر ڈانس کریں؟ ایک دفعہ پھر ہال میں شور بلند ہوا اور اس مرتبہ بنیاد پرست حاوی تھے لہٰذا پرنسپل صاحبہ نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ طالبات کے رقص سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں۔

اس واقعے نے اسلام آباد میں ایک مغربی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سفارت خانے نے فوری طور پر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگریزی میڈیم اسکولوں میں او لیول اور اے لیول کے ایک سو طلبہ و طالبات سے امریکی پالیسیوں، طالبان اور اسلام کے بارے میں رائے معلوم کریں۔ اس سروے کے حتمی نتائج ابھی مرتب نہیں ہوئے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ او لیول اور اے لیول کے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی اکثریت امریکہ اور طالبان دونوں سے نالاں ہے لیکن امریکہ کو بڑا دہشت گرد سمجھتی ہے۔ سروے کے دوران بعض طلبہ نے ” خطرناک حد تک “ طالبان کی حمائت کی اور کہا کہ طالبان دراصل امریکہ اور پاکستان حکومت کے ظلم اور بمباری کا ردعمل ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم ایسے طلبہ دس فیصد سے بھی کم تھے۔ اس سروے سے مغرب کو کم از کم یہ پتہ ضرور چل جائے گا کہ اسلام آباد کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں طالبان کے دس فیصد حامی موجود ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ طالبان صرف دینی مدارس میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ وقت اور حالات انگریزی میڈیم طالبان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

قلم کمان ۔۔۔حامد میر
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Saturday 29 December 2012

....::::::طارق بن زیاد کا ایمان افروز خطبہ ::::::...


 


جب طارق بن زیاد دشمن کے قریب پہنچے تو انہوں نے اپنی فوج کے سامنے اللہ
تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد اور شہادت کی ترغیب دلائی اور کہا :

اے لوگو! اب راہ فرار کہاں ہے؟ سمندر تمہارے پیچھے ہے اور دشمن تمہارے آگے۔
اللہ کی قسم ! تمہارے لئے صدق و صبر کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ جان لو ! تم اس جزیرہ نما میں اس قدر بےوقعت ہو کہ کم ظرف لوگوں کے دسترخوان پر یتیم بھی اتنے بےوقعت نہیں ہوتے۔
تمہارے دشمن اپنے لشکر ، اسلحے اور وافر خوراک کے ساتھ تمہارے مقابلے میں نکلا ہے۔ ادھر تمہارے پاس کچھ نہیں سوائے اپنی تلواروں کے۔ یہاں اگر تمہاری اجنبیت کے دن لمبے ہو گئے تو تمہارے لئے خوراک بس وہی ہے جو تم اپنے دشمن کے ہاتھوں سے چھین لو۔
اگر تم یہاں کوئی معرکہ نہ مار سکے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تمہاری جراءت کے بجائے تمہارے دلوں پر دشمن کا رعب بیٹھ جائے گا۔
اس سرکش قوم کی کامیابی کے نتیجے میں تمہیں جس ذلت و رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ دشمن نے اپنے قلعہ بند شہر تمہارے سامنے ڈال دئے ہیں۔ اگر تم جان کی بازی لگانے کو تیار ہو جاؤ تو تم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
میں تمہیں ایسے کسی خطرے میں نہیں ڈال رہا جس میں کودنے سے خود گریز کروں ۔۔۔۔ اس جزیرہ نما میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے دین کو فروغ دینے پر اللہ کی طرف سے ثواب (ان شاءاللہ) تمہارے لئے مقدر ہو چکا ہے۔
یہاں کے غنائم خلیفہ اور مسلمانوں کے علاوہ خاص تمہارے لئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے، اس پر دونوں جہانوں میں تمہارا ذکر ہوگا۔
یاد رکھو ! میں تمہیں جس چیز کی دعوت دیتا ہوں اس پر پہلے خود لبیک کہہ رہا ہوں۔ میں میدانِ جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پر خود حملہ آور ہوں گا اور ان شاءاللہ تعالیٰ اسے قتل کر ڈالوں گا۔
تم سب میرے ساتھ ہی حملہ کر دینا۔ اگر اس کی ہلاکت کے بعد میں مارا جاؤں تو تمہیں کسی اور ذی فہم قائد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور اگر میں اس تک پہنچنے سے پہلے ہلاک ہو جاؤں تو میرے عزم کی پیروی کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنا اور سب مل کر اس پر ہلہ بول دینا۔ اس کے قتل کے بعد اس جزیرہ نما فتح کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچانا۔ راڈرک کے بعد اس کی قوم مطیع ہو جائے گی۔
بحوالہ : وفیات الاعیان ، ج:5 ، ص:321-322

پنجابی کلام



خوشی


باپ ، بیٹا


Friday 28 December 2012

طالبہ کے پرس میں کیا تھا..............منتخب تحریر:::: اپنی زبان اردو

طالبہ کے پرس میں کیا تھا ؟؟؟

ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیشی ٹیم آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوں کے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ،ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی، کسی بھی پرس میں کتابیں، کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی ، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گئی تھی ، اوریہی جائے حادثہ تھا ، حادثہ کیا تھا، اورکیا پیش آیا؟

تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں، ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی، اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی، وہ تفتیشی کمیٹی پر دزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔
...

اس نے اپنے پرس پرہاتھ رکھا ہوا تھا !! تفتیش شروع ہوچکی ہے، اس کی باری آنے ہی والی ہے ، لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے …. چند منٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے ،لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیا گویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگز نہیں کھول سکتے، اسے کہا جا رہا ہے، پرس کھولو! تفتیشی کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے ، پرس کو سینے سے چپکا لیا ہوا ہے ، تفتیشی نے پھر کہا : پرس ہمارے حوالے کرو، لڑکی زور سے چلا کر بولتی ہے: نہیں میں نہیں دے سکتی ۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی ، سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں ، آخر راز کیا ہے ؟حقیقت کیا ہے ؟

بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا، ساری لڑکیاں خاموش ….لکچر بند …. ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہوگا …. پرس میں کیاچیز ہے ؟

تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی ، طالبہ آفس میں آئی ، ادھراس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی، سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا، یااللہ ! کیا تھا پرس میں ….؟

آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ….؟

پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی، نہ فحش تصویریں تھیں، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی …. اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے، بس یہی تھے اورکچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے ….تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے ۔ ہم تنگ دست ہیں ،ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے ۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تواس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔ یہ دلدوز منظر کیا تھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں،

بھائیو اور بہنو!

یہ منظر ان مختلف المناک مناظر میں سے ایک ہے، جو ممکن ہے ہمارے پڑوس میں ہو اور ہم اسے نہ جانتے ہوں، یا بسا اوقات ایسے لوگوں سے نظریں اوجھل کئے ہوئے ہوں ۔

اللہ پاک ہر شخص کو ایسی مجبوری سے بچائے، اور ایسے بُرے دن کسی کو نہ دیکھنے پڑیں .....اللهم آمين يا رب العالمين

Thursday 27 December 2012

لڑکیوں کو بلیک میل :::::::میری بہنو!!‌! حیا کرو.

مندرجہ ذیل خبر کو پڑھنے کے بعد میں تو صرف ایک ہی بات کہوں گا!!!!!!
میری بہنو!!!‌حیا کرو!!!!!
یہ نوبت اپنے آپ نہیں آتی بلکہ آپ خود لاتی ہیں.. .. .. ناجائز تبھی ہوتا ہے جب موقع دیا جاتا ہے ..
پھر اس ملک پر اللہ کا عذاب نہیں آئے گا تو اور کیا ہو گا. کیا یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ ہم سب مسلمان بہن بھائی ہیں
 
04
 
کراچی: اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں سے دوستی کرکے انھیں نجی تصاویر اور فلموں کے ذریعے بلیک میل کرنے والے گروہ کا انکشاف ہوا ہے۔
ملزمان لڑکیوں کی تصاویر اور فلم بندی کیلیے ڈیفنس میں واقع فلیٹ میں لیجاتے تھے اور وہاں پہلے سے نصب کیمروں کے ذریعے ان کی تصاویر اور فلمیں بنالیتے تھے، بعدازاں لڑکیوں کو بلیک میل کرکے ان سے خطیر رقوم بٹوری جاتی تھیں، ایک غیرملکی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر تعینات لڑکی کی ماں کی درخواست پر ایف آئی اے نے ایک ملزم کو گرفتار اور بلیک میلنگ میں استعمال ہونے والا مواد قبضے میں لے لیا، ملزم کے دیگر ساتھیوں کی تلاش میں چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو ڈیفنس کی رہائشی ایک خاتون کی جانب سے درخواست موصول ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک نوجوان ان کی بیٹی کو ایک سال سے بلیک میل کرکے 50 لاکھ روپے سے زائد بٹور ہوچکا ہے، درخواست کے مطابق ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ، کینڈین شہری اور ایک غیرملکی فرم میں اعلی عہدے پر کام کررہی ہے، انھوں نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص گذشتہ کچھ عرصے سے اس کے رابطے میں ہے اور اس کی متنازع تصاویر اور فلمیں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی دیکر اس سے اب تک خطیر رقم بٹور چکا ہے، ان کی بیٹی نے اپنی عزت بچانے کیلیے اب تک اس کے تمام مطالبات پورے کیے ہیں، وہ دو مرتبہ اس نوجوان کو گاڑی خرید کردے چکی ہے جبکہ متعدد مرتبہ قیمتی تحفے اور نقد رقوم لینے کے بعد بھی اس کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں اور اب وہ نئی گاڑی اور فلیٹ خرید کر دینے کی ڈیمانڈ کررہا ہے۔
ان کی بیٹی کی کچھ نجی تصویریں وہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ بھی کرچکا ہے، خاتون کی درخواست پر ایف آئی اے سائبر کرائم نے انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کی مدد سے گلستان جوہر کے رہائشی تیس سالہ عامر بدر کو گرفتار کرلیا اور اس کے قبضے سے مذکورہ لڑکی کی تصاویر اور فلمیں بھی برآمد کرلی گئی ہیں، دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ اور اس کے دوست آسودہ حال گھرانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں سے دوستی کرکے انھیں اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ملزم عامر بدر اور اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں ڈیفنس میں ایک کرائے کا فلیٹ حاصل کررکھا ہے اور اس فلیٹ کے مختلف حصوں میں کیمرے نصب کررکھے ہیں، لڑکیوں کو ملاقات کے بہانے فلیٹ میں لیجا کر ان کی تصاویر اور فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ان کی بنیاد پر لڑکیوں سے خطیر رقوم اور قیمتی تحفے حاصل کیے جاتے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ درخواست گزار خاتون کی بیٹی نے ملزم کے مطالبات پورے کرنے کیلیے اپنی کمپنی کے اکائونٹ سے بھی خطیر رقم نکالی تھی تاہم اس کے والدین نے کمپنی کی رقم لوٹادی لیکن لڑکی کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، ایف آئی اے حکام ملزم کے دیگر ساتھیوں کی تلاش میں چھاپے مار رہے ہیں۔

Saturday 22 December 2012

برہام پور گنجم:::::ملّا:::::شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب

 
سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ ک...چھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔

یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب
❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿

Saturday 15 December 2012

جنت کی چابی -------- منتخب تحریر


 

تین نوجوان ملک سے باہر سیر کے لیئے گئے
اور وہاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرے جو 75 منزلہ ہے
 انکو کمرہ بھی سب سے اوپر والی منزل پر ملا
 ان کو عمارت کی انتظامیۃ باخبر کرتے ہویے کہتی ہے
 ہمارے یہاں کا نظام آپ کے ملک کے نظام سے تھوڑا مختلف ہے یھاں کے نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں
 لھذا ہر صورت آپ کوشش کیجیے کے دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ہو
 کیونکہ اگر دروازے بند ہوجاییں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوا نا ممکن نہ ہوگا
 پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ہیں مگر رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیں
مگر
 دوسرے دن انہیں دیر ہوگئی اور 10:05 پر عمارت میں داخل ہوئے اب لفٹ کے دروازے بند ہو چکے تھے
 اب ان تینوں کو کوئی راہ نظر نہ آئی کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے
 جبکہ کمرہ 75 ویں منزل پر ہے
 اب تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اس لیے اب سیڑھیوں کے ذریعے ہی جانا ہوگا ۔ لیکن اتنا لمبا رستہ طے کرتے کرتے ہم تھک جائیں گے اس لیے ہم باری باری قصے سنائیں گے تاکہ راستہ کا پتہ ہی نہ چلے
25 منزل تک پہلا ساتھی قصے سنائے گا پھر 25 منزل دوسرا اور پھر آخری 25 منزل تیسرا اس طرح ہمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور راستہ بھی کٹ جایے گا

پہلے دوست نے کہا کہ میں تمہیں لطیفے اور مزاحیہ قصے سناتا ہوں
 اب تینوں ہنسی مزاق کرتے ہویے چلتے رہے
 جب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تمہیں قصے سناتا ہوں
 مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقت ہونگیں
اب ۲۵ منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے ہویے چلتے رہے
 اب جب ۵۰ منزل تک پہنجے تو تیسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ہوں
اور
 غم بھرے قصے سنتے ہویے باقی منزل بھی طے کرتے رہے
 یھاں تک کے تینوں تھک تھک کر جب دروازے تک پہنچے
 تو ایک ساتھی نے کہا
 کہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ہے کہ ہم
 کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ہی چھوڑ آیے ہیں
 یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ہوگیی

مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 رکیں
 ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی
 انسان کی اوسط عمر 60 سے 80 سال ہے ۔ بہت کم لوگ اس سے اوپر جاتے ہیں
اور ہم لوگ اپنی زندگی کے 25 سال ہنسی مزاق کھیل کود اور لہو لعب میں لگا جاتے ہیں
 پھر باقی کے 25 سال شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رہتے ہیں
 اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو
 باقی زندگی کے آخری 25 سال بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا ،بیماریاں ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیں
 یھاں تک کے جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے
 کہ
چابی اصل کنجی تو ہم ساتھ لانا ہی بھول گیے
 اس جنت کی چابی
 جس کو ہم اپنی منزل سمجھتے ہویے یہ زندگی گزارتے رہتے ہیں
 اور پھر افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں لیکن وہ افسوس کسی کام نہیں آتا
 تو کیوں نا ابھی سے جنت کی چابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ منزل پر پہنچ کر پچھتاوا نہ ہو

ایک حقیقت ، اسلامی جمہوریہ پاکستان


Wednesday 12 December 2012

ہے کوئی جو حلال کھاتا ہو.::: ایک ایمان افروز واقعہ

اچھرہ ،لاہور کے قریب ایک اسلامی قصبہ (جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس وقت اچھرہ کی آبادی لاہور سے بالکل الگ تھی اوربیچ میں لمبے فاصلے تک کھیت تھے )ہے ،کئی سال گذرے ،اس قصبہ کی جامع مسجد میں نماز مغرب پڑھی جارہی تھی کہ ایک نہایت ہی دبلاپتلامسافرآیااورشامل ِنماز ہوگیا،اگر چہ یہ مسافر محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا ،تاہم اس کی صورت بااثر تھی ،نماز پڑھی گئی اورنمازی اپنے اپنے گھر چلے گئے ،تھوڑے عرصہ بعد ایک مقامی مسلمان کھانا لے کر داخل ِ مسجد ہوااوراس نووارد سے کہا: "آپ بھوکے ہوں گے ،میں کھانالایا ہوں ،براہ ِ کرم تناول فرمالیں ،آپ کی بڑی عنایت ہوگی"۔
مسافر نے جواب دیا: "لیکن معاف فرمائیے ،مجھے کچھ پرہیز ہے"۔
"حضرت آپ کچھ فکر نہ کیجئے ،یہ سادہ سی روٹی ہے،مرچ کم ہے اورگھی بھی بازاری نہیں ہے"۔مقامی مسلمان نے جواب دیا
"بھائی میرایہ مطلب نہیں ہے"۔مسافر نے کہا
"پھر کیا مطلب ہے"۔مقامی مسلمان نے پوچھا
مسافرچپ ہوگیا اورمقامی مسلمان اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا،چند منٹ بعد مسافرنے زبان کھولی اورکہا:"امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے ،مجھے آپ سے کچھ بھی کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی ، لیکن آپ کھانا لے کر آگئے تو مجبوراً مجھے عرض کرنا ضروری ہوگیا ہے،آپ جانتے ہیں کہ شریعت ِ اسلام میں طعام ِحلال ،نمازِ پنجگانہ ہی کی طرح فرض ہے،ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کا لقمہ حلال نہ ہوتو اللہ کی بارگاہ میں اس کے نہ فرض قبول ہوتے ہیں اورنہ نفل ؛چونکہ اس انگریز ی راج میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ چکی ہے ،اس واسطے میں جب تک پوری طرح جان پہچان نہیں کرلیتا ،میں کسی بھا ئی کو بھی کبھی کھانے کی تکلیف نہیں دیتا"۔
"حضرت!آپ نے یہ کیافرمایا’’،مقامی مسلمان نے کہنا شروع کیا:"معاذاللہ!میں حرام خور نہیں ہوں ،یہ چوری کامال نہیں ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا،میں یہاں منڈی میں آڑھتی ہوں اوربیوپار کرکے اپنی روزی کماتاہوں ،آپ اس کاوہم نہ کیجئے"۔
"تو پھر آپ کی تجارت کے کسی مرحلہ میں سود کالینا دینا نہیں ہوتا ؟"مسافر نے پوچھا۔
"میں یہ تو نہیں کہہ سکتا،کئی مواقع پر ہم کومنڈی سے قرض لینا پڑتاہےاورمقررہ شرح پر سود بھی دینا پڑتا ہے،اسی طرح تجارتی مال کے ہیرپھیر میں دوسرے سے بھی ہم سودوصول کرلیتے ہیں "۔مقامی مسلمان نے جواب دیا۔
"تو بہت اچھا ،میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو تکلیف ہوئی ،احکام ِ قرآن کے مطابق وہ تجارتی منافع جس میں سود کی آمیز ش ہوحلال نہیں کہلاسکتا ،ممکن ہے آپ تجارتی رسوم یا حکومتی اصرار کے ماتحت مجبور ہوں ،لیکن میں مجبور نہیں ہوں ،بیشک آپ کو تکلیف ہوئی اورآپ کی دل شکنی بھی ہوئی ہوگی مگر آپ کے اسلامی اخلاق سے امید کرتاہوں آپ اس کے لئے مجھے معاف فرمادیں گے"۔
اس کے بعد مسافر نے مقامی مسلمان سے رخ پھیر لیا اورقبلے کی طرف منہ کرلیا،اور یادِ خدامیں مشغول ہوگیا ۔
مقامی مسلمان اس آخری جواب سے سخت مضطرب اورپریشان ہوا،اس نے نہایت ندامت سے برتن اٹھائے اور سر جھکا کر واپس چلاآیا اوربرتن گھر پہنچاکرہمسایہ کے ہاں پہنچااو ر اس سے کہاکہ مسجد میں ایک بزرگ مسافر آئے ہیں ،آپ اپنے ہاں سے کھانا لے کر جائیں اورکھلاآئیں ،یہ ہمسایہ مقامی ہسپتال میں ڈاکٹری کاکام کرتا تھا،ڈاکٹر صاحب نے کھانا اٹھایا اورمسجد میں جاپہنچے ،مسافرنے نہایت نرمی اورخوش خوئی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے تعارف اورجان پہچان کی فرمائش کی،ڈاکٹر صاحب ذراباتونی بزرگ تھے ، انہوں نے کہانی سناناشروع کی اورفرمایا: "حضرت !مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ،میری ایک سوروپیہ تنخواہ ہے،دوچار روپئے ہرروز اوپر سے بھی آجاتے ہیں ،بڑا لڑکا کچہری میں ملازم ہے،وہ ۷۵روپئے تنخواہ پاتا ہے،اوردوچارروپئے روزانہ وہ بھی لے آتا ہے،زمین بھی ہے،جہاں سے سال کاغلہ آجاتا ہے وغیر ہ وغیرہ"۔
ڈاکٹر صاحب کی کہانی ختم ہوئی تو مسافر نے انہیں نہایت ہی محبت اورشیرینی سے سمجھایا کہ اسلام ِ مقدس کی روسے رشوت ستانی کس قدر بڑا جرم ہےاور آخر میں اپنی معذوری ظاہر کرکے کھانا کھانے سے انکار کردیا،مسافر کی گفتگو اس قدر سنجیدہ اورباوقارتھی کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی ان کے سامنے اپنی گردن خم کردی اوربڑی ندامت کے ساتھ کھانااٹھاکرگھر واپس چل دئے ،یہاں تاجر صاحب پہلے ہی ان کے منتظر تھے، یہ دونوں نہایت ہی درد وندامت کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنارہے تھے کہ دوچاراورنیک دل مسلمان وہاں جمع ہوگئے ،انھوں نے بھی یہ دونوں کہانیاں سنیں اورآناً فاناً یہ بات محلے میں عام ہو گئی ۔
ڈاکٹر صاحب اورتاجر صاحب نے مل کرعرض کیا کہ اب کسی زمیندار کے ہاں سے کھانا بھیجوانا چاہئے ، تاکہ اس پر سود یا رشوت کا الزام نہ آسکے ،چنانچہ اسی وقت ایک زمیندار کے ہاں سے کھانا بھجوایا گیا۔
مسافر نے ان سے پوچھا :"آپ کے پاس کوئی گروی زمین تونہیں ہے؟’’جب زمیندار صاحب نے اس کا اقرار کیا تو مسافر نے انہیں پھیر دیا اورکہاکہ جو شخص مسلمان ہو کر زمین گروی رکھتا ہے اس کی کمائی حرام سے خالی نہیں ہوسکتی،اس کے بعد ایک عالم صاحب کو بھیجا گیا، ان میں نقص پایا گیا کہ انھوں نے اپنی بہنوں اورلڑکیوں کو حکم ِ شریعت کے مطابق جائیدادمیں حصہ نہیں دیاتھا، اس واسطے مسافر نے ان کا کھانا بھی رَدکردیا اور فرمایا کہ آپ بہنوں اورلڑکیو ں کے حصۂ شرعی کے غاصب ہیں اورآپ کے ہرلقمے میں آدھے سے کم حرام شامل نہیں ہے ،نماز ِ مغرب سے یہ سلسلہ شروع ہوااور رات کے ۹/بج گئے ،متعدد مسلمان کھانا لے کرگئے مگر مسجد سے شرمندہ ونگوں سارہوکرواپس آئے ۔
مسافر کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباًکی کسوٹی لئے مسجد میں بیٹھا تھا اورہر ایک مسلمان کو جوکھانا لے کر جاتا تھا ،اسی قرآنی کسوٹی پر پر کھتا تھا اور شرمندہ کرکے باہر نکال دیتا تھا ،تمام آبادی میں شوربرپا ہوگیا،جابجایہی چرچا تھا،مسلمانوں کو بھوک اور نیند بھول گئی، گھروں میں ،بازاروں میں ،گلی کو چوں میں جہاں بھی چار آدمی بیٹھے تھے، یہی گفتگو اورذکر تھا، جب کسی جگہ ایک مسلمان دوسرے کو کہتا تھا کہ:"تم کھانا لے جاؤ تو وہ اسی وقت کانوں پر ہاتھ رکھ دیتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ میں راشی ہوں ،کوئی کہتا تھا کہ میں سود خوار ہوں ،کوئی کہتا تھا کہ میں کم تولتا ہوں ،کوئی کہتا تھا کہ میں نے لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا ،کوئی کہتا تھا کہ میرے لڑکوں کی آمدنی میں حرام شامل ہے،مختصر یہ کہ دلوں کے عیوب آج زبانوں پر آگئے تھے اوران کابرملااعلان ہورہاتھا،اگر چہ اچھرہ میں ہزار ہامسلمان آباد تھے ،مگر ایک شخص بھی اکل ِ حلال کا مدعی بن کرسامنے نہیں آتاتھا،بزرگان ِ قصبہ کی گرد نیں خم تھیں ،بااحساس مسلمان زمین میں غرق ہوئے جاتے تھے کہ آج ہزارہا مسلمانوں میں ایک شخص بھی نہیں ملتا جو ایک ایسے مہمان کو جواکل ِ حلال کا طالب تھا،ایک ہی وقت کا کھانا کھلاسکے ،رات کے دس بج گئے ،مگر کسی گھر سے کھانا نہ گیا،اب سوال یہ درپیش تھاکہ کیا یہ مسافر اچھرہ سے بھوکا چلا جائے گا؟کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی حرام کھانے پر مصر ر ہیں گے ؟جوں جوں وقت گذرتاجاتاتھا دلوں کا اضطراب بڑھتاجاتاتھا ،یہاں تک کہ رات کے گیارہ بج گئے’’۔
آخر مجمع کے اندر امید کی کرن جلوہ گرہوئی،ایک شخص نے کہا:میں ابھی لڑکیوں کاحصہ دیتا ہوں اوراس نے دے دیا،دوسرے نے کہا:میں گروی زمین چھوڑتاہوں اوراس نے چھوڑدی،تیسرے شخص نے کہا: میں آج کے بعد کبھی سود نہ لوں گااوراس نے سود کاکاروبارترک کردیا،مختصر یہ کہ آن کی آن میں اچھرہ کے بیشمار مسلمانوں پر توبہ واستغفارکے دروازے کھل گئے،کسی نے رشوت چھوڑدی ،کسی نے جھوٹی گواہی کا پیشہ چھوڑدیا، کسی نے راگ رنگ سے توبہ کرلی،کسی نے یتیموں کا غصب شدہ مال واپس کردیا،اس کے بعد تائبین کی جماعت کھانا لے کر مسافر کے پاس آئی اور اُسے بتایا گیاکہ اچھرہ کے بیشمار مسلمان اب اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے ہیں ، انھوں نے اپنی غلطیوں کو محسوس کرلیا ہے اور اب عملی اصلاح وتوبہ کے بعد آپ کے پاس آئے ہیں اوریہ کھانا پیش کرتے ہیں ۔
مسافر نے جب یہ واردات سنی تو سجدے میں گر گیا، اس کے بعد دستر خوان بچھایا گیاجس میں سے مسافر نے چند لقمے کھائے اور اس کے بعد لوگوں کورخصت کردیا۔
صبح کے وقت اچھرہ کے بیشمار مسلمان جوق درجوق مسجد میں آئے تاکہ باخدانسان کی زیارت کریں جس کے زہد ِبے ریاء نے اپنے صرف ایک ہی عمل سے اچھرہ کے آدھے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں سچامسلمان بنادیا تھا،مگر وہ حیرت زدہ رہ گئے جب انہیں بتایاگیاکہ کہ مسافر تہجد کے بعد مسجد سے نکلاتھااور واپس نہیں آیا۔ ..... یہ ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اہل اللہ کس طرح خلق ِ خدا کی اصلاح کیاکرتے ہیں ؟
مسافر نے کوئی وعظ نہیں کیا ،کوئی چلہ نہیں کیا ،کوئی کتاب نہیں چھاپی ،کوئی درس وتدریس کا نصاب نہیں بنایا، وہ مغرب سے تہجد تک صرف چند گھنٹے اچھرہ کی جامع مسجد میں ٹھہرا ،مگر جب وہاں سے نکلاتو صد ہامسلمانوں کی اصلاح ہوچکی تھی ،بیشمار یتیموں کو اپنا حق مل چکاتھا،بے شمار لڑکیوں کو اپنا شرعی حصہ مل چکا تھا،بہت سے مقرو ضوں نے اپنا قرضہ وصول کرلیاتھا،بہت سے رشوت خوار رشوت ستانی سے باز آچکے تھے ، بہت سے جواری جو اچھوڑچکے تھے، یہ سب کہ سب لوگ تقریباًوہ تھے جن پر صد ہا مرتبہ قرآن پڑھاگیا، جنہیں بیسیوں مرتبہ وعظ سنائے گئے اورجن سے متعدد مرتبہ پنچایتوں نے جمع ہوہوکراہل ِ حق کے لئے حق کا مطالبہ کیا،مگر وہ ظلم وستم سے باز نہ آئے ، لیکن اب وہ ایک ہی رات میں اس طرح ازخود گناہوں سے تائب ہوگئے کہ گویا انھوں نے کبھی گناہ نہیں کیا تھا، پھر لطف یہ کہ یہ سار ا کام نماز ِ مغرب سے شروع ہوااور اسی رات گیارہ بجے ختم وہ گیا ۔..... ایسے ہی باعمل اورباخداانسان ہیں جن کی نگاہوں سے قوموں اورملکوں کی تقدیر یں بدل جاتی ہیں ، آؤ !

Sunday 9 December 2012

شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر - راشد اشرف - 14-06-2009 09:01 PM

یہ 1973ء کی بات ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم ”گولڈہ مائیر“ کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مائیر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ”مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مائیر نے کتنی ”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا موقف تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا : ”آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ اسکے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔“ گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔
 
 آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ ہوئی اور عرب ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھا گئے۔
 
 جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: ”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟“ گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔
 
 وہ بولی :”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“ گولڈہ مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے ”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔
 
وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبی کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت نبوی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا
 
 اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: ”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ ”تاریخ فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔ “ گولڈہ مائیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ہوئی ۔
یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے، بیداری کا درس دے رہا ہے، ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، *****ہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کر لئے؟
 
اگر پُرشکوہ محلات، عالی شان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔ آہ! وہ تاریخ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ، آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دیئے۔ پھر معتصم سے کہا: ”جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اسے کھاؤ!“ بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی و بے کسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: ”میں سونا کیسے کھاؤں؟“ ہلاکو نے فوراً کہا: ”پھر تم نے یہ سونا و چاندی جمع کیوں کیا تھا؟“ وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کی ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ”تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیرکیوں نہ بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے۔“ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا ”اللہ کی یہی مرضی تھی۔“ ہلاکو خان نے کڑک دار لہجے میں کہا: ”پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے، وہ بھی خدا کی مرضی ہو گی۔“ پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو خان نے کہا : ”آج میں نے بغداد کو صفحہٴ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔“ تاریخ تو فتوحات گنتی ہے۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے اور زیورات نہیں۔ اقبال کا یہ شعر کس قدر برمحل ہے:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے