Monday 30 January 2012

زندگی سے ڈرتے ہو؟

 ♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥

زندگی سے ڈرتے ہو؟ : ن م راشد

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو

بات وہ جو دل پہ اثر کر جائے


Thursday 26 January 2012

منانا

صرف احساس ندامت، اک سجدہ اور چشم تر
اے  خدا   کتنا   آساں   ہے   منانا    تجھ   کو

پھڑکا تڑکا

 
 
اس کے دل اندر ساڈی یاد کا روڑا رڑکا ہوگا
ماہی بے آب کی مانند‘ تڑپا ہوگا، پھڑکا ہوگا

شور شرابا کھڑکا دڑکا سن کر اس نے گیس لگایا
یا بادل گرجا ہے اوپر‘ یا بیگم کا کڑکا ہوگا

سینے کی ہانڈی کے اندر وکھری ٹائیپ کی شوں شوں ہوگی
ساڈے دل کی دال کے اوپر اس کے حسن کا تڑکا ہوگا

خوش ہو کر دروازہ کھولا اگوں میٹر ریڈر نکلا
وہ سمجھی تھی آج بھی سامنے والا لڑکا ہوگا

گوری سے کالی


مصیبت یہ نرالی ہو گئی ہے
وہ سر کے سائیں والی ہو گئی ہے

گیا ہے لمبی چھٹی پر جو افسر
میری صحت مثالی ہو گئی ہے

کرشمے تھے یہ بیوٹی پارلر کے
وہ پھر گوری سے کالی ہو گئی ہے

چڑھی ہے جب سے قوالوں کے ہتھے
رباعی پھر قوالی ہو گئی ہے

ہمیں دیکھا تو وہ چشم غزالی
جمالی سے جلالی ہو گئی ہے

اسے آئی نہیں شاپنگ میں لذت
ہماری جیب خالی ہو گئی ہے

دیا ہے ڈائیٹنگ پر زور اس نے
وہ پھر پیالے سے پیالی ہو گئی ہے

کاروبار ختم ہوگیا


شادی کے بعد حسن کا نکھار ختم ہو گیا
لیلیٰ مجنوں میں تھا جو پیار ختم ہو گیا

لیلیٰ نے مار مار کے گنجا کر دیا اس کو
مجنوں پہ چھایا ہوا خمار ختم ہو گیا

گھر سے جاتا ہے تو ہفتوں خبر نہیں آتی
عشق پر سے اس کا اعتبار ختم ہو گیا

کاغذ جیسی روٹی تھی وہ بھی گئی مک
مرتبان میں رکھا تھا جو اچار ختم ہو گیا

لات مار کے دھتکار دیں گے امریکہ والے
اک بار جو پاکستان پر انحصار ختم ہو گیا

کجلا بڑا مہنگا بکتا ہے بازار میں اب
عاشقوں پر حسین اکھیوں کا وار ختم ہو گیا

چاروں صوبوں میں سیاست کا بازار گرم ہے
عثمان باقی جو بھی تھا کاروبار ختم ہو گیا

برگر فروش_Muntakhib Tehreer

     وہ بہت غریب ساآدمی تھا کام کی تلاش میں اکثر شہر کے دفتروں والے علاقے میں پھرتا رہتا تھا وہ دیکھتا تھا کہ دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین دن کے اوقات میں کھانا کھانے کے وقفے کے دوران جلدی جلدی دفاتر سےنکلتے تھے اپنے ٹفن باکس کھولتے کسی ریسٹورنٹ کسی کھلی جگہ پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور پھر واپس اپنی اونچی  عمارتوں کے  دفاتر کی طرف دوڑتے چلے جاتے وہ ان سینکڑوں ،ہزاروں ٹفن برداروں کو دیکھتا تھا ۔
       پھر ایک دن اسے ایک بات سوجی اس  نے اپنے گھر پر بن کباب بنائے اور بن کباب بھی کیا بس ایک بن لیا اس کو کاٹ کر اس کے اندر گوشت کا ٹکڑا رکھا تھوڑی  سی چٹنی اور مصالہ ڈالا اسے گرم کیا اور اپنی پرانی سی سائیکل پر رکھ کر دن کے کھانے  کے وقفے میں دفاتر کے باہر  آکر کھٹرا ہوگیا  اس کے دل میں بھی خدشات تھے  ،ناکامی کا خوف تھا نہ جانے کوئی اس  کے کھانے کو پسند کرے گا یا نہیں ؟کہیں اس  غریبی میں اور آٹا نہ گیلا ہوجائے اور میرے پاس جو  تھوڑے  بہت پیسے ہیں وہ بھی نہ چلے جائیں؟۔
مگر اسےبہت  حیرت اور خوشی ہوئی ہے  کہ دفاتر کے ملازمت پیشہ لوگوں نے اس سے برگر خرید کر کھائے اور اس سہولت کی فراہمی پر خوش بھی ہوئے اور پوچھا  بھائی تم کل بھی آو گے ؟ یہ ہمارا تو  کام آسان ہوگیا  روز ٹفن اٹھا کر بھاگنا پڑتا تھا۔
       اب وہ روز برگر بناکر لاتا اور اس کے برگر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے وہ مسلسل سوچتا رہتا کہ  ان کو مزید مزیدار اچھا اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے اس کاکام بڑھتا پھیلتا اور پھولتا چلا گیا  پھر اس نے ایک دکان بنا لی پھر دوسری ،تیسری اور چوتھی دکان تک پہنچا اور آج   اس کی اولاد برگر کی سب سے  بڑی چین کی مالک ہے اور دنیا اسے”میکڈونلڈ “کے نام سے جانتی ہے،آپ کے خیا ل میں اس شخص نے کیا کیا تھا؟؟؟۔
 اس نے(1) ایک نیڈ گیپ (Need Gap)تلاش  کیا 
(2)اس نیڈ گیپ کے مطابق  چیز تیار کی
(3)  اس کے معیار کا خیال رکھا
(4) اسے ٹھیک جگہ لے کر پہنچا
(5)اس میں مسلسل بہتری کے آئیڈیاز سوچتا رہا
(6)  اپنا رویہ دوستانہ رکھا
(7) ہمت ہارے بغیر مسلسل کوشش کرتا رہا اور بلآخر وہ کامیاب ہوگیا اس نے اپناہدف حاصل کرلیا ،پھر آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ ہر شخص اپنا پہیہ  دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کرے؟ جن بھی لوگوں نے کوئی کامیاب کام کرنا ہے وہ اس شخص یا اس جیسے دوسرے لوگوں سے ہی کیوں نہ سیکھ لیں؟کیا خیال ہے؟
 
by on October 5, 2011

Wednesday 25 January 2012

بات ہے رسوائی کہ لیکن بات ہے سچائی کی

پہلے کہتے تھے کہ :

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

لیکن میں کہتا ہوں :

بات ہے رسوائی کہ لیکن بات ہے سچائی کی

خوب کہا بہت خوب کہا۔ رشتوں ناتوں میں جب مول تول اور خود غرضی آ جائے تو ان کا سارا تقدس پامال ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئ ان کو سمجھائے جو ہر رشتے کو غرض کی نظر سے دیکھتے ہیں،

خلوص بیچ دیا  غرض خریدنے  کو راشد
سودا مہنگا نہیں‌ کہتے  سر بازار بھی ہیں
جن کے واسطے ہم نے دلوں کو  محل کیا
رشتوں کو روندنے والے رشتے دار ہی ہیں

اردو سیارہ کے نام پیغام