Tuesday 28 August 2012

Abdul Hamid II - Ottoman (Turkish) Sultan - 1876-1909

In 1901 the Jewish banker Mizray Qrasow and two other Jewish influential leaders came to visit Sultan Abdul Hamid II, they offered to give him :

1) Paying ALL the debts of the Uthmani Khilafah.
2) Building the Navy of the Ottoman state.
3) 35 Million Golden Leeras without interest to support the prosperity of the Uthmani Khilafah.


In Exchange for

1) Allowing Jews to visit Palestine anytime they please, and to stay as long as they want "to visit the holy sites."
2) Allowing the Jews to build settlements where they live, and they wanted them to be located near Jerusalem.


Sultan Abdul Hamid II refused to even meet them, he sent his answer to them through Tahsin Pasha, and the answer was "Tell those impolite Jews that the debts of the Uthmani state are not a shame, France has debts and that doesn't effect it.
Jerusalem became a part of the Islamic land when Khalifah Omar Bin Alkhattab took the city and I am not going to carry the historical shame of selling the holy lands to the Jews and betraying the responsibility and trust of my people. May the Jews keep their money, the Uthamani's will not hide in castles built with the money of the enemies of Islam." He also told them to leave and never come back to meet him again.

The Jews did not give up on Abdul Hameed, later in the same year, 1901, the founder of the Zionist movement, Theodor Hertzl, visited Istanbul and tried to meet the Sultan. Sultan Abdul Hamid II refused to meet him and he told his Head Of The Ministers Council "Advise Dr. Hertzl not to take any further steps in his project. I can not give away a handful of the soil of this land for it is not my own, it is for all the Islamic ummah. The Islamic ummah that fought Jihad for the sake of this land and they have watered it with their blood. The Jews may keep their money and millions. If the Islamic Khilafah State is one day destroyed then they will be able to take Palestine without a price! But while I am alive, I would rather push a sword into my body than see the land of Palestine cut and given away from the Islamic State. This is something that will not be, I will not start cutting our bodies while we are alive."



Picture:Abdul Hamid II - Ottoman (Turkish) Sultan - 1876-1909


Monday 27 August 2012

وہ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔


جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے خاندان سے ملنے پہلے لندن اور پھر کیلی فورنیا کے شہر فریسنو آئی ہوں . کتابوں کی تقریب اجرا کے بعد ایک ہفتہ ہم سب نے صرف باتیں کرنے اور اپنی یادوں کو ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا . سوآج کل ہم سب صرف باتیں کرتے ہیں اور کبھی کھبی ہم سب کھانا کھانے کی بجائے صرف باتیں کرتے ہیں . آج سوچا کہ امی جی ( اپنی ساس رشیدہ بیگم ) سے ان کی کہانی پوچھتے ہیں . وہ جو ہر وقت پاکستان کے نیوز چینلز دن رات دیکھتی ہیں لیکن ان سب سے الگ اپنی ایک رائے رکھتی ہیں جو کسی مبصر سے کم نہیں ہوتی ..
بڑی مشکلوں سے وہ راضی ہوئیں اور وہ جیسے جیسے بولتی گئیں میں لکھتی گئی . میرے ساتھ صومیہ بھی تھی کاغذ قلم لے کر کہ جہاں میری لکھنے کی رفتار کم ہو جائے وہ نوٹ کر لے .

آئیے امی جی کی کہانی امی جی کی زبانی سنتے ہیں


میں انڈیا کے ضلع جالندھر کے قصبہ اپرا کے گاؤں رائے پور میں رہتی تھی. قران شریف پڑھنے کے علاوہ کوئی کام ضروری نہیں ہوتا تھا. ہمارے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی لیکن سب بچے جوان بوڑھے قرآن پڑھے ہوئے تھے. سب علم کے خواہاں تھے پر ڈگریوں سے بے نیاز تھے . ہم سب لوگ ایک ساتھ رہتے تھے . سب کی عزت و احترام ایک دوسرے پر لازم تھی . جھوٹ بولنے کا تصور تک نہ تھا. خاندان کے خاندان ایک ساتھ رہتے تھے . ساررے رشتہ دار ایک براداری کی طرح رہتے تھے . سینا پرونا ، کھانا پکانا ، زمینداری کرنا، مٹی میں کھیلنا، مٹی میں رہنا ہی کام تھا .
کھیت کنویں سب اپنےتھے . سوائے نمک کے ہم کچھ نہیں خریدتے تھے. ہمارے سامنے ہندوؤں کی برادری رہتی تھی . وہ امیر اور سنار تھے لیکن لین دین میں ہیرے تھے کبھی کوئی لڑائی نہیں . کوئی فساد اور دنگا نہیں . سب ایک دوسرے سے راضی . سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے .شادی بیاہ، جینے مرنے میں بھی ساتھ رہتے تھے .
جب پاکستان بنا تب بھی ہمارے گاؤں میں کچھ نہ ہوا تھا. کسی نے کسی کو نہیں لوٹا. مجھے یاد ہے کہ میرے ابا جی گھر میں آئے اور کہنے لگے کہ ارے تم لوگ ابھی بھی سو رہے ہو. گاؤں کے گاؤں جا رہے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں تھاکہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں .. . میری ماں نے دو لحاف گڈے پر رکھے .اور سب مردوں نے طے کیا کہ ہم اپنی ٹیوں کی خود حاظت کریں گے اور اگر کوئی موقع ایسا آیا تو سب لڑکیوں کو دریا میں پھینک دیں گے لیکن کسی کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے . اور خود لڑتے ہوئے مر جائیں گے . ابھی ہم چلے ہی تھے کہ ہمارے گاؤں کو کسی نے آگ لگا دی .. بس پھر کیاتھا ہم سب دھاڑیں مار کر رونے لگے .. لیکن چلتے گئے اورپھر اسی طرح قافلے کے قافلے ملتے گئے اور ہم سب ایک کیمپ میں پہنچ گئے


اتنے میں ایسے ہوا کہ ایک طرف سے رونے دھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں . لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں میں مظبوطی سے تھام لیا اور دریا کی طرف دوڑنے لگے کہ لڑکیوں کو پھینک دیں گے . لیکن کسی نے چیخیں مار کر سمجھایا کہ لوگ اپنی جگہ چھوٹنے پر رو رہے ہیں . کوئی بلوہ کرنے والا آیا گیا نہیں ہے . میری امی کی یہی دعا تھی کہ اے اللہ اگر مارنا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ مار دے لیکن ہمیں الگ الگ مت کرنا. ایسے میں میرا چھوٹا بھائی ہم سے بچھڑ گیا. وہ جو گھنٹے ہم نے گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے گزرے . لیکن شکر خدا کا کہ وہ مل گیا . اور پانچ میل کے فاصلے پر فلور کیمپ میں پہنچ ہی گئے . ہم لوگ چھوٹی عید کے بعد نکلے تھے اور بڑی عید تک ہی ہم لوگ کیمپ میں ہی تھے .
بارشیں برسیں . سیلاب آیا ، بھوک آئی ، سردی آئی ، کئی بچے پیدا ہوئے ، لاکھوں مر گئے ، بس نہ آیا تو آرام کا دن نہ آیا . بچوں کو اپنی گود میں سنبھالے بارشوں میں دوسرے کیمپ جانا پڑ گیا . نہ پاکی کا پتہ نا صفائی کا خیال . نہ کھانا نہ پانی … وہیں میری دادی اور تائی جی اور ان کی بیٹی کی وفات ہو گئی . کوئی جماعت ..کوئی خیر خبر لینے والا نہ تھا. . پھر ہم لوگ ساڑھے تین مہینے کیمپ میں رہے . پھر کہیں جا کر ریل گاڑی کا بندوبست ہوا اور ہم پاکستان کے لئے روانہ ہوئے. یہ ہندوؤں کا اصول تھا کہ اگر ہندؤں سے بھری گاڑی لاہورر سے آرام سے واپس آتی تو وہ لوگ مسلمانوں کی گاڑی کو سکون سے لاہور جانے دیتے تھے ورنہ امرتسر ، دریائے ستلج پر ہی بھری گاڑی تباہ کر دیتے تھے .
ایک دن ہم لوگ مال گاڑیوں میں بھر دئے گئے اور پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے . ہم لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں تھی . کہ ہندو مار ہی نہ دیں . ملتان چھاؤنی پہنچ کر گاڑی روک لی گئی . اور سب سے کہا کہ یہی پر سب اتر جائیں . گاڑی سے اتر کر سب سجدہ شکر میں پاک سر زمین پر گر گئے . اب ایک نئی مشکل درپیش تھی کہ کہاں جائیں . ہم لوگ پھر فوجی چھاؤنی میں آگئے . ایک کمرے میں بہت سارے خاندان ایک ساتھ رہنے لگے .دس دن رہنے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے تو دو دن خانیوال پر رکنے کے بعد میاں چنوں پہنچے .
میاں چنوں میں کپاس اور روئی کے کارخانوں میں کیمپ لگے ہوئے تھے. وہاں رک گئے .ہم سب حیران تھے کہ اب کیا کریں . وہاں دس دن رہنے کے بعد ہم پانچ سو خاندانوں نے ایک ہی گاؤں میں اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا اور گورنمنٹ سے کلیم میں زمینیں ایک ساتھ مانگ لیں تاکہ سب کے دکھ سکھ سانجھے رہیں. ہم سب نے کھانا ایک ساتھ پکانا اور ایک ساتھ کھانا. بس یہی ہماری برادری تھی



پھرچودہ سال کی عمر میں1948 میں میری شادی ہو گئی . نہ کوئی لین دین نہ کوئی شغل میلا . سب اتنی سادگی اور سکون سے ہوا کہ کوئی سوچ نہیں سکتا . تمہارے ابا جی کی عمر سولہ سال کی تھی . ان دنوں تمہارے ابا جی لاہور کام کرتے تھے . میں بھی وہیں آگئی . ہم دنوں ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے اور ایک ساتھ ہی بوڑھے بھی . میں تمہارے ابا جی کے سفر کی گواہ ہوں . تمہارے ابا جی پڑھے لکھے تھے اور نوکری پیشہ تھے . سب انہیں طعنے دیتے تھے کہ زمینداری کرو کہ زمینداری کی جڑیں زمین کے اند ر ہوتی ہیں اور نوکری کی زمین کے اوپر . لوگ میرے باپ کوبھی طعنہ دیتے تھے کہ انہوں نے میری شادی کسی فقیر سے کر دی ہے . پر میرے باپ کہتے تھے کہ نصیب نوکریوں سے نہیں بنتے . نصیب بنانے والا اوپر ہے جو جنگل میں بھی منگل کر دیتا ہے .
اور ایسا ہی ہوا میری زندگی جنگل سے بے شک شروع ہوئی پر اس میں ابھی تک منگل ہی ہے . مجھے اللہ تعالی نے اتنے سکھ عطا کئے کہ میں اس کا شکر نہیں ادا کر سکتی . اس نے مجھے چھت دی ، عزت دی ، تماہرے ابا جی کا ساتھ دیا ، عزت کرنے والے نیک صالح اولاد عطا کی . وہ مجھے اس کے علاوہ دے بھی کیا . سچ کہوں تو مجھے کوئی دکھ نہیں سوائے پاکستان کی بربادی کے . ہر شخص ظالم ہو گیا ہے . خود غرضی اور بدنیتی کاہر طرف راج ہے. ہر طرف ایک اندھیر نگری سی ہے . مجھے اپنا ہندوستان والا گھر ابھی بہت یاد آتا ہے . خوابوں میں بھی وہیں رہتی ہوں . میں روز کیا ہر پل سوچتی ہوں کیا کوئی حکمران ، کوئی چھوٹا بڑا تم یا کوئی اور ہماری ہجرت کی تکلیف سہہ سکتا ہے.
پاکستان سے تو ہم لوگ آگئے ، بس بھی گئے ، گھر بار بھی بن گئے . بس پتہ نہیں لوگ کب اور کیسے بدل گئے . وہ بھائی چارہ نہیں رہا، محبت نہیں رہی ، مقابلے اور حسد کی دوڑ لگی ہوئی ہے . لوگ اتنا سہم گئے ہیں کہ اپنی خوشیاں اپنوں سے ہی چھپانے لگ گئے ہیں … بس میری بیٹی یوں سمجھو کہ جب پاکستان بن رہا تھا اس وقت بھی یہ حال نہیں تھا جو اب ہے . اس وقت قرار آجاتا تھا اور سمجھ بھی آتی تھی کہ کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے ….. اب کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے یہ سمجھ نہیں آتا ….
میں نے پوری ہجرت کے سفر میں صرف سنا تھا کہ بلوائی مسلمانوں کو مار رہے ہیں لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا … بیٹی کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو مارتے دیکھا ہے .. ہندوؤں کے ساتھ رہ کر کسی نے کسی کو کافر نہیں کہا پر آج کے مسلمان کے لئے اپنے ہی کسی مسلمان بھائی کو کافر کہہ دینا سب سے آسان تر ہے ….
بیٹی میرا پیغام تم سب کے لئے یہ ہے کہ دیکھو سب نے کسی جگہ تو رہنا ہی ہے تو کیوں نہ مل کر رہیں .. محبت سے رہیں ..ایک دوسرے کی عزت کریں اور انہیں ان کی مسلکی آزادی کے ساتھ رہنے دیں ..اگر ہم ہی ایک دوسرے کو کافر کہیں گے یا برا بھلا کہیں گے تو سوچیں جو مسلمان نہیں ہیں وہ ہمارے بارے میں کیا کیا نہ سوچیں گے … ؟ ؟
اس کے بعد میری امی جی (میری ساس رشیدہ بیگم) نے مزید کچھ بولنے سے انکار کر دیا اور جھلملاتی آنکھیں لئے اپنے کمرے میں چلی گئیں.

Tuesday 14 August 2012

پاکستان ۔۔۔۔جس کے لئے اُنہوں نے تن من دھن کی قربانی دی تھی۔

‏Photo: ایک بڑھیا بےچاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئی ۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی ۔ اسے لے کر بامشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھ
ا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھاکہ ۔۔۔۔ بھیا
تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا پاکستان وجود میں آیا ہی تھا، اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر۔ اس لئے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے ۔

پاکستان ۔۔۔۔ جو اُن کی تمناؤں کا ثمرِ نورس تھا۔
پاکستان ۔۔۔۔جس کے لئے اُنہوں نے تن من دھن کی قربانی دی تھی۔
پاکستان ۔۔۔۔جسے اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا گہوارہ بننا تھا۔ پاکستان ان کے لئے سب کچھ تھا۔ دین بھی دنیا بھی۔ اس کا چپّہ
چپّہ ان کے لئے مقدس تھا۔

اس گلِ تازہ کی خاطر اُنہوں نے خیابان و گلزار سب چھوڑ دئیے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ان کا کیا ہوگا۔ اُنہیں تو بس یہی ایک خوشی تھی کہ دو صدیاں گزرنے کے بعد پھر وہ دن آئے تھے کہ ارضِ ہمالہ کے ایک گوشے میں لا الہ الاللہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہ پرچم جو مسلمانوں کی عزت و وقار کا مظہر تھا۔

یہ بے چاری بُڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ ۔۔ ۔ یہ ہمارا ملک ہے ، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ کیا کیا کچھ کھویا تھا کہ اس ملک کو پا لیں یہ کون کہتا ؟کیا کہتا ؟ کس سے کہتا؟ مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔

گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کا روانِ حیات میں لکھتے ہیں۔ "ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھو ! یہ چیکر کیا کرتا ہے۔

چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ و ہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے ۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا ۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت ، غم واندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں ۔ میں نے بڑٰی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بُڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بُڑھیا اُس سے بے اختیار بولی ۔ ۔۔۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ ۔ جواب ملا ۔۔۔ امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو ۔ تمھارے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔

احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا‏

پاکستان ۔۔۔۔جسے اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا گہوارہ بننا تھا۔ پاکستان ان کے لئے سب کچھ تھا۔ دین بھی دنیا بھی۔ اس کا چپّہ
چپّہ ان کے لئے مقدس تھا۔

اس گلِ تازہ کی خاطر اُنہوں نے خیابان و گلزار سب چھوڑ دئیے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ان کا کیا ہوگا۔ اُنہیں تو بس یہی ایک خوشی تھی کہ دو صدیاں گزرنے کے بعد پھر وہ دن آئے تھے کہ ارضِ ہمالہ کے ایک گوشے میں لا الہ الاللہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہ پرچم جو مسلمانوں کی عزت و وقار کا مظہر تھا۔


یہ بے چاری بُڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ ۔۔ ۔ یہ ہمارا ملک ہے ، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ کیا کیا کچھ کھویا تھا کہ اس ملک کو پا لیں یہ کون کہتا ؟کیا کہتا ؟ کس سے کہتا؟ مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔


گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کا روانِ حیات میں لکھتے ہیں۔ "ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھو ! یہ چیکر کیا کرتا ہے۔


چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ و ہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے ۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا ۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت ، غم واندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں ۔ میں نے بڑٰی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بُڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بُڑھیا اُس سے بے اختیار بولی ۔ ۔۔۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ ۔ جواب ملا ۔۔۔ امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو ۔ تمھارے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔


احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی ت
ھا

Happy Independence Day 2012

جشن آزادی سال 2012 مبارک ہو۔


Monday 13 August 2012

Animals whose meat is HALAL & HARAM


Animals whose meat is HALAL:
  1. Camel
  2. Goat
  3. Sheep
  4. Buffalo
  5. Stag
  6. Rabbit
  7. Cow (including mountain cow)
  8. Wild-ass (The prohibition in the Hadith is of domesticated donkeys)
  9. Fish (of all types, including prawns according to those who consider prawns to be a form of fish. Others however, don’t permit its consumption, for they dont consider prawns to be from the fish family. For details, see an earlier post).
  10. Deer/Antelope/Gazelle
  11. Duck
  12. Heron (grey or white wading bird with long neck and long legs and (usually) long bill).
  13. Nightingale
  14. Quail
  15. Parrot
  16. Francolin
  17. Locust
  18. Partridge (heavy-bodied small-winged South American game bird)
  19. Lark (North American yellow-breasted songbirds)
  20. Sparrow
  21. Goose
  22. Ostrich
  23. Dove
  24. Pigeon
  25. Stork
  26. Rooster
  27. Chicken
  28. Peacock
  29. Starling
  30. Hoopoe (any of several crested Old World birds with a slender down-curving bill, known in Arabic as Hudhud- that was sent by Sayyiduna Suleyman (peace be upon him).
Animals whose meat is HARAM:
  1. Wolf
  2. Hyena
  3. Cat
  4. Monkey
  5. Scorpion
  6. Leopard
  7. Tiger
  8. Cheetah
  9. Lion
  10. Jerboa
  11. Bear
  12. Swine/pig
  13. Squirrel
  14. Hedgehog
  15. Snake
  16. Tortoise/Turtle
  17. Dog
  18. Crab
  19. Jackal
  20. Donkey (domesticated)
  21. Lizard (The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) forbade the eating of a Lizard. Recorded by Imam Abu Dawud in his Sunan from Abd al-Rahman ibn Shibl (Allah be pleased with him. Hadith no: 3790)
  22. Fox
  23. Crocodile
  24. Weasel
  25. Elephant (Radd al-Muhtar, 6/306)
  26. Falcon
  27. Hawk
  28. Kite
  29. Bat
  30. Vulture
  31. Mouse
  32. Rat
  33. All insects, such as a Mosquito, Fly, Wasp, Spider, Beetle, etc.

And Allah knows best.
Muhammad ibn Adam al-Kawthari
Darul Iftaa, Leicester, UK

Thursday 9 August 2012

جاگو اہل اسلام کہ یہی وقت ہے بیداری کا۔

 
 جاگو اہل اسلام کہ یہی وقت ہے بیداری کا۔

مجوسی ابو لولو فیروز (ملعون)کا شیعوں نےمزار بنا دیا.Lanat Ho In Per Bayshumar



امیر المومنین خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر ابن خطاب کو شہید کرنے والا مجوسی ابو لولو فیروز (ملعون) جس کو صحابہ کرام نے قتل کر دیا تھا اس کی لاش مجوسی ایران لے گئے تھے اور ایران میں ہی دفنایا تھا۔ اس کی قبر کو بعد میں شیعوں نےمزار بنایا اور اب وہ باقاعدہ زیارت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ہر سال شیعہ ذائرین وہاں عید بابا شجاع منانے آتے ہیں ملاحضہ کیجیے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب بن ہاشم بن عبدمناف


Wednesday 8 August 2012

وہ کمبخت مدانی پھیر گیا


ساڈے ارادوں پہ پانی پھیر گیا
جاتے جاتے  کہانی  پھیر گیا
ساری زندگی لسی کو ترسے
وہ  کمبخت  مدانی  پھیر   گیا

واہ زرداری واہ، ادھر بھی فساد پھیلا دیا۔


لو جی کچھ لوگوں کا کام ہی فساد پھیلانا ہے جیسے کہ ملاحظہ فرمائیں ، اپنے ملک میں لوگ، بجلی، گیس، پانی، خوراک اور وسائل کی عدم دستیابی کا شکار ہیں اور صدر پاکستان جناب آفسوس زورداری کیا گل کھلا رہے ہیں۔ قرض لو عوام کے نام پر امداد لو عوام کے نام پر اور کالا دھن سفید کرنے کی کوشش کرو جا کر درباروں اور مزاروں پر اور وہ بھی پڑوسیوں کے ملک میں ، کیا خیال ہے پڑوسیوں کا لیکن کیا فائدہ ان کی فیاضی اور شاہ خرچی باقاعدہ شر پھیلانے کی وجہ ہی بن گئی ہے۔ خبر کچھ یوں ہے۔

...................Thanks BBC URDU................

آصف زرداری کے پانچ کروڑ روپے نذرانے پر تنازع
آصف زرداری
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اجمیر شریف کی درگاہ کی زیارت کرنے پر جو نذرانہ پیش کیا تھا اس پر پیدا ہونے والا تنازع ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔
درگاہ کا نظم و نسق سنبھالنے والے دو اداروں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس رقم کا اصل حقدار کون ہے۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے آٹھ اپریل کو اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
زیارت کرنے کے بعد انہوں نے اس تاریخی درگاہ کو پانچ کروڑ روپے کا نذرانہ پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے اس معاملے کے حل کے لیے اجمیر کا دورہ کیا اور درگاہ کمیٹی کے فریقین سے ملاقات کی۔ لیکن پھر بھی معاملہ حل نہیں ہوا۔
ہائی کمیشن کے اہلکار ابرار احمد نے اجمیر میں خدام کی نمائندگی کرنے والی انجمن اور درگاہ کمیٹی کے حکام سے بات چیت کی ہے۔ پاکستانی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ یہ رقم اجمیر میں ہی شاید سولہ اگست کو ایک تقریب میں دی جائے گي۔
درگاہ کی انجمن کے صدر حسام الدین چشتی کا کہنا ہے ’روایتی طور پر نذارنے پر انجمن کا حق بنتا ہے۔ اگر وہ ہماری حق تلفی کرتے ہیں تو پھر ہم اس تقریب میں شرکت کرنے کے بارے میں دو بار سوچیں گے۔



اس سے پہلے کہ رمضان گزر جائے


تھوگام جارجی جو دا جاریی::::::::::A Request from Namrud



Tuesday 7 August 2012

زورداری کی "کالج کی بدکردار یادوں" سے اقتباس


دشمنی یا دوستی!!!! ایران کا اصل چہرہ

ایک اور چونکا دینے والی خبر ملاحظہ فرمائیں۔ ایران کے ساتھ کتنا تعاون ہو رہا ہے وہ بھی عیسائیوں، یہودیوں اور صہوانیوں کی طرف سے۔
http://mycatbirdseat.com/wp-content/uploads/2010/09/JUDAIC-REPUBLIC-OF-IRAN.gif

امریکہ میں بینکاری کے نگران ادارے نے ایک بڑے برطانوی بینک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ ڈھائی سو ارب ڈالرز کے غیر قانونی لین دین کو پوشیدہ رکھا ہے۔
ریاست نیو یارک کے حکام نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کو ’رووگ‘ یعنی غیرذمہ دار ادارہ قرار دیا ہے جس نے گزشتہ سالوں کے دوران اپنے جھوٹے ریکارڈز مرتب کیے تاکہ ایران کو منی لانڈ رنگ یعنی نا جائز رقوم یا آمدن کے بیرون ملک منتقلی کی روک تھام کےامریکی قوانین سے بچنے میں مدد ملے۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے شعبہء معاشیات کا کہنا ہے کہ ایران کے اُن اقتصادی اداروں کے ساٹھ ہزار مالی معاملات کو پوشیدہ رکھا گیا جن پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔